• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ کا یہ کہنا بجا ہے کہ کراچی میں بد امنی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ ہر روز قتل اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں عام ہو چکی ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق بھتہ خور اور مختلف طرح کے مافیا لاہور اور اسلام آباد میں بھی اپنے پاوٴں جما رہے ہیں۔ اگر صورت حال پر قابو نہ پایا گیا تو ملک کا ہر شہر اور قصبہ کراچی بن جائے گا جہاں عملاً مختلف طرح کے مافیا راج کریں گے اور حکومت برائے نام رہ جائے گی۔ لیکن اس کا حل فوج کے ذریعے نہیں بلکہ پولیس اور پیرا ملٹری فورسز (رینجرز وغیرہ) کے ذریعے ہی کرنا صائب ہوگا۔ایک تو یہ فوج کا کام نہیں اوردوسرے اس وقت فوج بیرونی سرحدوں کی سالمیت میں اس قدر الجھی ہوئی ہے کہ وہ گلیوں محلوں میں قانون شکنی کرنے والوں پر اپنا وقت ضائع کرنے کے قابل نہیں ہے۔
ہمیں شہروں میں پائی جانے والی بد امنی اورریاستی نظام کے خلاف مسلح نظریاتی جنگ کرنے والوں کو گڈ مڈ نہیں کرنا چاہئے۔ شہروں میں پائے جانے والے بھتہ خور اور مافیامعاشی لوٹ مار کیلئے گروہ منظم کرتے ہیں۔ اس طرح کے گروہ ماضی میں بھی پائے جاتے تھے اور بھتہ خوری کو جگا ٹیکس کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ اس وقت شہروں کی آبادی محدود تھی اور معاشی و سرگرمیاں بھی آج کی طرح وسیع اور پیچیدہ نہیں تھیں۔ مزید برآں محلے اور مقامی کاروباروں کا کمیونٹی کے ساتھ ایک تعلق ہوتا تھا۔لیکن اسّی کی دہائی کے بعد شہروں کی طرف ہجرت بڑے پیمانے پر ہوئی ہے۔ کراچی جیسے تجارتی شہر میں تو ہر رنگ، نسل اور قومیت کے لوگ آکر آباد ہو گئے ہیں۔ اس سے کمیونٹی کے احساسات اور پہچان ختم ہو گئی ہے۔ نا شناختی کے اس ماحول میں بھتہ خور اور دیگر مافیاوٴں نے جنم لیا ہے۔
کراچی کے علاوہ ملک کے باقی شہروں میں بد امنی کا مسئلہ اس لئے اتنا شدید نہیں ہوا کہ مختلف شہروں میں ایک ہی قومیت کے لوگ آباد ہیں۔مزید برآں کراچی کا تجارتی حجم بھی ایک بہت بڑا عنصر ہے۔ خاص طور پر ان حالات میں جب ریاستی سہولتیں ناپید ہوں اور امیر اور غریب کے درمیان خلیج روزبروز بڑھ رہی ہو۔نیویارک پر بھی چند دہائیاں پیشتر مافیا کا راج سمجھا جاتا تھا۔ اسی طرح دنیا کے سارے تجارتی مراکز میں بھتہ خور مافیاوٴں کے پیدا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں ۔پڑوسی ملک بھارت کے شہروں (ممبئی، کلکتہ وغیرہ) میں مافیاموجود ہیں جن کے بارے میں بالی وڈ سینکڑوں فلمیں بنا چکی ہے۔ لیکن کوئی بھی اس طرح کی بد امنی کے حل کے لئے فوج کو استعمال نہیں کرتا۔ دوسری طرف پاکستان میں طالبان کی طرح کے لشکر اور ہندوستان میں ماوٴسٹ گوریلا تنظیمیں ہیں جن کا بنیادی مقصد ریاست پر قبضہ کرنا اور اس میں اپنا نظریاتی نظام قائم کرنا ہے۔
طالبان پاکستان کے جمہوری نظام کو کافرانہ قرار دیتے ہوئے اسلامی خلافتی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں جبکہ ماوٴسٹ ہندوستان کے معاشی نظام کو عوام دشمن سمجھتے ہوئے ویسا نظام عائد کرنا چاہتے ہیں جیسا ماؤزے تنگ نے چین میں قائم کیا تھا۔ اس طرح کی ریاست شکن طاقتیں غالباً عام پولیس کے بس کی نہیں ہیں، اگرچہ ہندوستان اب بھی ماوٴسٹوں کا قلع قمع کرنے کیلئے فوج استعمال نہیں کر رہا۔ پاکستان میں طالبان کی ریاست دشمنی کی نوعیت قدرے مختلف ہے کیونکہ اس تحریک میں عالمی عناصر بھی شامل ہیں جن کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال کا جواز موجود ہے۔