• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج پاکستانی معاشرہ جس انتشار، افراتفری اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، اس موقع پر تسنیم صدیقی جیسے دانشور کاوفات پا جانا کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے زندگی بھر اپنی دانشورانہ ذمہ داریاں نبھائیں اور پوری کوشش کی کہ معاشرے میں ذہنی تبدیلی لے کر آئیں تاکہ معاشرے میں روشن خیالی کی روایتیں آگے بڑھ سکیں۔تسنیم صدیقی نے سرکاری ملازمت کرتے ہوئے بھی اپنے خیالات سے ذرہ بھر انحراف نہیں کیا اور ملازمت کھونے کا خوف انہیں مجبور نہ کر سکا اور انہوں نے ہمیشہ فرسودہ روایتوں کو توڑنے کی بات کی۔انہوں نے سندھ میں چیف سیکرٹری کے طور پر بھی کام کیا۔ حیدر آباد ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے علاوہ سندھ کچی آبادی اتھارٹی کے ڈی جی بھی رہے۔ انکی زندگی کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے ایسے ادارے تشکیل دیے جن کے مالی وسائل کے ذرائع بھی انہوں نے خود ہی ڈھونڈے۔وہ معروف سماجی ماہر اختر حمید خان کی سوچ سے بہت متاثر تھے جنہیں اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے توسط سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔وہ پوری زندگی غریبوں کیلئے مکان میسر کرنے کیلئے نہ صرف منصوبوں کا تصور متعارف کرواتے رہے بلکہ خدا کی بستی کے نام سے ایک منفرد ہاؤسنگ اسکیم کا اجراکیاجس کے عوض انہیں آغا خان ایوارڈ دیا گیا۔آج خدا کی بستی کو دنیا بھر کی بہترین اسکیموں میں سے ایک جانا جاتا ہے۔

انہوں نے خدا کی بستی کا تصور زمینی حقائق کو پوری طرح مدنظر رکھتے ہوئے دیاتاکہ خط غربت سے نیچے بسنے والوں کیلئے چھت کے تصور کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔اس منصوبے کی اہم بات یہ تھی کہ غریب لوگوں کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہوتی تھی اور یہ غریبوں کو پلاٹ تو مہیا کرتے تھے مگر ساتھ ساتھ اس پر تعمیر کا طریقہ بھی بتاتے تھے مثلا پہلے مرحلے میں ایک کمرہ اورایک واش روم کی تعمیر کی جا تی تھی اور پھر اگرپیسے میسر ہوں یا کہیں سے آسان قسطوں پر قرض ملے تو دوسرے مرحلے میں باورچی خانہ، دوسرا کمرہ اور دیگر ضروریات پوری کی جاتی تھیں۔ مرحلے وار سستے گھروں کی تعمیر نے ایک نہایت غریب آدمی کیلئے یہ ممکن بنا دیا تھا کہ وہ اپنا گھر خود تعمیر کر سکے لیکن اس میں ایک شرط یہ رکھی گئی کہ وہ یہ پلاٹ یا گھر بیچ نہیں سکے گا۔اس شرط کی وجہ سے تجارتی بنیادوں پر انویسٹمنٹ کرنے والوں کیلئے راستہ بند ہو گیااور خدا کی بستی ایک رول ماڈل ہاؤسنگ اسکیم بن گئی۔تسنیم صدیقی نے یہ کام اس وقت شروع کیا جب پاکستان میں ہاؤسنگ اسکیم کے نام سے اربوں روپوں کی خردبرد کی جا رہی تھی اور لاکھوں لوگوں کو گھر مہیا کرنے کے نام پر دھوکہ دیا جا رہا تھا جو آج تک جاری ہے۔ کراچی میں خدا کی بستی کی تعمیر کے بعد لاہور اور دیگر شہروں میں اس تصور کو متعارف کروایا گیا۔اس طرح کے گھروں کی تعمیر کا تصور ایک ایسا ہی دانشور کر سکتا ہے جس کے سامنے اپنی ضروریات کی بجائے سماجی ضروریات اول درجہ رکھتی ہوں۔پاکستان میں کوئی اور پیشہ ور سماجی ماہرایسا تصور اپنانے یا متعارف کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے تھے مگر تسنیم صدیقی کے اعتماد، سمجھ بوجھ نے اسکو عملی شکل میں ممکن بنایا۔ یہ طے کرنا آسان نہیں ہے کہ انکی شخصیت اور انکی فنی صلاحیتوں میں کون افضل ہے۔انکی فنی عظمتیں تو اپنی جگہ مگر انکی شخصیت کی عظمت میرے نزدیک متاثر کن ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تخلیق، تخلیق کار کی شخصیت کاعکس ہی کہلاتی ہے۔ گو کہ انکی تخلیقات انکی شخصیت کا عکس بھی ہیں اور انکی شخصیت کا آئینہ بھی۔ لیکن انکا فن اور شخصیت اس طرح مدغم نظر آتے ہیں کہ دونوں کے ادغام نے ایسی عظیم شخصیت کو جنم دیا ہے جسے تسنیم صدیقی کہتے ہیں۔یہ کہنا کہ وہ آج ہم میں نہیں رہے، ایک رسمی سی بات ہوگی، امر واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص جو دراصل ایک آدرش اور مسلک تھا، ہم سے کیونکر جدا ہو سکتا ہے؟جسمانی طور پر وہ اس دنیا میں نہیں رہے لیکن انکا آدرش سے جو کمٹمنٹ تھا، وہ انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ میں نے اپنی زندگی کے تقریباً 30 سال انکے قریب گزارے۔ وہ ایک اسٹڈی سرکل میں ہمارے چیئر مین ہوا کرتے تھے جس میںجو موضوع گفتگو کیلئے مختص کیے جاتے تھے، اس میں سیاست اور نظریہ سیاست، ادبی منظر نامہ، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہات، ملک میں جاری فرسودہ نظام، نو آبادیاتی نظام، معاشرتی پستی اور ایسے دوسرے موضوعات ہوتے تھے اور پھر اس گفتگو کے دوران دو گروپ وجود میں آتے ہی دھواں دار گفتگو کا آغاز ہو جاتا۔ ایک گروپ اس موضوع کی خوبیاں اورسود مندیاں سامنے لاتا تو انتظا رمیں بیٹھا مخالف گرو پ فورا ہی اسکے نقائص جسے وہ ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا،مقابلے میں کھڑا کرتا۔دونوں طرف سے تیر ونشتر کی بحث جب عروج پر پہنچتی تھی تو تسنیم صدیقی اپنے دلائل سے دونوں گروپوں کو قائل کر لیا کرتے تھے۔مشرقی پاکستا ن میں جب ملٹری ایکشن شروع ہوا تو تسنیم صدیقی مشرقی پاکستان کے مختلف اضلاع میں ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے کا م کر رہے تھے۔ وہ تفصیل کے ساتھ سابقہ مشرقی پاکستان کے حالات اور اسکی علیحدگی کی وجوہات بیان کیا کرتے تھے ۔مشرقی پاکستان میں اپنے سرکاری کام کرتے ہوئے وہ کئی بار حملوں میں بال بال بچے۔مشرقی پاکستان کے موضوع پر انہوں نے کئی سیمینار بھی کیے اور ڈان اخبار میں کئی آرٹیکلز بھی لکھے لیکن میرے مجبور کرنے کے باوجود انہوں نے اس سلسلے میں کوئی کتاب نہ لکھی۔ میں یہ اپنی کوتاہی سمجھتا ہوں اور اگر میں ان کے ساتھ بیٹھ جاتا تو مشرقی پاکستان کے موضوع پر ایک کتاب لکھ کر ہی اٹھتا،جو آئندہ آنے والے محققین اور طالب علموں کیلئے بہت اہم ماخذ ہوتی۔تسنیم صدیقی12اکتوبر 1939 میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک نابغہ تھے اور ان کی اچانک وفات نے ایک عالی دماغ سے بنی نوع انسان کو محروم کر دیا، اگرچہ ان کے مقلدین موجود ہیں اور ان کے طے کردہ رہنما اصولوں کی مدد سے اس سفر کو جاری رکھیں گے مگر ان جیسا وژن شاید کسی دوسری غریب دوست ہستی میں ممکن نہ ہو۔سرکاری نوکری کے بعد میں انہوں نے ایک تنظیم سائی بان ایکشن ریسرچ فار شیلٹر بنائی جس نے ٹھٹھہ، کراچی اور لاہور میں کام کیا۔ 1999میں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے نوازا۔ وہ چلڈرن ہومز فار پیس اینڈ ہیومن رائٹس کے بانی چیئر مین بھی رہے۔ انہیں فلپائن میں میکسے سی ایوارڈ بھی ملا۔

تازہ ترین