• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور بھارت کے رشتے کو گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشے کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے… لیکن دو سال پہلے جب اردو اور پاکستان کے سب سے بڑے اخبار جنگ اور بھارت کے قدیم اخبار ٹائمز آف انڈیا نے مل جل کر امن کی آشا تحریک کا آغاز کیا تو پاکستان کے سنجیدہ اورخاموش طبع طبقوں نے نہ صرف اطمینان کا سانس لیا بلکہ خوش دلی سے اس کا استقبال کیا اور امن اور دوستی کی توقعات وابستہ کر لی تھیں، راقم نے اپنے خصوصی کالم سے اس کو خوش آمدید کہا۔ بھارت ایک ارب سے زائد آبادی والا ملک، کئی ہزار مربع میل کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے، وہاں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی، بدھ اور چین مت والے قبائلی اور لا مذہب لوگ بستے ہیں لہٰذا کسی نئی تحریک کو پھلنے پھولنے میں کافی وقت درکار ہوتا ہے لہٰذا ابتدا میں ان بھارتی افراد نے اس میں دلچسپی کا اظہار کیا جن کا آبائی وطن ان علاقوں پر مشتمل تھا جو اب پاکستان میں شامل ہیں اور یہ لوگ اکثریت میں بھارتی پنجاب، دہلی، یوپی بہار اور مدھیہ پردیش میں آباد ہیں۔ ان میں سکھ سر فہرست ہیں چونکہ ان کے تمام مذہبی مقامات پاکستان میں واقع ہوئے ہیں۔ ان کو بابا گرونانک اور دوسرے گروؤں کی برسیوں اور تہواروں پر پاکستان آنا پڑتا ہے۔ وہ یہاں ان کے مذہبی مقامات کے رکھ رکھاؤ اور پاکستانیوں کی محبت اور تواضع سے متاثر ہو کر واپس لوٹتے ہیں۔ دوسرے شمالی ہند کے وہ پنجابی اور اردو دان، ادیب، شاعر، دانشور اور طلبہ ہیں جو ان دو زبانوں سے واقف ہیں اور یہی زبان اقبال، فیض، فراز اور بلھے شاہ کے یوم اور تقربیں مناتے ہیں۔
وی وی آئی پی اور وزرائے کرام ادھر ادھر کم ہی جاتے ہیں وہ سرکاری استقبالیوں، ظہرانوں اور عائشوں میں دونوں ملکوں میں امن اور دوستی کی باتیں ضرور کرتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے مرغ خوش الحان بول رہے ہیں۔ تالیوں کے بور ے سمیٹ کر واہگہ پار ہوتے ہی بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے دہلی، لکھنو ، جے پور یا اسلام آباد اور لاہور میں کیا کہا تھا۔ یہ آزادی کی سالگرہوں اور عید اور دیوالی کے موقعوں پر مبارکباد کے پیغامات بھیجنا نہیں بولتے جو انہیں ان کے پرنسل اسٹاف یاد لاتا اور منظوری پیغام کا مسودہ دکھاتا ہے۔واہگہ یا کنٹرول لائن پر عجب حال ہے، عید اور یوم آزادی پر بھارتی مٹھائی پیش کرتے ہیں، دیوالی اور یوم آزادی پر یہی عمل پاکستان کی طرف سے دہرایا جاتا ہے، اگر کوئی بھولا بھٹکا چرواہا سرحد پار کر لے یا کوئی نوجوان بھٹک کر سرحد پار چلا جائے تو اگر نیت صاف ہو تو اس کو ڈانٹ ڈپٹ کرمخالف سپاہ کے سپرد کر دیتے ہیں ورنہ اس کو جاسوس، دہشت گرد ثابت کر کے برسوں جیل میں ڈال دیتے ہیں۔زمانہ امن میں سب سے زیادہ مصیبت ماہی گھیروں پر آتی ہے، سمندر میں سرحد کی کوئی لکیر تو نہیں ہوتی لہٰذا موقع ملتے ہی ایک دوسرے ملک کے ماہی گیروں کو ان کے شکار اورکشتیوں کے ساتھ پکڑ لیتے ہیں اور مہینوں وہ جیلوں میں سٹرتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی کنٹرول لائن پر تفریحاً گولہ باری ہوتی ہے۔ جو جوابی کارروائی سے ختم ہو جاتی ہے یا مقامی کمانڈروں کی گفت و شنید سے معاملہ سلجھ جاتا ہے مگر اس مرتبہ اوائل اگست سے حالات کشیدہ سے کشیدہ تر ہوتے جا رہے ہیں۔ بھارتی جنرل نے پانچ فوجیوں کے قتل کا الزام لگایا، پاکستان نے اس کی تردید کی، بھارت نے چار مزدوروں کو جو جڑی بوٹیاں جمع کر رہے تھے اغوا کر کے ہلاک کر دیا اور ہر رات کو بھارت کی جانب سے گولہ باری ہو رہی ہے۔ آخری اگست تک یعنی 24 روز میں، پاکستان کے آٹھ فوجیوں سمیت گیارہ افراد شہید، 31 افراد زخمی، متعدد مویشی ہلاک، اسکول سمیت کئی مقامات کو نقصان پہنچا۔ نیز9/اگست کو پاکستانی ہائی کمیشن پر جتھہ بندی سے حملے کئے ۔ لاہور سے دہلی جانے والی بس کو امرتسر کے قریب روک دیا گیا۔ 14/ اگست کو بھارتی پارلیمینٹ میں پاکستان کے معاملے میں بڑی زور دار تقریریں ہوئیں۔ پاکستان سے تعلقات ختم کرنے، مذاکرات معطل کرنے اور فوج کو فری ہینڈ دینے کے مطالبات کئے گئے۔ 15/اگست کو بھارت کے یوم آزادی پر تقریر کرتے ہوئے بھارتی صدر نے پاکستان کو خبردار کیا کہ اب ہمارا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اب اندرونی سلامتی اورعلاقائی سا لمیت کا تحفظ کیا جائے گا۔ 17کو احمد آباد کی نمائش میں رکھے جانے والے پاکستانیوں کے17 شاہکاروں کو ایک تعصب پسند ہندو جماعت کے25 ارکان نے گیلری میں گھس کر تحس نحس کر دیا۔ اس حادثے کی تصویریں پاکستانی اخباروں میں شائع ہو چکی ہیں۔ دو مرتبہ دریائے ستلج میں بلا اطلاع پانی چھوڑ دیا جس سے درجنوں دیہات ، کھڑی فصلیں تباہ اور مویشی کی اچھی خاصی تعداد بہہ گئی۔اس کے جواب میں پاکستان نے خاموشی اختیار کئے رکھی اور منتخب وزیر اعظم انتخاب سے پہلے اور بعد میں رسم حلف برداری کے موقع پر اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے ظہرانے پر یہی کہتے رہے کہ ہم بھارت سے دوستی چاہتے ہیں اور خیر سگالی کے جذبے کے تحت 265 بھارتیوں کو رہا کر دیا جن میں اکثریت ماہی گیروں کی تھی۔اب اسی ماہ اقوام متحدہ کی سالانہ تقریب میں پاکستانی وزیر اعظم کی بھارتی وزیر اعظم کی ملاقات سے نئی توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں اول تو ملاقات میں ابھی تک تذبذب ہے، گو ملاقات کا ایجنڈا تیار ہو رہا ہے۔ دوسرے اگر ملاقات ہو بھی گئی تو نتیجہ کیا نکلے گا، یہ پہلی ملاقات نہیں ہے۔ سوائے ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی کے کوئی بھی ملاقات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی اور کسی اہم معاملے میں پیشرفت نہ ہو سکی۔ ایک ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ کیا اس پس منظر میں امن کی تحریک اپنے مقاصد حاصل کر سکے گی۔ اگر متعصب ہندوؤں نے اعتدال پسندوں پر حملے شروع کر دیئے تو کیا فی الوقت بھارت میں اس کو وقتی طور پر روکنا نہیں پڑے گا کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بچتی۔
تازہ ترین