اس وقت پاکستانی فوج کو گمبھیر مسائل کا سامنا ہے۔ نیٹو فورسزایک سال کے اندر اندر افغانستان سے واپس جا رہی ہیں۔ اس کے بعد پاک افغان سرحدی علاقوں میں طالبان کی سیاسی گرفت اور بھی مضبوط ہو جائے گی۔ پاکستان میں کچھ حلقوں میں یہ خوش فہمی پائی جاتی ہے کہ نیٹو فورسز کے اخراج کے بعدافغان طالبان افغانستان لوٹ جائیں گے اور پاکستانی طالبان سے نپٹنا آسان ہو جائے گا۔ لیکن ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ پاکستانی اور افغان طالبان کے درمیان نظریاتی یک جہتی ہے اور افغان طالبان پاکستانی حکومت سے زیادہ اپنے ہم عقیدہ پاکستانی طالبان کو ترجیح دیں گے۔ اس سیاق و سباق میں پاکستانی فوج کے پاس طالبان سے نجات حاصل کرنے کیلئے بہت کم وقت ہے۔ فوجی رہنماوٴں اور وزیر اعظم کے حالیہ بیانات سے بھی یہی تاثر ابھرتا ہے کہ قبائلی علاقوں میں ریاستی رٹ قائم کرنے کا وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ علاوہ ازیں پاک ہند سرحدوں پر بھی مسلسل کشیدگی کے باعث بہت سے فوجی وسائل مشرقی سرحدوں کی حفاظت کیلئے وقف ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر پاکستانی فوج کو کراچی کے گلی کوچوں میں پائی جانے والی بد امنی ختم کرنے کے لئے استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔
عملی طور پر بھی شہروں میں امن و امان قائم کرنے کے لئے فوج کا استعمال ناروا ہے۔ فوج کی تربیت اور ذہنی ساخت گلی محلوں میں آپریشن کیلئے نہیں کی جاتی۔ دوسرے فوج کے ذریعے کیا گیا شہری امن دیرپا نہیں ہوتا۔ اس سے پیشتر بھی کراچی میں فوجی اپریشن کے ذریعے صفائی کی گئی تھی لیکن یہ دیرپا ثابت نہیں ہوئی کیونکہ چند سالوں میں ہی بھتہ خور اور مافیا گینگ پہلے سے زیادہ طاقت سے ابھر کر سامنے آئے۔ چونکہ فوج ہمیشہ کیلئے شہری امن قائم رکھنے کیلئے رہ نہیں سکتی اس لئے آخر کار یہ مسئلہ سیاسی طاقتوں کو پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے ذریعے ہی حل کرنا پڑتا ہے۔ پیرا ملٹری فورس رینجرز کے پاس بھی لگ بھگ وہی ہتھیار ہیں جو فوج کے پاس ہیں اور اگر نہیں ہیں تو اس کو مہیا کئے جا سکتے ہیں۔ اس لئے عملی طور پر شہری بد امنی کے سیاق و سباق میں کوئی ایسا کام نہیں جو رینجرز کی بجائے فوج کو کرنا پڑے۔ کراچی میں بد امنی بنیادی طور پر سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا حل بھی سیاسی حکومتوں کو ہی نکالنا چاہئے۔اگر مختلف بھتہ خوروں اور مافیاوٴں کو مختلف سیاسی پارٹیوں کی پشت پناہی حاصل ہے تو فوج اس کا کیا حل نکال سکتی ہے؟ شہروں میں بھتہ خور مافیاوٴں کا خاتمہ غیر جانبدار خفیہ ایجنسیوں، پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے بغیر ہونا ناممکن ہے۔ ریاست کے یہ ادارے تبھی غیر جانبدار ہو سکتے ہیں اگر مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ مقامی سیاسی پارٹیوں کا مفاد امن عامہ سے منسلک ہو۔ اگر ان میں سے کسی کا بھی مفاد بھتہ خوری اور مافیاوٴں میں ہو تو امن قائم کرنے کی سیاسی فضا قائم نہیں ہو سکتی۔ اگر مقامی پارٹیوں کی نیت صاف نہ ہو تو فوجی آپریشن پر بھی جانبداری کے الزامات لگیں گے۔ اگرشہروں میں مقامی امن و امان فوج ہی کو قائم کرنا ہے تو پھر سول حکومتوں کا کیا فائدہ؟ ویسے بھی اگر فوج کو ہر چھوٹے بڑے مسئلے کو حل کرنے کیلئے بلایا جائے تو جمہوریت قائم نہیں رہ سکتی۔ اس طرح کی صور حال میں کوئی نہ کوئی مہم جُو جرنیل کودتا کر دیا کرتا ہے۔ اس لئے حکومت کے پاس عملی طور پر ایک ہی راستہ ہے کہ وہ کراچی کا مسئلہ فوج لائے بغیر حل کرے۔
تازہ ترین