• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج اس شہر خراباں کو دھکیل دھکیل کر جہاں پہنچا دیا گیا ہے، دو چار برس کی بات نہیں۔ اس کا خانہ خراب کرنے میں بہت وقت لگا ہے۔ اس سارے وقت میں اسے جان بوجھ کر بے طرح نظر انداز کیا گیا۔ اس میں ہر ایک کا حصہ ہے، بقدر جثہ بھی اور بقدر زورِ بازو بھی۔ یہ ایک ایسی دودھ دینے والی گائے ہے فائدہ جس سے سب نے اٹھایا، خیال رکھنے والے کم کم تھے۔ پہلے بھی، اب بھی۔ اس شہرِ بے مثال نے اپنے بازو ہمیشہ وا رکھے، ہر ایک کو اپنے دامن کی چھاؤں میں پناہ دی۔ یہ سب کا ہوا، اس کاکوئی نہیں بن سکا۔ اپنایا اسے کسی نے نہیں، نہ پہلے نہ اب۔ اجاڑنے والے ہاتھ بہت، پہلے بھی فعال تھے، اب بھی ہیں۔ خرابیاں جب شروع ہوئیں، کسی نے توجہ نہیں دی۔ دلچسپی اگر کسی کو تھی تو مزید خرابیاں پیدا کرنے میں، اسے مزید اجاڑنے میں، مزید تباہ و برباد کرنے میں۔ کسی کو یاد ہے، کل یہاں بسیں چلتی تھیں، سنگل بھی اور ڈبل ڈیکر بھی۔ روٹ بھی شیطان کی آنت جتنے نہیں ہوتے تھے۔ بسیں سرکاری بھی تھیں اور نجی بھی۔ اب تو ٹھیک سے یاد بھی نہیں، غالباً کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن یہ بسیں چلاتی تھی۔ آہستہ آہستہ سڑکوں سے سرکاری بسیں غائب ہونا شروع ہوئیں اورکے ٹی سی بھی ختم ہوگئی، یا ختم کردی گئی۔ نجی بسیں بھی آہستہ آہستہ کم ہوتی گئیں۔ اب بھی شاید کچھ علاقوں میں چلتی ہوں، برائے نام۔ کسی نے توجہ دی کہ شہر پھیل رہا ہے، آبادی بڑھ رہی ہے ، مگر ٹرانسپورٹ کم ہو رہی ہے۔ ہاں ٹرام بھی چلا کرتی تھی۔ کینٹ اسٹیشن سے کیماڑی تک، بندر روڈ سے ہوتی ہوئی، اور ادھر سولجر بازار تک۔ آہستہ آہستہ یہ بھی ختم کردی گئی۔ ایک دوسرا نظام یہاں بتدریج ، ایک منصوبہ بندی کے ذریعہ مسلّط کردیا گیا۔۔ منی بسیں۔ دنیا میں یہ کہاں چلتی ہیں؟ گھوڑا گاڑیوں کے لئے بنی لندن کی سڑکوں پر بھی، سنگل اور ڈبل ڈیکر بسیں چلتی ہیں۔قدیم غرناطہ میں منی بس سے بھی چھوٹی گاڑی دیکھی، مگر چند سڑکوں پر، کہ وہاں وہی چل سکتی ہیں۔منی بس جگہ زیادہ گھیرتی ہے، تکلیف دہ بھی ہے، مگر چلتی ہے، چلائی جاتی ہے۔
آبادی پھیلتی ہی چلی گئی۔ پھیلتی ہی چلی جارہی ہے۔ کبھی کسی نے سوچا، توجہ دی، کہ شہر میں ہر سال دسیوں ہزارلوگ، ملک کے مختلف حصوں سے آبسیں گے تو کیا ہوگا؟ ان لوگوں کی وہ تمام ضروریات ہیں انسان کو جو درکار ہوتی ہیں۔ کوئی توجہ ادھر نہیں دی گئی۔ کچّی آبادیاں، دیکھتے ہی دیکھتے، سینکڑوں تک جا پہنچیں۔ زمین وافر تھی، جسے جہاں موقع ملا سر چھپانے کا آسرا کر لیا۔ قبضہ گروپ کو اس میں مال ہی مال نظر آیا۔ زمینیں ہتھیالیں، اور ضرورت مندوں کو بیچ دیں۔ دام کھرے کرلئے۔ ان کچی آبادیوں میں اتنے چھوٹے چھوٹے گھر ہیں کہ رہنے والوں پہ ترس آتا ہے۔ کچی آبادیوں کو ابتدا ہی میں سلیقہ سے بسا دیا جاتا تو بعد کے بہت سے مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ ایسی ہی کچھ کچی آبادیوں کی وجہ سے لیاری ایکسپریس وے کادوسرا ٹریک کئی سال گزرنے کے باوجود مکمل نہیں ہو پا رہا۔
