• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت نے سو دن مکمل کرنے کے بعد مہنگائی کا خوف ناک ڈرون حملہ عوام پر کردیا ہے۔ امریکہ کے ڈرون حملے تو حکومت بند نہیں کرا سکتی۔ البتہ حکومت عوام پر ڈرون حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کو مہنگا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ہر چیز مہنگی کردی۔ ظاہر ہے شاہی حکومت ہے۔ جاتی عمرہ فارم ہاؤس کی سیکورٹی کے لیے 30کروڑ اور وی وی آئی پی سیکورٹی پر 21 کروڑ خرچ کیے جائیں گے اور دوسری طرف غریب عوام کی لاشیں گرانے کا ہنگامی پروگرام جاری رہے گا۔ اس بارے میں بڑے بڑے سیاسی کالم نگار یقینا اظہار خیال ”فرمائیں“ گے۔ اور ٹی وی چینلز کو آئندہ چند روز کے لیے مصالحے دار بحث کرنے کا موقعہ بھی ملے گا۔ 19 ہزار کنٹینرز کا مسئلہ چند برس پرانا ہے۔ لہذا اس کے بارے میں کیا بات کرنی۔ جن لوگوں نے یہ کنٹینرز کلیئر کئے یا کرائے اب وہ موجیں مار رہے ہیں۔ کیونکہ کبھی کسی حکومتی عہدے دار کسی بیورو کریٹ، کسٹم کے اعلیٰ افسر کے اخراجات کے بارے میں معلوم نہیں کیا۔ ارے بھائی صرف کسٹم کے افسروں کے بچے جن تعلیمی اداروں اور جن بیرون ممالک میں زیر تعلیم ہیں۔ انہی کا حساب لگا لیں تو پتہ چل جائے گا کہ یہ افسران کتنے ایماندار ملک و قوم کے مخلص ہیں۔ کسٹم افسران کی ملازمت سے پہلے اور بعد میں جائیدادوں کا تو پتہ کریں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
19 ہزار کنٹینرز کے لئے کمیشن قائم کرلیں۔ یا کچھ اور کرلیں۔ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ ہمیں یاد ہے کہ چند برس قبل بھی کسٹم والوں نے ایسے کچھ کنٹینرز کلیئر کئے تھے۔ جس پر کسٹم کے بارے میں اخبارات میں کئی خبریں آئی تھیں۔ پھر کچھ خاص نہیں ہوا تھا۔ جسٹس گلزار نے درست کہا کہ کراچی میں تھانے کاروباری مراکز بن چکے ہیں۔ تھانے مدت ہوئی ہر برائی کی پشت پناہی کے ادارے بن چکے ہیں۔ اب کس بات کا رونا
جب چڑیا چک گئیں کھیت
بڑے سرکاری افسر تو کھیت چکنے میں بہت ماہر ہوتے ہیں۔ یہ تو بات سے بات چلی۔ ہم اب اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ یہ بات ہے 2010ء کی۔ پنجاب حکومت کو یہ سوچ آئی۔ ویسے پنجاب حکومت کو سوچیں بہت آتی ہیں۔ کیوں نا پنجاب میں صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے کوئی ایسا ادارہ بنایا جائے جو مریضوں اور ڈاکٹروں دونوں کو تحفظ فراہم کرے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ مستقبل میں یہ ادارے ہمارے خیال میں صرف ڈاکٹروں کو ہی تحفظ فراہم کرے گا۔ کیونکہ بڑے بڑے نامور مافیا پروفیسروں اور ڈاکٹروں کے آگے بھی یہ پنجاب ہیلتھ کمیشن بے بس ہو جائے گا۔ (اللہ نہ کرے) اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی اکثریت جسمانی اور کچھ نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ملک کے نامور پروفیسروں کے زیر علاج ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی ہرینے کے معمولی آپریشن کے لیے یو کے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کے بڑے بڑے رہنما جب بھی بیمار ہوتے ہیں۔ علاج کرانے اپنا میڈیکل چیک اپ کرانے صرف لندن یعنی انگریز بہادر کے ملک کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور دعوی سب کرتے ہیں کہ پاکستان کے ہیلتھ کسٹم کو وہ دنیا کا بہترین ہیلتھ سسٹم بنا دیں گے۔ جبکہ اپنے علاج کے لیے آپریشن کے لیے اور میڈیکل چیک اپ کے لیے باہر جانا ہی پسند ”فرماتے “ ہیں۔ حالانکہ صحت یابی تو دعاؤں سے بھی مل جاتی ہے۔ غریب عوام کی دعائیں تو لے کر دیکھیں۔ زندگی بھر بیمار نہیں ہوں گے۔ اللہ مظلوم اور دکھی لوگوں کی دعاؤں کو بہت سنتا ہے۔ جب تک اس ملک کے حکمران اپنا مکمل علاج، اپنا میڈیکل چیک اپ (ہر طرح کا) اور اپنے آپریشن پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں سے نہیں کرائیں گے۔ ان سرکاری ہسپتالوں کا معیار اور سہولیات کبھی بھی بہتر اور عالمی معیار کی نہیں ہوں گی۔
ہیلتھ کیئر کمیشن پورے ملک میں صرف پنجاب میں پہلی مرتبہ قائم کیا گیاہے ۔ باقی صوبوں میں ابھی اس نام کی کوئی چڑیا نہیں۔ اس کمیشن کے پاس لوگ، ڈاکٹروں کی غفلت، لاپرواہی اور علاج اچھے انداز میں نہ کرنے، مریضوں کا غلط علاج پر ہلاکت کے حوالے سے درخواستیں دیتے ہیں۔ اب تک 160 ڈاکٹروں، حکماء ہومیوپیتھک اور عطائیوں کے خلاف درخواستیں آئی ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ یہ کمیشن کتنے ڈاکٹروں کے لائسنس ختم کرانے میں کامیاب ہوتا ہے کتنی دلچسپ بات ہے کہ کمیشن کسی ڈاکٹر کا لائسنس خود ختم نہیں کرسکتا۔ بلکہ وہ پی ایم ڈی سی، یعنی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو سفارش کرسکتا ہے کہ اس ڈاکٹر کا لائسنس کینسل کیا جائے۔ اب پی ایم ڈی سی کی مرضی یا اس ڈاکٹر کا اثر و رسوخ کہ وہ اپنا لائسنس کینسل ہونے دیتا ہے یا نہیں۔ تو پھر بھلا اس ادارے کی کیا ضرورت ؟ حکومت اس ادارے کو ڈاکٹروں کے لائسنس کینسل کرانے میں بااختیار کرے۔ انہیں ایسے ڈاکٹرز جو مریضوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔ ان کے خلاف فوری ایکشن کے اختیارات براہ راست کمیشن کے چیئرمین کے پاس ہونے چاہئیں۔ تب تو پی ایچ سی کا فائدہ ہے۔ ورنہ شعبہ صحت کو نہ تو سیکرٹریٹ درست کر سکا ہے نہ ڈی جی ہیلتھ بلکہ خادم پنجاب خود اس کے وزیر جب تھے تب بھی یہ منہ زور ڈاکٹرز ان کے قابو نہ آئے۔ اس طرح ڈاکٹروں کی مختلف تنظیموں کے دباؤ سے بھی کمیشن کو بچایا جائے۔ ورنہ کسی ڈاکٹر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔ پنجاب کے دیہات اور چھوٹے شہروں میں ڈاکٹروں نے لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ کمیشن کو فوری طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ جعلی حکیموں کے خلاف کمیشن کوسخت ترین ایکشن لینا چاہئے جو خود کو پروفیسر اور پتہ نہیں کیا کیا لکھتے ہیں۔ پنجاب میں 65 ہزار سرکاری، غیر سرکاری ہسپتال، ہیلتھ یونٹ، کلینک کام کررہے ہیں۔ ان میں ڈاکٹرز، ڈینٹل سرجنز ،حکماء، ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور عطائی سب شامل ہیں۔ اب تک کمیشن صرف 150 ہیلتھ فراہم کرنے والے اداروں کو رجسٹرکرسکا ہے ۔ابھی صرف لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد کے صحت کی فراہمی کے ادارے رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ کب پورے پنجاب کے ادارے رجسٹرڈ ہوں گے؟ یہ کافی لمبا چوڑا کام ہے۔ اس وقت لاہور جیسے بڑے شہر میں جس طرح عطائی ڈاکٹر اور جعلی حکیم جس طرح لوگوں کی صحت سے کھیل رہے ہیں۔ ان کو رجسٹرڈ کرتے کرتے کمیشن کو کئی سال لگ جائیں گے۔ اس دوران کئی معصوم مریض موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ ملک میں سب سے مہنگا علاج ڈینٹل سرجنز کررہے ہیں۔ کمیشن کیا اس بارے میں کچھ کرسکتا ہے؟ ہمارے خیال میں کچھ نہیں۔ کمیشن کا یہ کہنا کہ جو ڈاکٹر قصور وار ثابت ہوگا اس کو حکومت سے کہہ کر معطل کرائیں گے۔ اس کو اس پرائیویٹ کلینک میں پریکٹس نہیں کرنے دیں گے۔ پانچ لاکھ روپے جرمانہ کریں گے۔ یہ اقدامات تو بہت اچھے ہیں اور جھوٹی درخواست دینے والے کو بھی ڈھائی لاکھ جرمانہ ہوگا۔ مگر وہ ڈاکٹروہ کلینک، وہ شہر چھوڑ کر کہیں اور جا کر کاروبار شروع کردے گا۔ پھر کمیشن کیا کرے گا؟ قصور وار ثابت ہونے والے ڈاکٹر کا لائسنس فوری کینسل کیا جائے۔ اور جعلی حکیموں کو گرفتار کیا جائے۔ بعض پرائیویٹ ہسپتالوں کی لوٹ مار سے آپ عوام کو کیسے بچائیں گے؟ اس سلسلے میں کمیشن کے پاس اتنے سخت اختیارات نہیں ۔
بہرحال پی ایچ سی میں اس وقت تمام ایماندار ڈاکٹرز کام کررہے ہیں۔ لیکن ہمیں نہیں لگتا ہے کہ وہ زیادہ دیر کام ایمانداری سے کرسکیں گے۔ کیونکہ آخر یہ پاکستان ہے اور یہاں پر دباؤ ڈالنے والے ایمانداروں سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ دوسرے ہمارے نزدیک اس ادارے کو کسی خوبصورت اور مہنگے دفتر کی بجائے کسی سادہ سی عمارت میں عوامی ماحول میں قائم کرنا چاہئے تھا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ انہیں ہمت دے۔ ڈاکٹر اجمل باریش اور نیک انسان ہیں۔ ان کی ٹیم بھی اچھی ہے۔ خصوصاً ڈاکٹر ریاض احمد تبسم، ڈاکٹر شبانہ، ڈاکٹرریاض اور ڈاکٹر سلیریا وغیرہ۔
پچھلے دنوں ہمیں حاجی کیمپ (مجیٹھیہ ہال) میں جانے کا اتفاق ہوا۔ مجیٹھیہ ہال کسی زمانے میں علامہ اقبال میڈیکل کالج کا بوائز ہوسٹل تھا۔ پتہ نہیں علامہ اقبال میڈیکل کالج نے اس ہال کو کیوں چھوڑ دیا۔ حالانکہ یہ نرسوں کے لئے بہترین ہوسٹل بن سکتا ہے۔ بہرحال اب یہ حاجی کیمپ بن چکا ہے۔ کسی سیانے نے یا کمائی کرنے والے سیانے نے مشورہ دیا کہ اس ہال کو گرا کر نیا حاجی کیمپ بنایا جائے۔ مگر متروکہ اوقاف بورڈ کے ایک سمجھدار اور درد دل رکھنے والے بیوروکریٹ جنید احمد (حالانکہ بیورو کریٹ درد دل رکھنے والے نہیں ہوتے یہ پتہ نہیں کیوں درد دل رکھتے ہیں) نے اس عمارت کو گرانے کی مخالفت کی اور صرف پانچ لاکھ میں اس کی مرمت کر کے اس کو قابل استعمال بنا دیا۔ جبکہ اس عمارت کو گرا کر نئی عمارت بنانے والے پانچ کروڑ کا حساب لگا چکے تھے۔ مسٹر جنید احمد نے حکومت کے چار کروڑ 95 لاکھ بچا لئے۔ کاش دوسرے بیورو کریٹس بھی اس قسم کی حکمت عملی اختیار کریں۔ اب حاجی کیمپ میں حاجیوں کو ایک اعلیٰ درجے کے ہوٹل والی سہولیات، واش رومز مل چکے ہیں۔ کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ کئی لوگ حج کو بھی اب ایک کاروبار بنا چکے ہیں اور اس میں بھی ناجائز طریقوں سے کمائی کررہے ہیں۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ کبھی حاجیوں کی خدمت کے لئے خادمین حجاج جایا کرتے تھے۔ اب اوورسیز پاکستانی اور پی پی کی حکومت کی مہربانی سے یہ سلسلہ سعودی عرب نے بند کردیا اور پی پی کی حکومت کی بدنامی علیحدہ ہوئی۔ یہ پی پی حکومت نے اپنے پہلے دور میں ایسا کیا۔ تمام جیالوں کو حاجیوں کا خادم بنا کر بھیجا اور انہو ں نے وہاں جا کر جو کچھ کیا وہ ایک علیحدہ داستان ہے۔ پھر کبھی سنائیں گے۔
کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں
ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا سنائیں
باتیں جو زبان تک آ نہ سکیں
آنکھوں نے کہیں آنکھوں نے سنیں
تازہ ترین