• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اک طُرفہ تماشا ہے سیاست کی ہوس بھی

مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام جس قدر مشقت میں ہیں اتنے ہی سیاستدان بھی مصیبت میں ہیں۔ اقتدار و اختلاف دونوں جانب سب کو اپنی اپنی پڑی ہے مگر نام عوام کا لیا جاتا ہے۔ آج جب مصیبت زدہ عوام چار سال وبال میں گزار چکے ہیں تو دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی، یہاں کوئی کس کا ہے کس کے ساتھ ہے مگر عام غریب آدمی تو اکیلا آخر شب کے سامنے تنہا کسی بے ثمر سحر سے خوفزدہ ہے۔ اب تو صرف سرزمین وطن پر اعتماد ر ہ گیا ہے باقی اس سے جتنے افراد اُگے ہیں ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور باہمی اعتماد ختم، اپوزیشن نے پی ڈی ایم کو بھی عدم اعتماد پر راضی کرلیا ہے، اب یہ معلوم نہیں کہ دل کا رانجھا بھی راضی ہے کہ نہیں۔ شیخ رشید کی پیش گوئی کو غلط ثابت کرنا بھی اپوزیشن کے ذمہ ہےاور فواد چوہدری کے مذکورہ سرپرائز کوبھی ڈیمارالائز کرنا ضروری، سیاسی رسہ کشی کا ممکنہ مقابلہ جیتنے کیلئے اتحادیوں کا زور بازو کس پلڑے میں جاتا ہے یہ ہنوز شکم مادر میں ہے، الغرض کچھ تو ہونے والا ہے یا کچھ بھی نہیں ہوگا، بہرحال عوام کیلئے یہ سب کچھ نورا کشتی ہے ، حالانکہ ہر سیاسی منہ ان کا نام اگل رہا ہے، کوئی کسی کے ساتھ ہے یا نہیں مگر عوام الناس کو 74 برسوں میں یہ یقین ہو چکا ہے کہ ان کا کوئی نہیں اور شاید وہ خودبھی ایک دوسرے کے نہیں، اسی لئے یہاں مطلوبہ تبدیلی نہیں آتی، ہماری شاعری میں بھی ہجر و فراق کے موضوعات عام ہیں، گویا وصل نہیں فصل پر زور ہے، شاید اسی لئے ہماری فصلیں بھی اب پہلے جیسی نہیں رہیں۔ آبادی کی فصل پانی دیئے بغیر اچھے نتائج نہیں دےسکی تو سمجھ لیں کہ سیاست، ہوس کا روپ اختیار کر چکی ہے اور ہوس ہی خود غرضی کو جنم دیتی ہے۔

٭٭٭٭

مودی کے لئے بہترین مشورہ

بھارت میں ہندو شدت پرستی، بت پرستی سے بھی آگے نکل گئی ہے، مسلمان، سکھ اور مسیحی شدت پسندوں کے نشانے پرہیں، اگر ان تینوں کی تعداد کا اندازہ لگایا جائے تو یہ ایک ملک کی آبادی کے برابر ہے۔ مودی اگر بلاشرکت غیرے ایک ہندو ریاست بنانا چاہیں تو ان کا اکھنڈ بھارت کا خواب بھی پورا ہو سکتا ہے، ویسے فطری بہائو کے تحت اس وقت تینوں مذاہب کے پیروکار ازخود ممکن ہے، منطقی طور پر ہندوتوا جبر سے نجات پانے کے لئے اپنی ایک الگ حیثیت کا سوچ رہے ہوں، کیونکہ جس طرح کی خبریں سرحد پار سے آ رہی ہیں ان سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نریندر مودی، بھارت کو نقصان پہنچا رہے ہیں، انہیں اپنے ملک کی وحدانیت کو برقرار رکھنے کے لئے سیکولر ازم کو اپنانا ہوگا اور یہی ان کا ریاستی منشور بھی ہے، آج برملا یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت میں سیکولر ازم کی جگہ ہندو ازم لے چکا ہے۔ کشمیر یوں پر مظالم کا تسلسل ایک دن بھارت کی ایکتا کوبہا لے جائے گا، ذی شعور ہندو چیخ رہے ہیں مگر مودی صاحب نے سیسہ پگھلا کر کانوں میں ڈال رکھا ہے، اب ایک یہ حل ہے کہ ہم ہمدرد پڑوسی ہونے کے ناتے بھارت کی باشعور جنتا سے کہیں

؎

نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے، اے ہندوستاں والو

٭٭٭٭

بسنت بہار

مشہور کہاوت ہے ’’آئی بسنت، پالا اڑنت‘‘ نیلگوں آسمان پر پتنگیں نظر آنے لگی ہیں مگر راگ دیس بہار کا الاپ کہیں سے سنائی نہیں دے رہا، کبھی جوانیاں بھولپن کا اظہار ہوتی تھیں ، اب شباب بھی ہم آواز رباب نہیں، شرارتوں میں خطروں کی آمیزش اچھاشگون نہیں، موسم کی خوشگواری انسانی مزاج کو بااخلاق اور فیاض بنا دیتی ہے، پیار محبت، انسانی معاشرت کا فطری بہائو ہے، اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی تو اپوزیشن اور حکومت مل کر کل پاکستان سہ روزہ محفل موسیقی کا انعقاد کریں، ظاہر ہے اس کے لئے باغوں بہاروں اور کھابوں کا شہر موزوں رہے گا،بعض اوقات تو بہ شکنی رنگ جما دیتی ہے، عندلیبِ شیراز حافظ کا شعر ہے؎

بہ عزم توبہ سحر گفتم استخارہ کنم

بہارِ توبہ شکن میر سد چہ چارہ کنم

(توبہ کا ارادہ کیا اور سوچا کہ وقت سحر استخارہ کروں مگر کیا کرتا کہ توبہ توڑ بہار نے منظر ہی منتشر کردیا)

امیری، غریبی کا فرق ہم کیوں نہیں مٹاتے، پیار ہی اسے مٹا سکتا ہے مگر نہ جانے اس پر بھی پہرے کیوں ہیں، بہتر تو ہے یہی کہ جی بھر کے بہار منالیں اور آخر میں توبہ کرلیں جتنے بھی روٹھے ہوئے ہیں ان سے درخواست ہے ؎

گُلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے

چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے

٭٭٭٭

جھوٹ بولے کتا کاٹے

...oعدم اعتماد کا غلغلہ ہے ہر طرف

دیکھتے ہیں کب پگھلتی ہے برف

کیا من حیث القوم اپنے اوپر اعتماد ہے؟

...oشہباز: سارے ادارے الٹے لٹک گئے، میرے خلاف دھیلے کی کرپشن نہیں ملی۔

حساب کتاب کی بات ایک طرف رہنے دیں کیا یہ سچ نہیں کہ شہباز سب کو اچھے لگتے ہیں؟

...oعمران خان نے ٹاپ ٹین کا اعلان کردیا، حسنِ کارکردگی کے سرٹیفکیٹس بھی بانٹے۔

اچھا نہیں کیا، رموزِ خسروی سے بے خبری کا یہ عالم!

...oپاکستان میں کتے کے کاٹنے کے واقعات میں اضافہ ۔

ظاہر ہے جب غربت میں اضافہ ہوگا تو یہی انجام ہوگا۔

تازہ ترین