• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اردو عجب زبان ہے۔ قدم قدم پر حیران کرتی ہے۔ میں ہمالیہ کے اوپر اڑتا ہوا لدّاخ میں اترا اور جیپ پر بیٹھ کر چینی تبت کی جانب بڑھا۔ اتنا آگے تک گیا کہ بھارتی فوج نے مزید آگے جانے سے روک دیا۔ ایک چھوٹے سے گاؤں میں وہی تبتی ناک نقشے والے چرواہے ملے۔ اب الجھن یہ تھی کہ ان سے کس زبان میں بات کی جائے۔ میں نے یوں ہی آزمانے کے لئے پوچھا، آپ کیسے ہیں؟ نہایت سلیس اردو میں جواب ملا، جی آپ کی دعا سے یہاں سب خیریت ہے۔
ایسے خوشگوار لمحے میری راہ میں کئی بار مجھ سے بغل گیر ہوئے ہیں اور ہر بار مجھے استاد داغ دہلوی کی یاد دلاتے رہے ہیں جن پر غالباً انیسویں صدی کے آخر میں یہ مضمون شاید غیب سے نہیں اترا :
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
لیکن حیرت اُس وقت ہوئی جب غیب سے خیال میں مضامین بھیجنے والے نے دوسرا مصرعہ درست کیا:
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ دھوم ہے اور خوب خوب ہے۔ اب چاہے کوئی اسے ہندی کہے یا ہندوستانی۔ ہماری ہندی زبان کی ایک ساتھی براڈکاسٹر نے ایک روز بتایا کہ انہوں نے ایک ڈرامہ لکھا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہندی میں لکھا ہے۔ بولیں نہیں ،وہی عام بول چال میں۔
ہماری طرف اسی بول چال کو اردو کہتے ہیں جس کے بارے میں ہم سب کے استاد فرمان فتح پوری یہ کہتے کہتے جنّت کو سدھارے کہ یہ واحد زبان ہے جس کے ساتھ کسی ملک یا علاقے کا نام نہیں لگا ہوا ہے۔اس زبان کو برتنے والے خوب جانتے ہیں کہ جو حسن اور ملاحت عام بول چال والی زبان میں ہے وہ بڑے بڑے جید علماء کی بولی اور تحریر میں کہاں۔ جس زبان میں عربی کا شکوہ، فارسی کی نفاست اور ہندی کا تیکھا پن ہو اور جس کے سارے کے سارے افعالverbs اپنی سرزمین کی مٹی میں گوندھے گئے ہوں کہ جن کے بغیر حرکت ممکن نہیں، وہ کسی مخصوص علاقے کی بولی نہیں ہو سکتی۔ وہ قدم قدم پر حیران نہ کرے تو اور زیادہ حیرت ہو۔
کچھ روز ہوئے میں یورپ کے ملک ہالینڈ کے شہر دی ہیگ گیا۔ وہی شہر جہاں عالمی عدالت سجا کرتی ہے اور جہاں بستیوں اور آبادیوں پر نہیں بلکہ ایک عالم پر ظلم ڈھانے والوں کی تقدیر کے فیصلے ہوا کرتے ہیں۔ مجھے پتہ نہیں کہ اس عالمی عدالت کی چار دیواری کے اندر کون کون سی زبانیں بولی جاتی ہوں گی لیکن اس شام دی ہیگ کی ایک وسیع اور کشادہ عمارت میں ایسی شستہ اور شگفتہ اردو بولی اور سنی گئی کہ اس محفل میں شریک مردوں ، عورتوں اور بچّوں کے کانوں میں عرصے تک رس گھولتی رہے گی۔
یہاں لوگوں نے مل کر ایک انجمن بنالی ہے کہ انجمنیں یوں ہی بنا کرتی ہیں۔ پاک ڈچ نیشنل فورم، ہالینڈ نے اس بار موقع مناسب جانا اور پاکستان کا یومِ آزادی اور عید سعید کا جشن اکٹھا منایا۔ روزگار کا دن تھا اور اگلی صبح لوگوں کو پھر کام پر جانا تھا اس کے باوجود سو ڈیڑھ سو مہمان چلے آئے اور فورم والوں نے ایک اور طرح کی محفل سجائی۔ ماضی میں اکثر مشاعرے ہوئے یا کسی دانشور کے ساتھ ملاقات کا اہتمام ہوا یا موسیقی کی بزم آراستہ ہوئی۔ اس بار ان تینوں کو یکجا کر کے ایک نیا ہی مگر کامیاب تجربہ کیا گیا۔ منتظمین نے ایک شاعر، ایک مقرر اور ایک گلوکار کی آمیزش سے نیا ہی رنگ جمایا۔ ایک شاعر کے طور پر لندن سے فیضان عارف مدعو تھے، شام کے مقرر کے لئے قرعہ میرے نام نکلا اور گلوکاری کی خاطر استاد حامد علی خاں کو بلایا گیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہر طرح اور ہر ذوق کے حضرات اور خواتین اکٹھے ہوئے اور خوب رنگ جما۔ مشاعرے تو یہاں کبھی کبھار ہوتے رہے ہوں گے پھر بھی فیضان کی تازگی سے آراستہ شاعری کو سراہا گیا۔ مجھے لوگوں نے، شاید بہت سے لوگوں نے پہلی بار تو نہیں سُنا لیکن پہلی بار دیکھا۔ تیس برس سے زیادہ عرصے ایک مقبول نشرگاہ سے بولنے والے کی آواز یوں بھی اجنبی نہیں رہتی لیکن اس کو اپنے درمیان پاکر جو سرشاری کا احساس ہوا ہوگا، میری تقریر کے بعد احباب نے اس کا کھل کر اظہار کیا۔