آبادی کے پھیلاؤ کا اثر صرف کچی آبادیوں کی شکل میں سامنے نہیں آیا۔ اس بہتی گنگا میں اور بھی لوگوں نے ہاتھ دھوئے۔ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) نے شہر کی باقاعدہ منصو بندی کی تھی۔ کئی اسکیمیں اس نے شروع کیں، ایک ماسٹر پلان بنایا، تعمیرات جس کے مطابق ہو نا تھیں۔ نارتھ ناظم آباد کی پلاننگ اتنی مہارت سے کی گئی ہے کہ ساری زیادتیوں کے باوجود، اس کی سڑکیں آئندہ کئی برسوں تک ٹریفک کا بوجھ برداشت کر سکتی ہیں۔ بھٹو کے دور حکومت میں ماسٹر پلان کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ گلشن اقبال کی آبادی کے ڈی اے کی دستاویز کے مطابق، ڈھائی تین لاکھ لوگوں کے لئے بنائی گئی تھی۔ مختلف سائز کے پلاٹ تھے جن پر ایک یا دو منزلہ گھر بنانے کی اجازت تھی۔کچھ خاص علاقوں میں فلیٹوں کے لئے گنجائش رکھی گئی تھی۔ آج یہاں دس لاکھ سے زیادہ لوگ آباد ہیں۔ جہاں کبھی ایک گھر تھا، وہاں کئی منزلہ عمارتیں کھڑی ہیں۔ یہی حال فیڈرل بی ایریا، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد اور پرانے شہر کے کئی علاقوں کا ہے، جہاں قبضہ مافیا نے اپنے پنجے گاڑ ے ہوئے ہیں۔ جو زمینیں خالی رکھی گئی تھیں ان پر بھی کئی کئی منزلہ پلازہ کھڑے کر دیئے گئے ہیں۔
نتیجہ کیا ہوا؟ کل جہاں ایک یا دو خاندانوں کی ضرورت کے مطابق پانی، بجلی، گیس اور نکاسی آب کی سہولت تھی، اب اتنی ہی جگہ میں درجنوں خاندانوں کو یہ سب سہولتیں درکار ہیں۔ یہ کون فراہم کرے؟ کیسے فراہم کرے؟ اور یہ بھی کہ کیوں فراہم کرے؟ پلازہ آپ کھڑے کئے جا رہے ہیں، مال آپ بٹور رہے ہیں، سہولتیں متعلقہ ادارہ فراہم کرے۔ چہ بوالعجبی؟ اور کیا یہ ادارے اتنی تیزی سے یہ سب سہولتیں فراہم کر سکتے ہیں، جتنی تیزی سے پلازے تعمیر کئے جارہے ہیں؟ کسی نے اس کا نوٹس لیا؟ کسی نے پوچھا، بھائی کیا کر رہے ہو؟ کیا کسی کو پتہ ہے اس شہر میں پانی کہاں سے آتا ہے؟ کیسے آتا ہے؟ ضرورت کتنی ہے اور فراہمی کتنی؟ کسی نے توجہ دی؟ مگر کیا کوئی ایسا شعبہ ہے جس پر توجہ دی گئی ہو؟ ایسے شعبے بہت ہیں جو توجہ کے محتاج رہے۔ مثلاً تعلیم۔ کبھی یہاں مخیر لوگوں نے ایسے کالج کھولے ہوئے تھے کہ غریب سے غریب بچہ بھی تعلیم حاصل کرسکتا تھا۔ فیس کم تھی، معاف بھی ہو جاتی تھی۔ اسلامیہ کالج ایسا ہی ایک ادارہ تھا۔ درجنوں کمروں پر مشتمل یہ عمارت اب تقریبا ً کھنڈر بن چکی ہے۔ یہاں پڑھنے پڑھانے والوں میں اس ملک کے متعدد اعلیٰ افسران شامل ہیں۔ شہر میں اسکولوں کی بہتات تھی، سرکاری بھی اور سرکار کی امداد سے چلنے والی نجی اسکول بھی۔ سرکاری اسکولوں کا معیار تھا۔ نجی اسکولوں کا بھی۔ بھٹو حکومت نے تعلیمی اداروں کو قومی ملکیت میں لے کر تعلیم کا بیڑہ غرق کردیا۔ ضیاء الحق کی نجکاری نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ سرکاری اسکولوں کا معیار اتنا گرا کہ غریب آدمی بھی اپنے بچوں کو وہاں پڑھانے پر راضی نہیں۔