• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پرانے زمانے کی بات ہے۔ ہندوستان چھوٹی بڑی سیکڑوں ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔راجہ مہاراجہ عوام پر حکومت کرتے تھے ۔اسی طرح کی ایک چھوٹی سی ریاست کا ولی عہد اپنی ریاست کا اکلوتا وارث تھا۔ راجہ کی خواہش تھی کہ بیٹا امور ریاست سیکھے اور اس کا ہاتھ بٹائے۔ سو شہزادے کی تربیت کا اہتمام کیا گیا۔ جوں جوں شہزادے کی تربیت مکمل ہوتی گئی اور وہ امورِ ریاست سیکھتا چلا گیا،اسے احساس ہوتا گیا کہ یہ تو سارے کا سارا ظلم کا نظام ہے جس میں طاقتور اور بااثر طبقہ، کمزور طبقے کا استحصال کر رہا ہے ۔ اس کا دل امور ِ ریاست سے اچاٹ ہوگیا۔ راجہ کو جب اپنی ریاست کے اکلوتے وارث کی حالت کا اندازہ ہوا تو اسے بڑی پریشانی لاحق ہوئی، اس نے شہزادے کو سمجھانے اور ریاستی امور کے متعلق اس کی دلچسپی بحال کرنے کیلئے بڑے جتن کئے لیکن ساری کوششیں بے سود گئیں۔ شہزادے کو روگ لگ چکا تھا، اس نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں اور بیابانوں کا رخ کر لیا۔
شہزادہ سارا سارا دن غور و فکر میں مگن رہتا کہ آخر دنیا میں اتنا ظلم کیوں ہے۔کئی سال اسی جتن میں گزر گئے لیکن وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔دنیا کو تو اس نے خیر آباد کہہ دیا تھااور جنگل بیلوں کا باسی بن گیا تھا لیکن جنگل میں بھی تو دنیا کا قانون رائج تھا۔ شیر جنگل کا بادشاہ تھا، جس جانور کو چاہتا ہڑپ کر جاتا تھا۔ بڑا جانور چھوٹے کو کھا جاتا تھااور چھوٹا اپنے سے چھوٹے جانور کو۔ایک دفعہ حسبِ معمول وہ اپنی سوچوں میں گم تھا کہ اس نے دیکھاکہ بارہ سنگھوں کا ایک غول قلانچیں بھرتا جا رہا تھا۔اچانک غول میں غیر معمولی حرکت محسوس ہوئی اور ایک بھگدڑ کا سا سماں پیدا ہو گیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ بھیڑیوں کا ایک جتھہ ان بارہ سنگھوں پر ٹوٹ پڑتا ہے ۔ بھیڑیے ٹولیوں کی شکل میں ان پر حملہ آور ہوتے ہیں لیکن جو بارہ سنگھا توانا ہوتاہے اور برق رفتاری سے بھاگ سکتا ہے وہ اس کا تھوڑی دیر پیچھا کرتے ہیں اور پھر اس کو جانے دیتے ہیں ۔ جو کوئی ان میں سے کمزور دکھائی دیتا ہے اور زیادہ سرعت کے ساتھ نہیں بھاگ سکتا ، وہ اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے حتیٰ کہ اس کو دبوچ نہ لیں ۔اس طرح بھیڑیے ٹولیوں کی شکل میں کئی ایک بارہ سنگھوں کو شکار کر لیتے ہیں اور پھر تڑپتے ہوئے شکار کو مل کر چیرنا پھاڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ شہزادے سے وہ منظر دیکھا نہیں جاتا۔”اتنا ظلم!!“وہ چلانے لگتا ہے ، ”جنگل میں بھی دنیا کا قانون چلتا ہے!دنیا کا قانون!!“اسی اثناء میں سارے بھیڑے پیٹ بھر کر کھانے کے بعد غائب ہونا شروع ہو جاتے ہیں لیکن ایک بھیڑیا بھاگنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس سے بھاگا نہیں جاتا۔ تھوڑی دور جا کر وہ گر جاتا ہے جیسے زخمی ہو، شاید شکار کے دوران کسی جانور کا سینگھ لگ گیا تھا۔ شہزادہ بڑے تجسس کے ساتھ اُسے دیکھنے لگتا ہے۔ بھیڑیا درد سے کراہنے لگتا ہے۔ آہستہ آہستہ اس کے کراہنے کی آواز تیز ہونے لگتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی گوشت خور جنگلی جانور اس زخمی بھیڑیے کے ارد گرد چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں۔جیسے اس کے نڈھال ہونے کا انتظار کر رہے ہوں اور جیسے ہی زخمی بھیڑیے کی ہمت جواب دینا شروع ہوتی ہے ، وہ جانور اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور آن ہی آن میں وہاں صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ جاتا ہے۔ دنیا کا قانون!! شہزادہ اپنا سر پیٹنا شروع کر دیتا ہے۔
کئی سال جنگل اور بیابانوں کی خاک چھاننے کے بعد وہ واپس اپنے والد کی راجدھانی میں آتا ہے ۔راجہ اُسے دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے اور اس کی واپسی کی خوشی میں کئی روز تک جشن منایا جاتا ہے۔ ریاست کا اکلوتا وارث اپنے والد سے مطالبہ کرتا ہے کہ اب اُسے تخت پر بٹھادیا جائے کیوں کہ اب وہ امورِ ریاست نبھانے کیلئے مکمل طور پر تیار ہے۔ تخت پر بیٹھتے ہی وہ پہلا حکم دیتا ہے کہ پڑوس میں موجود کمزور ریاستوں پر حملے کی تیاری کی جائے۔راجہ اپنے بیٹے کے حکم پر بہت پریشان ہو جاتا ہے۔ وہ اس کے تمام اتالیق بلواتا ہے ، تمام مشیروں کو اس کے پاس بھیجتا ہے لیکن نیا راجہ ٹس سے مس نہیں ہوتا ۔اس کا والد اس سے کہتا ہے کہ پہلے تم ظلم ظلم کا راگ الاپتے ہوئے جنگلوں میں چلے گئے اور اب جب تم واپس آئے تو خود ظلم پر تُلے ہوئے ہو۔ نیا راجہ خاموش رہتا ہے ۔ اُسے بتایا جاتا ہے کہ اس کے والد پڑوس کی تمام ریاستوں کے ساتھ امن معاہدے کر چکے تھے اور ان معاہدوں کی رُو سے جنگ بلاجواز تھی ۔ شہزادہ سپہ سالار سے پوچھتا ہے کہ کیا اس کے پاس ان ریاستوں کو فتح کرنے کیلئے مطلوبہ قوت موجود ہے ۔ اثبات میں جواب ملنے پر وہ معاہدے پھاڑ کر پھینک دیتا ہے اور فوجوں کو حملے کا حکم دیتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ اردگرد کی کئی ریاستوں پر قبضہ کر لیتا ہے اور بہت سی دوسری ریاستوں کو اپنا باجگزار بنا لیتا ہے۔وہ اپنی رعایا پر اتنا ٹیکس لگاتا ہے جسے دینا ان کے لئے بہت مشکل ہو اور اس آمدن سے وہ مزید جنگوں کی تیاری کرتا ہے۔
