• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغان صدر حامد کرزئی کا دورہ پاکستان اس حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ ایک ایسے موقع پر حامد کرزئی پاکستان آئے ہیں جب پاکستانی حکومت نے”سانپ اور سیڑھی“کا کھیل ختم کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ہاتھ آگے بڑھایا ہے۔طالبان قیادت کی طرف سے بھی مثبت جواب آیا ہے۔یوں نائن الیون کے بعد پاکستان نے اب نئی کروٹ لی ہے۔گزشتہ تلخیوں کے خاتمے اور ایک نئے عزم کے ساتھ قومی وبین الاقوامی مسائل سلجھانے کی کاوشیں یقینا مستحسن قدم ہے۔افغان صدر حامد کرزئی نے بھی طالبان سے مذاکرات کے لئے حکومت پاکستان سے مددمانگی ہے۔وزیر اعظم نوازشریف کی اس معاملے میں ہر ممکن سہولت مہیاکرنے کی یقین دہانی سے جنوبی ایشیاء میں امن اور ترقی و خوشحالی کے لوازمات کے لئے فضاء سازگار ہوگی۔افغانستان پاکستان کا برادر ہمسایہ اسلامی ملک ہے۔باہمی مضبوط اور دوستانہ تعلقات دونوں ملکوں کے مفاد میں ہیں ۔ ایک ایسی صورتحال میں جبکہ امریکہ اور نیٹو فورسز نے افغانستان سے انخلاء کے عمل کا آغاز کرنا ہے۔افغانستان کی داخلی صورتحال اور پاکستان میں دہشتگردی کے عفریت سے نمٹنے کے لئے دونوں ممالک کو مربوط حکمت عملی بنانی پڑے گی۔افغانستان میں بھارتی اثرو رسوخ اور پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں کے خاتمے کے لئے ہماری سول اور فوجی قیادت کوہنگامی بنیادوں پر ترجیحی اقدامات کرنے ہوں گے۔کراچی میں دن بدن بڑھتی ہوئی ٹارگٹ کلنگ،بلوچستان اور قبائلی علاقوں سمیت ملک بھر میں بڑھتے ہوئے دہشتگردی کے واقعات ملک دشمن غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کا شاخسانہ ہیں۔امریکی تنظیم بلیک واٹر اور بھارتی خفیہ ایجنسی راء کے افغانستان میں موجود نیٹ ورک کا خاتمہ وقت کااہم تقاضا ہے۔
پاکستان کی آبرو اور عالم اسلام کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے حکومتی سطح پر اہم پیش رفت ہوئی ہے۔وفاقی کابینہ نے عافیہ صدیقی کو واپس لانے کیلئے کونسل آف یورپ کنونشن پردستخط کی منظوری دیدی ہے۔ کونسل آف یورپ معاہدے سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی جلد ممکن ہوسکتی ہے۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے امکانات پیداہونالائق تحسین امر ہے۔ پوری قوم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی فوری رہائی چاہتی ہے۔ نوازشریف حکومت اس مسئلہ میں سنجیدگی اور قومی حمیت کا مظاہرہ کرے اور عافیہ صدیقی کی رہائی کو جلد ممکن بنائے۔ نومنتخب صدر پاکستان ممنون حسین نے بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے گھر ان کی والدہ سے فون پر رابطہ کرکے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے ہر ممکن اقدام کریں گے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی ان کی اولین ترجیح ہوگی۔ جنرل مشرف نے امریکہ کی کاسہ لیسی کے ذریعے پاکستان کو جس قدر تباہی و بربادی کا شکار کیا اس کا اب کڑا احتساب ہونا چاہئے۔واقفان حال کاکہنا ہے کہ امریکہ ریمنڈڈیوس اور حسین حقانی کی طرح جنرل مشرف کو بھی یہاں سے ”اچک“ کر لے جائیگا،اگر اب بھی یہی کچھ ہوا تو پاکستانی قوم موجودہ حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔جنرل مشرف کا عبرتناک انجام ان کا مقدر بن چکاہے۔