• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس کی گاڑی ستر کی دہائی سے لے کر اب تک مسلسل ریورس گئیر (Reverse Gear) پرچلتی چلی آرہی ہے۔ قیامِ پاکستان کے کچھ عرصے بعد ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کی گاڑی بڑی تیز رفتار ی سےآگے بڑھ رہی تھی اور دنیا اس کی ترقی کو دیکھ کر حیران تھی۔اُس دور پر اگر ایک نگاہ ڈالی جائے تو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ پاکستان، امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس جیسے ممالک کا ہم ہوا ہی چاہتا تھا بلکہ کئی ایک دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان نے اس دور میں نہ صرف جرمنی کو قرضہ فراہم کیا بلکہ پاکستان کے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر محبوب الحق نے کوریا جیسے ملک کے لیے پانچ سالہ منصوبہ تیار کرتے ہوئے اس کے لیے پاکستان کے نقشِ قدم پر چلنے کی راہ بھی ہموار کی تھی۔ ( اس وقت تمام ترقی پذیر ممالک پاکستان ہی کو اپنا رول ماڈل سمجھتے تھے)۔ اس دور میں پاکستان ہی عالم اسلام کا واحد ملک تھا جہاں اسلامی ممالک کے باشندے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتے تھے۔ ترکی بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل تھا جس کے بڑی تعداد میں طالب علم پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ (اُس وقت کے حالات موجودہ حالات سے برعکس تھے اور اسی وجہ سے میں کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کی گاڑی ریورس گیئر پر چل رہی ہے ) اِس وقت ترکی کے کئی ایک اعلیٰ عہدوں پر پاکستان کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلبا خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان اُس وقت ایک اسلامی ملک ہونے کے باوجود دنیا میں ایک جدید، جمہوری اور ماڈرن ملک کے طور پر اپنی شناخت قائم کیے ہوئے تھا۔پاکستان میں تنگ نظری، انتہا پسندی اور گھٹن جیسی صورتِ حال کا نام و نشان بھی نہ تھا۔

تو پھر ایسا کیا ہوا کہ ترقی کی راہ پر گامزن پاکستان کی گاڑی ریورس گیئر پر چلنے پر مجبور کردی گئی؟ پاکستان کی گاڑی کو ریورس گیئر پر چلنے پر بدعنوانی، بد دیانتی، فراڈ، دھوکہ بازی، رشوت ستانی، جاگیرداری اور فیوڈل سسٹم سے آبیار کیے جانے والے’’پارلیمانی نظام‘‘ نے مجبور کیا۔ ہمارے اراکینِ پارلیمنٹ جس طرح دو دو ہاتھوں سے ملک کو لوٹتے ہیں کسی اور ملک میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔کیا ہم نے سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر کھلے عام سیاستدانوں کے کروڑوں میں ریٹ لگتے ہوئے نہیں دیکھے ؟پاکستان میں جب تک پارلیمانی نظام موجود ہے ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ اسی طرح وزیراعظم کےسر پر تحریک عدم اعتماد کی تلوار لٹکنے کی وجہ سے کسی بھی صورت وہ اراکینِ پارلیمنٹ کی ناراضی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔

اس وقت پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو بھی کم و بیش اسی قسم کی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ ان کی اتحادی جماعتیں ہی نہیں بلکہ ان کی پارٹی کے اپنے اراکین ان کو بلیک میل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ان ہی بلیک میلرز کی وجہ سے انہیں اس بات کا اچھی طرح احساس ہوچکا ہے کہ وہ اس پارلیمانی نظام میں رہ کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کرسکتے اور جو وعدے انہوں نے عوام سے کیے تھے وہ اس پارلیمانی نظام کے تحت کسی طرح بھی پورے نہیں کرسکتے۔ان کو معلوم ہے کہ صدارتی نظام میں صدر کو اراکینِ پارلیمنٹ کی بلیک میلنگ کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا، نہ ہی کسی تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ پارلیمنٹ سے باہر تعلیم یافتہ، دیانتدار، محبِ وطن بیورو کریٹس میں سے قابلِ بھروسہ افراد کو وزیر نامزد کرسکتے ہیں جن کو انتخابات میں حصہ لینے کا کوئی خدشہ لاحق نہیں ہوتا اور وہ بڑی دیانتداری سے ووٹوں کی خریداری کے جھمیلےمیں پڑے بغیر اپنی وزارت کو پاکستان کی ترقی کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ صدارتی نظام کے لیے ریفرنڈم کروایا جاسکتا ہے اورعوام کے اس نظام کے حق میں ووٹ دینے کے ستر فیصد سے زائد امکان موجود ہیں کیونکہ وہ کرپٹ پارلیمانی نظام سے تنگ آچکے ہیں جہاں چند خاندانوں ہی کو پارلیمنٹ میں پہنچنے کا حق حاصل ہےاور ان سیاستدانوں ہی کی وجہ سے ملک کی گاڑی ریورس گیئر پر چلنے پر مجبور ہے۔

صوبائی اکائیوں کو بھی اُن کی مرضی سے چھوٹے انتظامی صوبوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور جو فنڈ صوبائی اسمبلیوں اور صوبائی وزراء پر خرچ کیا جاتا ہے اسے براہِ راست اِن چھوٹے انتظامی صوبوں کے بلدیا تی اداروں کے توسط سے ملک کے عوام کے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔موجودہ صوبائی نظام میں تو دور دراز کے علاقوں کی طرف توجہ دینا ممکن دکھائی نہیں دیتا البتہ شہروں اور اضلاع کی سطح پر (جیسے ترکی اور دیگر ممالک میں اس طر ح کی اکائیاں یا صوبے موجود ہیں) صوبے یا اکائیاں قائم کرتے ہوئے اور انہیں تمام ٹیکس اکٹھا کرنے کا اختیار دیتے ہوئے اس خلفشار سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح صدارتی نظام کے تحت ملک کو ایک بار پھر ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے پاکستان کے ساٹھ کی دہائی کے وقار کو بحال کیا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین