• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ بھی دن تھے جب کراچی میں اسوقت کے سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس افضل شگری کی اس رپورٹ کی سفارشات پر حکومت وقت عمل کرلیتی کہ کراچی میں تیس ہزار چھوٹے بڑے مہلک خودکار اور نیم خودکار چھپے ہوئے ہتھیار ہیں تو کراچی کی صورتحال ہر گز ایسی نہ ہوتی جیسی اب ہے۔ایسا لگتا ہے کہ افضل شگری کے گنوائے اور نشاندہی کیے ہوئے ہتھیاروں نے انڈے اور بچے دیے اور اب یہ ہتھیار ہزاروں نہیں لاکھوں میں پہنچ چکے ہیں اور ان کی تیسری نسل چل رہی ہے۔ مبینہ طور پر نیٹو کے انّیس ہزار کنٹینروں سے لاپتہ ہتھیار الگ ہیں جو کراچی بندرگارہ پر پہنچتے ہی غائب کردیے گئے جو غائب ہوکر ملک کے طول و عرض میں جا پہنچے جہاں سے پھر اپنی اصل کی طرف لوٹ کر مہاجر ریپبلکن آرمی کے ہاتھوں میں جا پہنچے ہیں۔ پیارے پاکستان میں نہ صرف بندے غائب ہوتے ہیں بلکہ ہتھیار بھی غائب ہوجا تے ہیں۔ یہ ملک ہے کہ شہیدوں سے مذاق ہے!
معروف چیک ادیب و ناول نگار میلان کنڈیرا نے کہا تھا کہ مزاح کیا ہوتا ہے؟ مزاح اس طرح ہے کہ جیسے کسی کی تدفین کے وقت مردے کو قبر میں اتارتے وقت کسی کا ہیٹ (ٹوپلہ ) قبر میں گر جائے۔ المیوں پر الیموں والے ملک میں نواز شریف حکومت اسی مزاح کا ایک وقفہ ہے۔ المیوں اور دہشتگردی کے مارے ہوئے لوگوں کے ہنسنے کیلئے کامک ریلیف۔ حالیہ دنوں میں کراچی میں امن امان کے مسئلے پر کراچی میں سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کی طرف سے شہر پر آشوب و شہرنگاراں کراچی میں مہاجر ریپبلکن آرمی کی موجودگی کے متعلق بیان اور پھر وفاقی وزیر داخلہ کا یہ کہنا کہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی، کہ حکومت ایسا بیان سپریم کورٹ میں”جمع “ نہیں کروانا چاہتی تھی غلطی سے جمع ہوگیا۔ جناح پور کے بعد اگر یہ ایجنسیوں کی طرف سے ایک اور مسخری نہیں تو پھر واقعی خطرناک شوشہ ہے۔بلوچ لبریشن آرمی،سندھودیش لبریشن آرمی اور اب مہاجر ریپبلکن آرمی۔ یعنی ایم آر اے۔ اٹارنی جنرل کی طرف سے مہاجر ریپبلکن آرمی والے بیان کے ساتھ ساتھ وزیر داخلہ کے زیر کنٹرول رینجرز کے ڈی جی میجر جنرل اعجاز نے بھی اپنے بیان میں نام لینے کی تردید کردی کہ نیٹو کی فوج کو رسد میں افغانستان جانے والے اسلحے سے بھرے انیس ہزار کنٹینر مبینہ طور پر فوجی آمر پرویز مشرف کے دنوں میں شپنگ اور پورٹ کے وزیر بابر غوری کی نگرانی میں کھول کر بندرگاہ سے غائب کردیے گئے تھے۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ نواز شریف حکومت کراچی کے مسئلے پر کتنی سنجیدہ ہے؟