یادش بخیر! لال مسجد میں سیکڑوں معصوم اور بے گناہوں کی شہادتیں، بلوچستان سے ہزاروں لاپتہ افراد ،نواب اکبر بگٹی کابہیمانہ قتل،عدلیہ پر شب خون،دوبار آئین شکنی اور افغانستان و پاکستان میں امریکی جارحیت اور ڈرون حملوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام جنرل مشرف کے سر ہے۔انہیں ان”سنگین جرائم“کا نتیجہ ضروربھگتنا ہوگا۔پاکستان نے شاہراہ ترقی پر سفر کرنے کے لئے اب مشکل فیصلے کرنا شروع کردیے ہیں۔وزیر اعظم نوازشریف کی طرف سے طالبان کو مذاکرات کی پیش کش دانشمندانہ،درست اور بروقت فیصلہ ہے۔ماضی میں حکومتیں اس حوالے سے غیر سنجیدہ دکھائی دیتی رہیں۔کسی نے بھی سنجیدگی کے ساتھ قبائلی علاقوں میں امن و امان کی ناگفتہ بہ صورتحال پر توجہ نہیں دی۔معاملات دن بدن بگڑتے چلے گئے۔وزیرستان کے ساتھ بلوچستان اور کراچی میں بھی آگ وخون کا کھیل پروان چڑھتا گیا۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کو پیپلزپارٹی کی گزشتہ پانچ سالہ حکومت کے دوران من وعن آگے بڑھایاگیا۔حالات سدھرنے کانام ہی نہیں لے رہے تھے۔وطن عزیز پاکستان میں دن بدن خون خرابہ بڑھتا چلاگیا۔11مئی کے انتخابات کے بعد نئی حکومت سے عوام یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ نوازشریف حکومت پاکستان کو اس نام نہاد”امریکی جنگ“سے نکالے گی۔ پاکستانی قبائلی علاقوں میں امن و امان کے قیام کے لئے طالبان کو مذاکرات کی پیش کش خوش آئند ہے۔بالآخر ملک کے سنجیدہ قومی وسیاسی حلقوں کایہ موقف نوشتہء دیوار ثابت ہوا ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ ”طالبانائزیشن“ نہیں بلکہ ”امریکنائزیشن“ ہے۔ آج پاکستان میں ”امریکنائزیشن“ کو قابو کرلیا جائے اور امریکی مداخلت کے آگے بند باندھا جائے تو ”طالبانائزیشن“ پاکستان کا کوئی ایشو نہیں ہے۔یہ تواپنے ہی پاکستانی لوگ ہیں،ان سے مذاکرات کے ذریعے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔برطانیہ نے آئرلینڈکے دیرینہ مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا۔دنیا میں کسی بھی مسئلے کا حل مذاکرات ہوتے ہیں۔نائن الیون کے بعد امریکہ نے دانستہ طور پر اپنے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ہمیں طالبان سے مذاکرات نہیں کرنے دیے۔قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں امن ہوگا تو بلوچستان اور کراچی میں حالات سنبھلنے میں حکومت کو مدد مل سکے گی۔ بلوچستان، فاٹا اور کراچی میں دہشت گردی کے تانے بانے غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں سے جاملتے ہیں۔پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے حساس اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کو موجودہ سنگین اور گمبھیر صورتحال میں پوری طرح چوکنا اور متحرک ہونا ہوگا۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حالات کوآئے روز خراب کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔تاریخ کا فیصلہ کن موڑ آگیا ہے۔آج افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو افواج اور بھارت کو بدترین شکست کا سامنا ہے۔امریکہ اور بھارت ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونے کے بعد پاکستان میں عدم استحکام پیداکررہے ہیں۔پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے قومی مفاد میں طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کرکے پاکستانی قوم کے دل جیت لیے ہیں۔اب صرف خلوص نیت اور قومی سوچ درکار ہے۔آئندہ کے ملکی منظرنامے میں بظاہر اس مشکل فیصلے پربہتر پیش رفت ممکن ہوسکے گی۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ پاکستانی قیادت نے اس سلسلے میں امریکہ کے دباؤ کو کوئی اہمیت نہیں دی۔اب امریکیوں کو اندازہ ہوگیا ہے کہ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت ڈرون حملوں اور طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے امریکی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائے گی۔ قوموں کی تاریخ میں مشکل فیصلے کرنا ہوتے ہیں، انہیں ہمیشہ ملتوی کرنے سے حالات مزیدخرابی کی طرف جاتے ہیں۔جیسا کہ ماضی میں مشرف حکومت و پیپلزپارٹی کے ادوار میں ہوتا رہا ہے۔
وزیر اعظم نوازشریف کے قومی اسمبلی میں بیان کے بعد یہ حقیقت بھی آشکار ہوگئی ہے کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہے اور پاکستان کسی بھی صورت امریکی ڈرون حملوں کو برداشت نہیں کرے گا اور اگر امریکہ نے ڈرون حملے نہ روکے تو پاکستان اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو اٹھائے گا۔ قوم اسی جراتمندانہ موقف کی منتظر تھی۔ حکومت پاکستان کو امریکی ڈرون حملوں کے خلاف دوٹوک موقف اختیار کرنا چاہئے۔پوری قوم اس مسئلے میں حکومت کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ امریکہ کے ساتھ معذرت خواہانہ طرز عمل کو اب ختم ہونا چاہئے۔ قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے خاتمے سے طالبان سے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے لیکن اگر ڈرون حملے یونہی جاری رہے تو مذاکراتی عمل کو اس کا نقصان ہوگا۔جنرل مشرف نے ”سب سے پہلے پاکستان“کا دلفریب نعرہ لگاکر پاکستانی عوام کو بے وقوف بنایا۔”سب سے پہلے پاکستان“کا نعرہ در حقیقت ایک ”سراب“ تھا۔ اصل میں یہاں ”سب سے پہلے امریکہ“ کا مفاد پیش نظر رکھاگیا۔ نائن الیون کے بعد ملکی تباہی اور دگرگوں حالات کی تمام ترذمہ داری جنرل مشرف پر عائد ہوتی ہے۔ اس نے پاکستان کو”پرائی جنگ“میں دھکیل کو امریکہ سے مفادات سمیٹے۔ ہمارا قومی مفاد اسی میں ہے کہ پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر پرامن،مستحکم اور دوست ملک افغانستان ہو۔افغانستان میں امن کے قیام اور بیرونی طاقتوں کے کھیل کو روکنے کے لئے وسیع ترحکمت عملی تشکیل دینی چاہئے۔پاکستان میں امن کے قیام سے ہی ترقی و خوشحالی ہوسکتی ہے۔حکومت پاکستان کی طرف سے گوادر سے چین تک نئی شاہراہ بنانے کی منظوری ”شاہراہ ترقی“کی سمت اہم پیش قدمی ہے۔اس سے چین کو گوادر تک راہداریوں کی سہولت فراہم ہوسکے گی۔پاک،چین راہداری سے ہمیں مشرق وسطیٰ کے ممالک تک رسائی حاصل ہوسکے گی۔عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ پاکستان نے جن ترقیاتی منصوبوں کے معاہدے کیے ہیں،ان پر عملدرآمد سے ملک میں معاشی سرگرمیاں تیز ہوں گی۔گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کر نا اور چین کو گوادر تک راہداری کے لئے اس عظیم شاہراہ کی منظوری سے امریکہ اور بھارت سخت خائف ہیں۔وہ پاکستان کو مضبوط اور مستحکم دیکھنا نہیں چاہتے۔ اس عظیم شاہراہ کے بننے سے ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔پورے خطے میں تعمیروترقی کے نئے دروازے کھلیں گے اور نئے ٹرانزٹ ٹریڈ کے مراکز و جود میں آئیں گے۔
تازہ ترین