• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آنکھیں کھولنے اور از سرِ نو غور کی ضرورت ہے۔ خارجہ و سلامتی کی بند ذہن اور بند گلی والی پالیسیاں سر کے بل گرنے کو ہیں۔ افغانستان کے استحکام اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک امریکہ شراکت کا بھانڈہ پھوٹ چکا۔ اب چنوتی صرف یہ رہ گئی ہے کہ یا تو ہم افغان طالبان کو دھکیل دھکال کر شراکتی امن کی طرف لے جائیں یا پھر اُن کے خلاف اُٹھ کھڑے ہو جائیں کہ بات کرو یا یہاں سے بھاگو۔ لیکن بقول سرتاج عزیز ہم ایسا کرنے سے رہے۔ شاید پھر ہمارا من اُسی پرانے افغان مجاہدین کو اقتدار میں لانے والی غلطی کی جانب راغب ہے؟ محاورے کو اُلٹا لیا جائے تو یوں کہا جائے کہ حماقت اور وہ بھی پوچھ پوچھ۔ امریکی کانگریس نے 45 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد اور ایف سولہ طیارو ں کی خریداری کیلئے 43 کروڑ ڈالر کی امدادی رقم حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی یا افغان طالبان کی جانب سے جاری جارحانہ حملوں کیلئے پاکستان کی سرزمین کے استعمال کی مخالفت سے نتھی کر دی ہے۔ افغان حکومت نے گلبدین حکمت یار سے معاہدہ کر لیا ہے اور پاکستان سے افغان طالبان سے بات چیت میں اعانت کی بجائے، اُن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ، چین، افغانستان اور پاکستان کا مذاکراتی عمل کو بڑھانے کا فورم اب اپنی افادیت کھونے کو ہے۔ اب جبکہ امریکی اپنی عسکری صفیں لپیٹ، افغانستان سے روانہ ہونے کو ہیں تو پھر ہم ہوں گے اور افغانستان کا دنگے فساد کا جدی پشتی میدان۔ اسے سوائے اس کے کیا کہیے کہ آسمان سے گر اکھجور میں اٹکا۔ اور سر پیٹنے کے سوا کیا چارہ رہ جاتا ہے کہ ایسے وقت میں ہمارے خارجہ امور والے چلے ہیں درخواست لے کر کہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا حصہ بنیں۔ واللہ خوش فہمی پر فدا ہونے کو جی چاہتا ہے۔ خدا خدا کر کے تحریکِ طالبان پاکستان سے جان چھوٹی تھی۔ اُنھیں افغانستان میں پناہ گاہیں میسر آ گئیں اور ہم افغان طالبان کے میزبان۔ دونوں ملکوں کی تباہی کا اِس سے نایاب نسخہ کہیں دستیاب ہوگا، سوائے ہمارے کند ذہن پالیسی سازوں کے۔ بھارت نے تو کشمیر کی لائن آف کنٹرول کے پار سو زخم سہہ لئے، کیا ہم بھارت کی جانب سے افغانستان کے جہادی بازاروں میں بکتے جہادی گروہوں کے استعمال سے لگائے جانے والے زخم برداشت کر پائیں گے۔ جیسے کو تیسا کے مصداق اِس آنے والی خوفناک خونریزی کو کیا نیوکلیئر اسلحہ سے لیس برصغیر پاک و ہند سنبھال پائے گا جبکہ ہر دو اطراف جنونی جارحیت پسندوں کی کمی نہیں اور اُنھیں روکنے والے فقط دشمن کے ایجنٹ ٹھہرائے جانے کے قابل سمجھے جاتے ہیں۔ خودکشی کے اِس راستے پر چلنے والوں کیلئے فقط انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھنے کے سوا کیا چارہ رہ جاتا ہے۔
