• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل کراچی میں دیواروں کے آگے بے بس بن جانے والوں کے درمیان گرماگرم اور دھواں دھار بحث چل پڑی ہے۔ کچھ بے بس لوگوں کا کہنا ہے کہ ستمبر میں پانچ برس تک اجڑے دیار پر حکومت کرنے بلکہ حکومت فرمانے کے بعد رخصت ہونے والے صدر جناب آصف علی زرداری کو سبکدوش ہوتے ہی دیوار کراچی گرا دی جائے گی اور دیوار کے اس پار بسنے والے پانچ ہزار خاندانوں کو اس روڈ پر پیر رکھنے کی اجازت مل جائے گی جو ان کیلئے برسوں سے نو گو ایریا بنا ہوا تھا۔ کراچی دنیا کا واحد شہر ہے جہاں ہر بستی، ہر علاقے، ہر محلّے میں ایک چھوٹا موٹا ڈان رہتا ہے۔ اصل میں وہ ڈان موٹا کم اور چھوٹا زیادہ ہوتا ہے۔ ہوا کا تیز جھونکا آئے تو سوکھے پتّے کی طرح اڑ جائے مگر وہ چھوٹا موٹا ڈان اڑتا نہیں۔ ہوا کے تیز جھونکے اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ یہی پہچان ہوتی ہے ایک ڈان کی۔ مثلاً میں ڈان نہیں ہوں اس لئے جب کراچی میں آندھی آتی ہے یا جھکڑ چلنے لگتے ہیں تب میں پھٹی پرانی کتاب کے اوراق کی طرح اڑ جاتا ہوں۔ کبھی کھیتوں اور درختوں سے جا لگتا ہوں، کبھی گندے نالے میں بہہ جاتا ہوں، کبھی قانون شکن ٹریفک تلے کچل جاتا ہوں حالانکہ میں کراچی کے چھوٹے موٹے کسی ڈان کی طرح دبلا پتلا اور مریل نہیں ہوں۔ میں فقیر دیکھنے میں بھاری بھرکم لگتا ہوں۔ اپنی ڈیل ڈول کی وجہ سے بچّوں اور خواتین کو بھالو لگتا ہوں۔ میں آپ کو مسکرانے پر مجبور کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ نہ جانے کب سے لوگوں نے مسکرانا اور ہنسنا چھوڑ دیا ہے۔ اب جب بھی لوگوں کو ہنسانے کی کوشش کی جائے تو وہ رو پڑتے ہیں۔ جب بھی لوگ ہنسنا چاہتے ہیں تب وہ کسی ٹیلی ویژن چینل سے سیاسی پروگرام دیکھ لیتے ہیں۔ میں لاکھ فضول سہی مگر آپ کو مسکرانے پر مجبور کرنے کی فضول کوشش کبھی نہیں کر سکتا۔ آپ نے کبھی چوہدری نثار کو مسکراتے ہوئے دیکھا ہے؟ میں آپ سے میچ فکسنگ کرنے کو تیار ہوں۔ آپ مجھے چوہدری نثار کو ہنسا کر دکھائیں۔ میں آپ کے ساتھ یہ شرط بھی لگانے کیلئے تیار ہوں کہ اجڑے دیار کے لوگ چودھری نثار کو کھلکھلا کر ہنستا ہوا دیکھ کر دھاڑیں مار کر رو پڑیں گے۔
میرے کہنے کا مطلب ہے کہ جہاں جہاں چھوٹے موٹے ڈان رہتے ہیں، وہاں انہوں نے دیواریں، بیریئر اور رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ کچھ ایسے علاقے اور محلّے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں چھوٹے موٹے ڈان تو رہتے ہیں مگر راستوں پر دیواریں، رکاوٹیں اور بیریئر نظر نہیں آتے۔ وہاں علاقے کے چھوٹے موٹے ڈان کے کمانڈوز جدید اسلحہ سے لیس رکاوٹ کی علامت بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس اس قدر مہنگے ہتھیار کہاں سے آتے ہیں، مہنگے ہتھیار خریدنے کیلئے ان کے پاس پیسے کہاں سے آتے ہیں، غیر قانونی ہتھیار رکھنے پر ان کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟ یہ باتیں آپ کے اور میرے سوچنے کی نہیں ہیں۔ اس کام کیلئے سرکار نے بڑے ذہین آدمی ملازمت میں رکھے ہوئے ہیں۔ وہ جانیں اور ان کا کام جانے۔ ہم تو ٹھہرے بونگے بالم۔ ہمیں کیا پتہ کہ اس قدر مہنگا اور جدید اسلحہ کہاں سے آتا ہے، ہمیں کیا پتہ کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟ کہنے والے کہتے ہیں کہ کراچی چھوٹے بڑے دیسی ڈانوں کا شہر ہے۔ وہ سب الگ الگ مالاؤں میں پروئے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک ایک مالا کسی بڑے ڈان کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کی طرح کراچی کے بڑے بڑے ڈان آپس میں رشتے دار ہوتے ہیں۔ کوئی کسی کا ماموں، کسی کا چاچا، کسی کا سسر، کسی کا داماد، کسی کا کزن، کسی کا ہم زلف اور کوئی کسی کا ہم رکاب ہوتا ہے مگر جس دیوار کے گرنے یا گرانے پر دھڑادھڑ سٹّہ بازی ہو رہی ہے، شرطیں لگ رہی ہیں وہ دیوار ہمارے ہر دل عزیز، سدا مسکراتے رہنے والے صدر آصف علی خان زرداری کے قلعہ نما کوٹھی کے سامنے سے گزرنے والے روڈ پر بنی ہوئی ہے۔ میری املا اور گرامر میں گڑبڑ ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ سڑکیں متحرک نہیں ہوتیں، اپنی جگہ رکی ہوئی ہوتی ہیں لیکن پھر بھی کہنے اور لکھنے والے کہتے ہیں کہ فلاں سڑک فلاں کے گھر، فلاں کی دکان، فلاں کے ڈھابے سے ہو کر گزرتی ہے لہٰذا میں نے بھی دیکھا دیکھی لکھا، لیکھی لکھ دیا ہے کہ وہ سڑک جس پر سیسہ پلائی ہوئی دیوارِ کراچی کھڑی کر دی گئی ہے وہ سڑک جناب آصف زرداری کے قلعہ نما کوٹھی کے سامنے سے گزرتی ہے۔ گرامر کے بھی عجیب معاملے ہیں۔ روڈ انگریزی لفظ ہے، اردو میں روڈ کیلئے ہمارے پاس دو الفاظ ہیں۔ ایک راستہ اور دوسرا سڑک۔ جب کبھی کوئی روڈ مونث بن کر کسی جگہ سے گزرتا ہے تب سڑک کہلانے میں آتی ہے۔ مثلاً فلاں سڑک میرے آسیب زدہ گھر کے قریب سے گزرتی ہے اور اگر روڈ مذکر بن کر کسی جگہ سے گزرتا ہے تب راستہ کہلانے میں آتا ہے۔ مثلاً فلاں راستہ میرے آسیب زدہ گھر کے قریب سے گزرتا ہے۔ انگریز نے بے جان چیزوں کو مذکر، موٴنث کے چکّر سے آزاد کر دیا ہے مگر ہم لوگ مذکر، موٴنث کے چکر سے نہیں نکلتے۔ سندھیوں کے لئے کتاب مذکر ہے جیسے مہنجو کتاب اور اردو میں ہم کہتے ہیں میری کتاب۔ انگریز کے لئے کتاب، کتاب ہے، اس کی جنس نہیں ہوتی۔ کوئی وجہ تو ہے کہ انگریز آج تک دنیا پر حکومت کر رہا ہے۔ انگریز سے میری مراد ہے گوری چمڑی والے امریکی اور یورپی۔ ہم بھی جب مذکر، موٴنث کے چکر سے نکلیں گے تب دنیا پر راج کریں گے۔ مٹّی پاؤ اس جیسی گلاں تے۔ بلاول ہاؤس کے سامنے سے گزرتی ہوئی سڑک پر کھڑی ہوئی دیوار کیا ہمارے نئے صدر اور افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر جناب ممنون حسین صاحب کے چارج سنبھالنے کے بعد گرا دی جائے گی یا وہ دیوار بلاول ہاؤس کے سامنے سے اٹھا کر کراچی میں جناب ممنون حسین صاحب کی کوٹھی کے سامنے سے گزرتی ہوئی سڑک پر کھڑی کر دی جائے گی؟ یہی دو مفروضے ہیں جن پر کراچی میں شرطیں لگ رہی ہیں، سٹّہ بازی ہو رہی ہے، جوا ہو رہا ہے، شیئر بازار ڈانوا ڈول ہو رہا ہے۔ ایسے میں آپ کے اس فقیر کے وارے نیارے ہو گئے ہیں۔
آج کل کے ان والدین کیلئے میں ایک زندہ مثال ہوں جو بچّوں کو ہدایت کرتے رہتے ہیں کہ بیٹا! اسپیشلائز کرو۔ اگر ڈاکٹر بننا چاہتے ہو تو آنکھوں کے ڈاکٹر بنو۔ بڑا بزنس ہے اس دھندے میں۔ لوگ دیکھتے کچھ ہیں اور ان کو دکھائی کچھ اور دیتا ہے۔ کان، ناک، حلق کے ڈاکٹر بنو۔ سیاسی تقاریر اور وعدے سنتے سنتے لوگوں کے کان پک گئے ہیں۔ بنیادی حقوق کیلئے چیختے چلّاتے لوگوں کے حلق خشک ہو گئے ہیں۔ ہر طرف پھیلی ہوئی بدبو نے ان سے سونگھنے کی حس چھین لی ہے۔ بیٹا دانتوں کے ڈاکٹر بنو، بڑی کمائی ہے اس کام میں۔ آج کل لوگ منہ میں دو طرح کے دانت رکھتے ہیں، ایک کھانے کے دانت اور دوسرے دکھانے کے دانت۔ کبھی بھی عام ڈاکٹر مت بننا۔ اسپیشلائز کرو۔
مگر میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا تھا۔ والدین نے مجھے کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ میں پلمبر بنا، باورچی بنا، ترخان بنا، جمعدار بنا، ڈرائیور بنا، گنڈیریاں بیچیں، ریوڑیاں بیچیں، عدالت میں جھوٹی گواہی دی، جلسوں میں نعرے لگائے، آج کل سٹّہ کھیل رہا ہوں۔ نئے صدر صاحب کے آنے کے بعد دیوار کراچی گرے گی یا نہیں گرے گی؟ شرط میں دم ہے۔
تازہ ترین