اور اگر راضی ہو تو کیا اتنے اسکول ہیں کہ سب بچوں کو داخلہ مل سکے؟ حکومت نے 1972کے بعد شہر میں کتنے اسکول کھولے ہیں؟ کوئی بتا سکتا ہے؟ صحت کے شعبہ کا حال بھی اتنا ہی برا ہے۔ تین بڑے سرکاری اسپتال ہیں۔ سول اسپتال قیامِ پاکستان سے پہلے کا ہے، جب اس شہر کی آبادی تین ساڑھے تین لاکھ تھی۔ جناح اسپتال وفاقی حکومت نے قائم کیا۔ لسانی فسادات کے بعد، مہاجروں کے آنسو پونچھنے کے لئے بھٹو صاحب نے عباسی شہید اسپتال بنوایا۔ مگر اسے بلدیہ کی ذمہ ڈال دیا۔ بلدیہ کہیں اسپتال بناتی ہے؟ اس کا کام بیماریوں کی روک تھام کرنا ہے، علاج کرنا نہیں۔ یہ اسپتال بلدیہ کے صحت کے بجٹ کا اچھا خاصا حصہ کھا جاتا ہے۔ صوبائی حکومتوں نے کونسے اسپتال بنائے؟ نجی شعبہ میں بنے، جہاں یہ اور تعلیم ایک انتہائی منفعت بخش کاروبار ہے۔
شہر اگر اس بے ہنگم طریقے سے پھیلیں، کہ پھیلتے ہی چلے جائیں، نظر انداز بھی کئے جائیں، عدم توجہی کا شکار ہوں تو کیا وہاں کے رہنے والے نارمل رہیں گے؟ بس کے سفر سے بیماری کے علاج تک مشکلات ہی مشکلات ہوں تو جھنجلاہٹ ، ٹینشن، غصہ اور سارے منفی رویے انسان پر اثر انداز ہوتے ہیں، اس کا مزاج بدل دیتے ہیں۔ ان خرابیوں کا سب سے زیادہ اثر امن و امان پر پڑا۔ مگر وہاں کس نے توجہ دی ؟ کیا پولیس کو صحیح خطوط پر منظم کیا گیا؟ کیا پولیس میں بے دریغ سیاسی بھرتیاں نہیں کی گئیں؟ کیا تھانے بیچے نہیں گئے؟ اور پھر یہ کہ کراچی میں امن و امان کی بحالی کے ذمہ دار زیادہ تر دوسرے علاقوں سے لائے گئے۔ مقامی افراد تو اب بھی اکا دکا ہی نظر آتے ہیں۔ کیا یہ جاننے کے لئے راکٹ سائنس کی ضرورت ہے کہ مقامی افراد ہی بہتر طور پر امن و امان کی ذمہ داری نبھا سکتے ہیں۔ ساری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ ہے۔ مقامی لوگوں کی دلچسپی یہاں ہوتی ہے۔ ان کے مفادات یہاں ہوتے ہیں۔ رشوت وغیرہ لیتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ تو جھجکتے ہوں گے۔ لوگ کیا کہیں گے؟ بچوں کو طعنے دیں گے؟ بہت سی معاشرتی پابندیا ں عائد ہو جاتی ہیں، خود بخود۔ پھر پولیس بھی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔
اور بھی ذرا سی توجہ دیں تو ہر طرف خرابیاں ہی خرابیاں ہیں۔ اب یہ بہت بڑھ گئی ہیں، عفریت کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ اب شور ہو رہا ہے۔ کل جب آک کے یہ درخت اُگ رہے تھے تو سب ان کی آبیاری میں لگے ہوئے تھے ۔ ہر ایک نے اپنے حصہ کا آک بویا۔ اب زہر ان کا سب کو کھا رہا ہے، کل د یکھ لیتے تو فضا مسموم نہ ہوتی، اتنی نہ ہوتی کہ سانس بھی نہ لی جا سکے۔ اب بھی دیکھ لیں۔ ٹارگیٹڈ ایکشن اور اس طرح کے اقدامات کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ فائدہ اگر ہو بھی تو کم اور عارضی ہوتا ہے۔ سب مل کر اس شہر کی نظر اتاریں۔ اس کے مسائل کا حل تلاش کریں، سارے مسائل کا، دیرپا، پائدار اور مستقل حل۔
تازہ ترین