سندھ کے حکمرانوں کی تو بات ہی وقت کا ضیاع ہے کہ ان کے لئے تو خلق میں عام ہے کہ وہ بھنگ پی کر سو رہے ہیں (محاورتاً)۔سندھ میں ڈاکو راج عروج پر ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے ضلع سے سولہ افراد ڈاکوؤں نے اغوا کئے ہوئے ہیں۔ سندھ کے حکمران اب پتہ نہیں اقتدار کے نشے میں تھے کہ بھنگ کے نشے میں(محاورتاً)۔ چیف منسٹر ہاؤس کے بازو میں بحریہ کے صدر دفتر میں بدنام ڈاکوؤں نے نہیں، مبینہ طور پر نیول انٹیلیجنس کے کچھ افسروں نے کراچی کے شہری اغواکرکے برائے تاوان رکھے ہوئے تھے۔ ”اساں ستل ہاسے ننڈ نشے وچ آخر کَیں جگایا مست بنایا“ سندہ کے لوگوں کے دلوں پر اصل حمکرانی کرنے والے سچل سرمست نے کہا تھا۔ یعنی کہ جن جوانوں کو کراچی اور ملک کے پانیوں اور سمندری سرحدوں کی حفاظت کرنی تھی وہ اغوا برائے تاوان والی قومی صنعت میں لگ گئے۔ نیٹو کی فوجوں کیلئے ہتھیاروں سے بھرے ہوئے انیس ہزار کنٹینر غائب! کراچی کے پچیس میلوں میں ہر جگہ نیٹو کے خالی کنٹینروں سے جو دہشت بارہ مئی دو ہزار سات کے خونی دن کراچی کو سِیل کر کے پھیلائی گئی تھی (جسے فوجی آمر پرویز مشرف نے اسلام آباد میں دونوں ہاتھوں سے مکے لہرا کر”عوامی طاقت کا مظاہرہ“ کہا تھا) اسکا پتہ خود چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور موجودہ اٹارنی جنرل منیر اے ملک سے زیادہ کسے ہوسکتاہے۔ بارہ مئی جب آزاد عدلیہ کے حق میں ملک بھر سے کراچی آنے والے نہتے شہریوں، اور سیاسی کارکنوں کو غریب پرندوں کی طرح نشانہ بنا کر شکار کیا گیا تھا۔ جس میں سندھی عوامی تحریک کے نواز کنرانی اور عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں سمیت پچاس کے قریب بیگناہ لوگ قتل کئے تھے۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ نیٹو کے کنٹینروں سے سیل کیا ہوا شہر کراچی اس دن نیٹو کے انہی مسروقہ ہتھیاروں کی ہی ٹیسٹنگ کا میدان بنایا گیا تھا یا وہ ہتھیار پہلے ” جہادیوں کے ہاتھوں کی برکت پاکر پھر کراچی پہنچے تھے۔“ لیکن سوال یہ ہے کہ نیٹو کے انیس ہزار ہتھیاروں سے بھرے کنٹینروں کے غائب ہونے کا تذکرہ نہ گزشتہ سال شکاگو میں نیٹو کی سربراہ کانفرنس میں کیا گیا جس میں پاکستان کے صدر آصف زرداری بھی شریک تھے۔ نہ ہی دو ہزار چودہ میں نیٹو کی فوجوں کی افغانستان سے انخلاء کے متعلق ایجنڈے میں کہیں اس پر تشویش کا اظہار ملا۔ اگر جناح پور کی طرح نیٹو کے ہتھیاروں سمیت انیس ہزار کنٹینر غائب ہونے والی بات پاکستانی ایجنسیوں کی نقشے بازی نہیں تو پھر اس سے جو نقشہ بنتا ہے اس میں کراچی کو بیروت بننے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ سازشی تھیوریاں بنانے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ نیٹو کا اسلحہ مالکان کی مرضی سے غائب ہوا ہے!حالانکہ ان دنوں میں تو نیٹو کی رسد لائین بند کی ہوئی تھی پھر بھی اتنی بڑی قذاقی کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔
وہ جنگی اسلحہ جو افغانستان میں نیٹو کی فوجوں نے طالبان و دیگر شدت پسند دہشت گردوں سے نمٹنے کیلئے استعمال کرنا تھا اس سے انیس ہزار کنٹینر کراچی کی وسیع شاہراہوں اور تنگ گلیوں میں غائب ہوگئے یا غائب کردیئے گئے! یعنی کہ آج کے حساب سے یہ افغانستان کو جانے والے ہتھیار نام نہاد مجاہدین سے لیکر نام نہاد مہاجر ریپبلکن آرمی تک کے ہاتھوں میں پہنچنے کی تاریخ رکھتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو خطے میں گزشتہ تین دہائیوں سے حالات و منظر ناموں پر قریبی نظر رکھتے ہیں انکے لئے یہ افغاستان کو نیٹو کے ہتھیاروں کی رسد کا راستے سے غائب ہوجانا یا غائب کیا جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ افغانستان میں روسی مداخلت کے دنوں میں آئی ایس آئی کے توسط سے مجاہدین کو سپلائی کئے جانیوالے ہتھیاروں کی رسد لائین کراچی پہنچنے پر ’لیک‘ ہوئی اور پھروہ اسلحہ مجاہدین کے ساتھ ساتھ کراچی کے ٹرگر ہیپی یوتھ، لسانی دہشتگردوں اور سندھ کے جنگلات میں ڈاکوؤں اور ملک کے شہروں قصبوں میں فرقہ واریت پسند دہشت گردوں یا فری لانس مجرم پیشہ ، قبائلی پرائیویٹ ملیشیا نما جنگجوؤں تک کے ہاتھوں میں جا پہنچا۔
میری نسل کے لوگ جو انیس سو ستر کے آخر اور انیس سو اسّی کی دہائی میں بڑے ہوئے ہیں، انہوں نے دو اصطلاحیں بار بار سنی تھیں۔ وہ تھیں کراچی کو بیروت بنائے جانا یا کراچی کی بیروتائیزیشن اور ملک میں کلاشنکوف کلچر۔ پاکستان میں کراچی سمیت، کہتے ہیں کئی شہرو قصبے ایسے ہیں، جہاں کلاشنکوف کرائے پر ملتی ہے۔ایسا بھی ہوا کہ سندھ میں لوگوں نے اپنے مویشی بیچ کر کلاشنکوف خریدی جیسے کراچی کے لوگوں کو فرج، ٹی وی بیچ کر اسلحہ خریدنے کا مشورہ الطاف حسین نے دیا تھا۔
شاہ فیصل کالونی بازار میں سات گراری چاقو اور چھتیس بور پستول والے پرانے دادا بشیرا کا دور ختم ہوا اور لونڈوں لپاڑوں کا شروع کہ جن کے ہاتھ میں اب کلا شنکوف و ٹی ٹی سمیت پہلے نہ سنے نہ دیکھے ہتھیا ر تھے۔ انہی لونڈوں لپاڑوں کے ہاتھوں دادا بشیرا کے دور کا خاتمہ ہوا۔ وہ بچے جو گلی میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے، اب کرکٹ کے کٹ بیگ میں ہونڈا سیونٹی موٹر سائیکلوں پر ایک جگہ سے دوسری جگہ ہتھیار لے جانے لگے۔ وہ ہتھیاروں کو’کٹ‘ اور انکے استعمال کو”کرکٹ میچ“ کہتے۔ پہلا قتل انہوں نے شاہ فیصل کالونی میں اس اپنے ہم جولی پختون بچے کا کیا جس کے ساتھ وہ کرکٹ کھیلتے بڑے ہوئے تھے۔
یہ طالبہ بشریٰ زیدی کے واقعے کے بہت بعد مہاجرپٹھان فسادات کے دنوں کی بات ہے۔ بشریٰ زیدی واقعے پر بھی کمیشن بنا تھا لیکن رپورٹ کا کیا ہوا کوئی نہیں جانتا۔ملک اور کراچی سرکاری رپورٹوں کا قبرستان ہے۔ بشریٰ زیدی سے لیکر افضل شگری ، بارہ مئی ، نو مئی ، دس محرّم کے ایم سی لائٹ ہاؤس سے لیکر بینظیر کے کارساز حملے تک۔
اب کراچی پر ایک بار پھر آپریشن کی باتیں ہورہی ہیں۔ اس سے اور زیادہ مذاق کیا ہوگا کہ نواز شریف حکومت اپنے تیسرے جنم میں طالبان کے ساتھ تو مذاکرات لیکن کراچی پر تیسرے بڑے آپریشن کی بات کر رہی ہے۔ کہا گیا ہے کہ کراچی میں ساری لڑائی اس پر قبضے کی ہے۔ میرا ایک دوست کہتا ہے کہ قبضے کی تو ہے کراچی وہ مکان ہے جس کے کرایہ دار تو آپس میں خونی لڑائی لڑ رہے ہیں لیکن مالکان تحیّر،تجسّس اور دہشت سے گنگ اسے دیکھ رہے ہیں۔
تازہ ترین