ہندوستان میں اس کی بہادری کے چرچے عام ہونا شروع ہو جاتے ہیں وہ ایک راجہ سے مہاراجہ کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔اس کی زندگی جنگوں اور فتوحات سے عبارت ہو جاتی ہے۔ وہ ہر وقت خود کو اور اپنی سلطنت کا زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانے میں لگا رہتا ہے۔دور دور کی ریاستوں کے لوگ اس کے ساتھ معاہدے کرنے آتے ہیں اور اس کو خراج دینے پر آمادگی کا اظہار کرتے ہیں ۔ جن پر اس کا زور چلتا ہے، وہ ان کو فتح کر لیتا ہے اور جو ریاستیں اس کی فوجوں کی دسترس سے باہر ہوتی ہیں وہ ان سے معاہدے کر کے خراج وصول کرنا شروع کر دیتا ہے۔
اس کا والد اپنے بیٹے کی کامیابی اور فتوحات دیکھ دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے ۔ کامیابی اور فتح انسان کو بہرحال خوشی دیتی ہے قطع نظر اس بات کے کہ اس کے حصول میں کتنے انسانوں کی جان گئی یا ان کا مال گیا یا ان کی متاع گئی۔ وہ اپنے بیٹے سے پوچھتا ہے کہ تم نے جنگلوں بیابانوں میں ایسی کیا بات سیکھی جو تمہیں میر ے قابل ترین اتالیق بھی نہیں سکھا سکے کہ تم اتنی ریاستوں کے بادشاہ بن گئے۔ بادشاہ اپنے والد کو جواب دیتا ہے ”میں طاقتور کے ہاتھوں کمزوروں پر ظلم سے بیزار تھا۔ مجھ سے ہر طرف پھیلی ہوئی یہ زیادتی دیکھی نہیں جاتی تھی،میں سوچتا تھا کہ انصاف ہونا چاہئے ، کمزور کو اس کا حق ملنا چاہئے لیکن دنیا کا قانون تو کچھ اور ہی تھا۔ مجھے شاطر اور چالاک، بہادر اور ظالم، طاقتور اور بے رحم انسانوں سے شکایت تھی ۔ میں انہیں ظلم کی وجہ سمجھتا تھا لیکن جب میں جنگل میں گیا تو میں نے وہاں بھی ہر طرف یہی دنیا والا قانون لاگو دیکھا۔وہاں مجھے سمجھ آئی کہ دنیا میں جو اتنا ظلم ہے وہ اس لئے نہیں کہ انسان ظالم ہے بلکہ اس لئے ہے کہ دنیا انصاف کے نظام پر نہیں چلائی جا رہی بلکہ دنیا بقاء اور نظم کے قانون پر بنائی گئی ہے۔ اس دنیا میں ہر ذی روح اپنی بقاء کیلئے دوسروں کو کھانے یا دوسروں کا کھانے کیلئے محتاج ہے اور ہر معاشرہ ، ریاست، سلطنت اپنی بقاء کیلئے نظم کی محتاج ہے خواہ وہ کمزورکا استحصال کرنے یا اسے خوفزدہ رکھنے ہی سے کیوں نہ حاصل ہو “۔ بادشاہ ایک ٹھنڈی آہ بھرتا ہے اور بات جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے”میں جب تک طاقتور ہوں میں اس سلطنت پر حکومت کروں گا اور جب میں کمزور پڑ جاؤں گا ، کوئی دوسرا طاقتور مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ یہی قانون ِ قدرت ہے جسے میں تبدیل نہیں کر سکتا لیکن میں خود کو تبدیل کر سکتا تھا ، سو میں نے خود کو بدل لیا۔ جب مجھے اس بات کی سمجھ آئی ، اس کے بعد میں نے کبھی اپنے راستے میں آنے والے کمزور پر رحم نہیں کیا اور کبھی اپنے سے طاقتور کے ساتھ خواہ مخواہ الجھنے کی کوشش نہیں کی“۔بادشاہ کا والد بولا ”لیکن بیٹا مذہب ، دھرم ، اخلاقیات وغیرہ تو انصاف، صلہ رحمی، صلح جوئی کا درس دیتے ہیں“۔بادشاہ ایک گہری سوچ میں ڈوب گیا، پھر تذبذب کی حالت میں کہنے لگا ”ان باتوں کو سمجھنے کیلئے مجھے ایک دفعہ پھر جنگل جانا پڑے گا“۔
تازہ ترین