افغانستان کے جنجال کے گلے پڑنے کی بپتا کیا کم تھی کہ دلّی والوں نے نیوکلیئر اسلحہ کی دوڑ کو اگلے خوفناک مرحلے میں داخل کر دیا ہے۔ گزشتہ ماہ بھارت نے بحرِ ہند میں K-4ب میرین سے نیوکلیئر ہتھیار کی صلاحیت کا حامل بلاسٹک میزائل داغ دیا اور اب گزشتہ اتوار کو اُس نے آواز سے تیزتر میزائل توڑ بلاسٹک میزائل کا تجربہ کر کے پاکستان کیلئے ایک نیا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ گویا نیوکلیئر اسلحے کی دوڑ میں معاشی کڑاکے نکلنے کا مرحلہ آ گیا ہے۔ داد دیجیے ہمارے خارجہ و سلامتی کے مشیر جناب سرتاج عزیز کو کہ وہ خم ٹھونک کر کھڑے ہو گئے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ میزائل شکن میزائل نظام پانچ منٹ سے کم اُڑان کے قلیل وقت میں یہ کسی کام کا نہیں۔ امریکہ اور روس جوہری مقابلے میں بھی اِس نوع کا حفاظتی نظام محض افسانہ ہی رہا، حالانکہ میزائلوں کی اُڑان کا وقت 30 سے 45 منٹ تھا۔ اسلحے کی دوڑ اور اب نیوکلیئر اسلحے کا مقابلہ یقیناًبھارت نے پاکستان کے سر تھونپا ہے۔ لیکن ماضی میںکشمیر میں قبائلی نان اسٹیٹ ایکٹرز کو بھیجنے کی انگشت تو ہم نے ہی کی تھی۔ تقسیم کے بعدسے ہی بھارت نے پاکستان کو دل سے مانا نہیں اور پاکستان کو بھارت کے خطرناک ارادوں کے دھڑکے نے دونوں ملکوں کو اُلٹی سمت دھکیل دیا۔ بھارت سوویت یونین کے ساتھ کیا گیا ہم پہلے سے ہی امریکہ کی محکومی میں کود چکے تھے۔ سرد جنگ ہماری قومی سلامتی کیلئے بیمہ ثابت ہوئی یا کچھ اور، اس پر نظرثانی کا کسی کے پاس وقت کہاں۔ امریکہ کے اتحادیوں میں بڑے اتحادی ہونے کے زعم میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے آپریشن جبرالٹر کیا اور 1965ء کی جنگ گلے میں ڈال بیٹھے۔ اُن کے جانشین جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے جب وہاں آپریشن کیا تو بھارت نے مکتی باہنی بنا کر 1971ء کی جنگ میں کشمیر کے حساب چکا دیئے۔ پھر وہی بھٹو، جنہیں پھانسی پہ لٹکا دیا گیا، نے پاکستان کے ناقابلِ عمل سلامتی کے نظریئے کی نہ صرف تشکیل کی بلکہ بھارت کے 1974ء کے نیوکلیئر دھماکے کے جواب میں جوہری ہتھیاروں کی بنیاد رکھ دی۔ یوں پاکستان بھارت کے مقابلے میں اسلحے کی دوڑ میں کھنچتا چلا گیا۔
قوم کو یقین دلایا گیا کہ روایتی ہتھیاروں میں جو پاک بھارت تفاوت (Asymmetry) ہے وہ نیوکلیئر اسلحہ سے دور ہو جائے گا اور روایتی اسلحے کا بوجھ کم ہو جائے گا۔ وہ دن اور آج کا دن روایتی اسلحہ کی دوڑ ختم ہوئی نہ جوہری اسلحہ کا مقابلہ۔ اس وقت پاکستان نیوکلیئر ہتھیاروں اور میزائلوں میں بھارت سے نہ صرف آگے ہے بلکہ 2025ء تک دُنیا کی پانچویں بڑی نیوکلیئرپاور بن جائے گا۔ عالمی اسٹرٹیجک بدلتے توازن قوت کا کیا کیجیے اسلحہ کی دوڑ کی آفت نہ جانے سوویت یونین کے بعد کس کس کو لے ڈوبے گی۔ پاکستان کی اسلحے کی دوڑ بھارت سے ہے، بھارت کی پاکستان سمیت اصل میں چین سے ہے اور چین کی امریکہ سے ہے۔ چین کا امریکہ سے فوجی اخراجات کا فرق 1/3 کا ہے اور وہ اپنی قومی آمدنی کا 1.2 فیصد خرچ کر رہا ہے۔ بھارت کا چین سے فوجی اخراجات کا فرق بھی 1/3 کا ہے اور وہ اپنی قومی آمدنی کا 1.8 فیصد دفاع پر خرچ کر رہا ہے اور پاکستان اور بھارت کی قومی آمدنی میں فرق 1/10 کا ہے اور فوجی اخراجات کا فرق 1/6 کا ہے۔ ہم دفاع پر اپنی قومی آمدنی کا 3.5 فیصد خرچ کر رہے ہیں اور اس کے باوجود بھارت سے فوجی تفاوت بڑھتاہی چلا جائے گا خواہ ہم اپنا دفاعی بجٹ دُگنا کر دیں یعنی قومی آمدنی کا سات فیصد ۔ تاآنکہ ہم اس دوڑ میں دیوالیہ ہو جائیں اور بھارت چین سے مقابلے میں بے حال ہو جائے۔ لیکن بھارت کی معیشت دُنیا کی تیسری بڑی معیشت ہونے جا رہی ہے اور ہم ہیں کہ یا تو لوٹی ہوئی دولت کے چھیچھڑوں کے آف شور کمپنیوں سے گرنے کے انتظار میں ہیں یا پھر چین کی فیاضی کے طلب گار۔ پنجابی کہاوت ہے: پَلے نہیں دھیلا، کردی میلہ میلہ۔
خود کشی کی راہ لی جائے تو کمی کیوں رہنے دی جائے۔ ہماری یونیورسٹیوں کی ریٹنگ دُنیا میں کم ترین یعنی 10 فیصد سے کم، بھارت کی 60 فیصد سے زیادہ۔ بھارت میں سالانہ 90,000کتابیں چھپتی ہیں۔ ہمارے ہاں فقط دو ہزار۔ دُنیا میں ریاضی دان، گریجویٹس اور علمی معیشت میں بھارت سب سے آگے بڑھنے کو ہے اور اس کی شرح ترقی دیدنی ہے۔ لیکن غریب عوام کے انبوہِ کثیر کی حالت دونوں ملکوں میں پتلی ہی ہے۔ اب عالمی توجہ کا مرکز ایشیا بحر الکاہل کا علاقہ بننے جا رہا ہے اور مشرقِ وسطیٰ فقط دردِ سر۔
ہم مشرقِ وسطیٰ کیلئے تمام ہمسایوں سے برسرِپیکار۔ اور بھارت ہے کہ امریکہ، جاپان، فلپائن، جنوبی کوریا، ویت نام اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر ایشیا بحرالکاہل میں چین کے مقابلے کیلئے تیار ہو رہا ہے۔ بھارت نے امریکہ کے ساتھ سمندروں میں شراکت داری کرتے ہوئے ایشیا بحرالکاہل اور بحرِ ہند میں اپنی حیثیت مضبوط کر لی ہے۔ ہم اس دوڑ سے باہر ہو چکے ہیں۔ فقط چین کی مدد سےہم اس بڑے مقابلے میں نہیں کود سکتے، سوائے اس کے کہ ہم بحیرۂ عرب میں چین کے لے پالک بن جائیں۔ بھارت کے جنگی عزائم کے تمام نظریات کا ہم نے توڑ نکال لیا ہے اور کسی طرح کی جارحیت کا انجام یقینی باہمی تباہی (Mutually Assured Destruction) کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ بہتر ہوگا کہ ہم اپنے اہم جغرافیائی محلِ وقوع کا بھرپور فائدہ اُٹھائیں۔ یادش بخیر جیسا کہ یہ کبھی میاں نواز شریف کا خواب ہوا کرتا تھا۔ ہمسایوں سے تصادم کی بجائے مفاہمت اور جنوبی و وسطیٰ ایشیا میں اقتصادی پُل کا کام کریں۔ اسلحہ کی دوڑ اور تمام ہمسایوں سے تصادم کی راہ خطرے کے نشان سے اوپر جا چکی ہے۔ بند ذہن کھولنے اور بند گلی سے نکلنے کا وقت آ گیا ہے لیکن حکمران پاناما پاناما کھیل رہے ہیں یا پھر اقتدار اور اختیارات کی جنگ میں مصروف ہیں۔ اس پر اظہارِ تاسف کے سوا کیا رہ جاتا ہے اور تاریخ کو اِس سے کیا غرض۔ آنکھیں کھولنے اور ازسرِنو غور کی ضرورت ہے۔ کوئی سُن رہا ہے؟
تازہ ترین