• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شام کے خلاف طبل جنگ بجادیا ہے جس کے باعث خطے کی صورتحال سنگین تر ہوگئی ہے۔ خطے میں جنگی طیاروں سے لیس 5 امریکی بحری جہاز شام پر حملے کیلئے تیار ہیں جو کسی بھی وقت شام پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ امریکی صدر نے شام کیخلاف فوجی کارروائی کی منظوری کے بل کا مسودہ کانگریس کو بھجوادیا ہے مگر ساتھ ہی امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا یہ بھی کہنا ہے کہ کانگریس کی منظوری کے بغیر بھی امریکہ شام پر حملہ کرسکتا ہے۔ فرانس نے بھی امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی افواج کو تیار رہنے کا حکم دے رکھا ہے اور کہا ہے کہ کچھ دنوں میں شام پر فوجی حملے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ شام پر ممکنہ امریکی حملے کی منصوبہ بندی میں کچھ تبدیلی اس وقت رونما ہوئی جب شام پر حملے میں برطانوی شرکت سے متعلق حکومتی قرارداد برطانوی پارلیمنٹ نے اکثریت سے مسترد کردی، اس طرح برطانوی عوام نے حکومت کا شام کے خلاف امریکی جنگ میں ساتھ دینے کا منصوبہ ناکام بنادیا اور یہ ثابت کیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ واضح ہو کہ اس سے قبل برطانیہ ہمیشہ امریکی جارحیت میں اس کا شریک کار رہا ہے۔ خیال کیا جارہا تھا کہ اس غیر متوقع صورتحال کے بعد شاید امریکی رویّے میں کوئی تبدیلی آئے گی مگر اس کے باوجود امریکہ اپنی ضد پر قائم رہا اور امریکی نیشنل سیکورٹی کونسل نے موقف اختیار کیا کہ برطانوی پارلیمنٹ کے فیصلے سے امریکی حکمت عملی متاثر نہیں ہوگی، امریکہ اپنے مفاد میں شام پر اکیلے بھی حملہ کرسکتا ہے جس کیلئے وہ اتحادیوں کا بھی انتظار نہیں کرے گا۔
اس سے قبل سلامتی کونسل میں امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے شام کے خلاف پیش کی گئی قرارداد روس اور چین ویٹو کرچکے ہیں۔ روس کا موقف ہے کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں کہ شامی افواج نے باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کئے ہوں۔ روس اپنے اتحادی ملک شام پر حملے کا شدید مخالف ہے اور اس نے واضح انداز میں امریکہ کو دھمکی دی ہے کہ اگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شام پر حملہ کیا تو وہ امریکہ کے حامی عرب ممالک پر حملہ کردے گا اور اس سلسلے میں روس نے اپنا میزائل بردار جہاز روانہ کردیا ہے۔ روس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر امریکہ شام پر جنگ مسلط کرتا ہے تو وہ سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی عراق پر حملے کی غلطی دہرائے گا اور اگر بشار الاسد کی حکومت گرتی ہے تو اس سے نہ صرف سیاسی خلا پیدا ہوگا بلکہ شام پر دہشت گرد قابض ہوجائیں گے۔ دوسری جانب ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ شام میں امریکی مداخلت خطے کیلئے تباہ کن ہوگی اور اس صورتحال میں ایران خاموش نہیں بیٹھے گا جبکہ ایران کے آرمی چیف نے بھی دھمکی دی ہے کہ شام پر حملے سے اسرائیل شعلوں میں گھر جائے گا۔ موجودہ صورتحال دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے موقف اختیار کیا ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی رپورٹ کا انتظار کیا جائے جبکہ اقوام متحدہ میں شام کے سفیر نے اس بات کی تردید کی ہے کہ شامی حکومت نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔ حکومت پاکستان نے شام پر اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام کی خود مختاری کا احترام کیا جائے اور جب تک کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی رپورٹ سامنے نہیں آجاتی، شام کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔امریکہ اور اس کے اتحادی گزشتہ کئی سالوں سے شام میں براہ راست مداخلت کی کوششوں میں سرگرم عمل ہیں اور اس سلسلے میں وہ شامی باغیوں کو اسلحہ اور مالی امداد بھی فراہم کرتے رہے ہیں مگر حالیہ دنوں میں حکومتی فورسز، جنہیں حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے، کو شامی باغیوں کے خلاف کارروائی میں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ واضح ہو کہ شام میں گزشتہ 2 سال سے جاری کشیدگی میں اب تک ایک لاکھ 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا منصوبہ ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو جواز بناکر شام کیخلا ف محدود فوجی کارروائی کرتے ہوئے کروز میزائل سے حملہ کیا جائے اور اس کی اہم فوجی تنصیبات بالخصوص فضائی اڈوں کو تباہ کرکے شامی فضائیہ کو مفلوج کردیا جائے۔ اس کے علاوہ شامی باغیوں کو چھوٹے ٹینکس، بکتربند اور ٹینک شکن میزائلوں سے لیس کیا جائے تاکہ وہ دارالحکومت پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں لیکن کیا ان حالات میں روس اور چین دور کھڑے تماشا دیکھتے رہیں گے یا وہ بشارالاسد کی حکومت بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس جنگی کارروائی میں امریکہ اور اسرائیل کا اصل ہدف شام نہیں بلکہ ایران ہے جو شامی حکومت کا قریبی اتحادی بھی ہے۔ اگر شام کیخلاف امریکہ اور اس کے اتحادی فوجی کارروائی کرتے ہیں تو اس صورت میں ایران بھی خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھے گا اور امکان ہے کہ وہ بھی اس جنگ میں کود پڑے۔ اس طرح کئی ممالک اس تنازع کی لپیٹ میں آجائیں گے جو تیسری عالمی جنگ میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے اور اس سے پاکستان بھی براہ راست متاثر ہوگا۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ہمیشہ سے یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ ہر دور میں کسی نہ کسی اسلامی ملک پر قبضے کیلئے سازشوں کے جال بنتے رہے ہیں۔ ماضی میں بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے مختلف جواز بناتے ہوئے افغانستان، عراق اور لیبیاکے خلاف فوجی کارروائی کی، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور تباہی ہوئی۔ اب جبکہ امریکہ نے 2014ء میں افغانستان سے اپنی افواج نکالنے کا اعلان کیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس کا اگلا ہدف شام ہے جس کے بعد ایران کی بھی باری آسکتی ہے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شام پر حملے کا جواز بنانے کیلئے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا ڈرامہ خود ہی رچایا ہو اور کیمیائی گیس کے راکٹ خود شامی باغیوں نے استعمال کئے ہوں کیونکہ ایسی صورتحال میں جب شامی حکومت کا پلہ بھاری ہے تو وہ اتنی بے وقوف نہیں کہ جانتے بوجھتے یہ حماقت کرے۔ اس موقف کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ جب اقوام متحدہ نے اپنے معائنہ کاروں کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق شواہد اکٹھے کرنے کیلئے شام بھیجنا چاہا تو شامی حکومت نے معائنہ کاروں کو فوراً اجازت دے دی۔
موجودہ صورتحال نے بشارالاسد کو ہیرو بنادیا ہے جو امریکی جارحیت کے خلا ف ڈٹ گیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ 21 اگست کو شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال میں 1429 افراد جاں بحق ہوئے مگر کیمیائی ہتھیار کس نے استعمال کئے، اس کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں مگر دنیا یہ جاننا چاہتی ہے کہ امریکہ کی قومی سلامتی کیلئے شام میں ہونے والا یہ واقعہ اتنا اہم کیوں ہے؟ ایسے میں اس بات کی توقع کی جارہی ہے کہ امریکہ، عراق جیسی غلطی شام میں نہیں دہرائے گا اور فوجی کارروائی سے قبل اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی رپورٹ کا انتظار کرے گا۔ موجودہ بگڑتی ہوئی صورتحال میں اسلامی ممالک کو چاہئے کہ وہ اپنے باہمی اختلافات بھلاکر عالمی طاقتوں کی سازشوں کو سمجھنے کی کوشش کریں اور شام کے تنازع کے حل کیلئے او آئی سی کا ہنگامی اجلاس طلب کرکے شام کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کروانے کی کوشش کریں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو شام کے بعد ایک اور اسلامی ملک، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جارحیت کا شکار ہوسکتا ہے جس کا فائدہ صرف اسرائیل کو پہنچے گا۔
تازہ ترین