کسی نے کہا کہ بچپن سے یہ آواز کانوں میں پڑتی رہی، کسی نے بتایا کہ گھر کے بزرگ اس آواز کے مداح تھے اور بعض نے وہ برس تک بتا دیا جب میں نے ریڈیو پر بولنا شروع کیا تھا۔ موسیقی کا رنگ جمانے کے لئے منتظمین نے خدا جانے کہاں سے اس دور کے نہایت مقبول گلوکار حامد علی خاں کو ڈھونڈ نکالا جو جرمنی میں کہیں اپنا شو کرتے ہوئے آئے تھے اور فوراً ہی ٹرین میں بیٹھ کر دوبارہ جرمنی چلے گئے جہاں ان کی محفلیں ہونی تھیں۔ دی ہیگ میں ان کو جس طرح سراہا گیا داد کا وہ انداز مجھے حیران کرگیا۔ حامد علی خاں کوئی پاپ قسم کے گلوکار نہیں، وہ خالص بزرگوں والے کلاسیکی انداز کے گویّے ہیں۔ اپنے گانے میں گلے کی وہ ساری خوبیاں دکھاتے ہیں جو ان کے گھرانے کے بزرگوں نے اپنی نئی نسل کو سونپی ہوں گی۔ مجمع نے ان باریکیوں کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ بار بار داد بھی دی۔ کلاسیکی راگوں میں جنہیں پکّے گانے بھی کہا جاتا تھا کچھ مقام ایسے بھی آتے ہیں کہ موسیقی کو نہ سمجھنے والے وہاں منہ ڈھانپ کر ہنسا کرتے ہیں لیکن ہالینڈ کے مجمع نے ان جگہوں پر داد دے کر مجھے حیرت میں ڈال دیا۔ استاد حامد علی خاں نے اپنے بڑے بھائی امانت علی خاں مرحوم کی کئی مقبول چیزیں گائیں۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ قدرت نے یہ امانت ہم سے چھین لی ورنہ غزل گائیکی کی دنیا میں ایسا انقلاب آتا کہ لوگ دیکھا ہی کرتے۔ بہرحال حامد علی خاں کے گلے میں قدرت نے وہی بڑے بھائی والی تانیں اور وہی سُر ڈال کر گلوکاری کی آن بڑھا دی ہے۔ اس شام کے خاتمے پر انہوں نے دھمال کا رنگ جمایا اور جو لوگ اٹھ کر والہانہ رقص کرنے لگے ان میں کم سے کم ایک ولندیزی مہمان بھی شامل تھے۔
شام کے مہمان ِخصوصی ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر جناب معظم احمد خاں تھے جنہوں نے اردو میں خطاب کیا اور دوسرے سفیروں کے برعکس حکومت کی کوتاہیوں کا اعتراف کیا۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے اس لئے ایسی گفتگو کی تعریف بھی ہوتی ہے۔اس موقع پر ایک نوجوان ڈاکٹر شمائلہ طالب نے بھی تقریر کی جن کے چہرے بشرے سے ذہانت ٹپکی پڑتی تھی۔ شمائلہ نے کم عمری کے باوجود طب کے شعبے میں وہ نام پایا ہے کہ پورا شعبہ ان پر فخر کرتا ہے۔ انہیں بے شمار اعزاز ملے ہیں اور کتنے ہی تمغے ان کے حصّے میں آئے ہیں۔ شمائلہ نے بھی سلیس اردو میں تقریر کی۔ ان کا حاضرین سے ایک ہی بات پر اصرار تھا کہ خواب دیکھا کیجئے۔ دوسرے لفظوں میں اپنے آپ سے بڑی توقعات رکھئے۔ جیسا کہ انگریزی میں کہتے ہیں:think big ۔ ایسے عزائم رکھنے والے ہی اپنی منزل کو پا لیتے ہیں۔ شمائلہ خود اس کی مثال سب کے سامنے تھیں۔ ایسی ہی ایک پاکستانی بچّی ڈنمارک میں دیکھی۔ عالیہ مرزا مشہور شاعرہ صدف مرزا کی ہونہار بیٹی ہیں اور علاج معالجے کے ایک شعبے میں مہارت حاصل کرنے کے لئے اپنا آخری سال مکمل کرنے والی ہیں۔ خیر سے انہی دنوں اپنے گھر کی ہوئیں۔ عالیہ لاجواب معالج بنیں گی کیونکہ تعلیم کے اسی مرحلے پر انہیں ہر جانب سے ادارے اپنی طرف مدعو کر رہے ہیں۔ میری آپ کی طرح شستہ اردو بولتی ہیں ۔ڈینش ،انگریزی، پنجابی اور تھوڑی سی فارسی اس کے علاوہ ہے۔
کامیاب شام کے انعقاد پر ہر ایک ہی نے پاک ڈچ نیشنل فورم کے کرتا دھرتا حضرات کو شاباشی دی۔
جمیل احمد شیروانی، سیفی سیّد، تیمور علی خاں اور احمد نواز فردوسی جیسے حضرات شہر دی ہیگ میں اپنی دوسری تمام مصروفیات کے ساتھ فورم کے اتنے بہت سے انتظامات نہایت خوش اسلوبی سے چلا رہے ہیں۔
اس قدر سر سبز شہر ہے جسے خوش نما درختوں نے ڈھانپ رکھا ہے اور جن کے سائے تلے تمام ہی جوانوں، بوڑھوں ، بچّوں اور خواتین کا صبح شام بائیسکل پر آنا جانا لگا ہوا ہے کہ شہر کی فضا آلودہ نہ ہو،ایسے شہر میں اگر کسی شام راگ باگیشری کی کوئی تان بلند ہو جائے تو آپ بآسانی تصور کر سکتے ہیں کہ موسیقی کی روح کیسی جھوم جھوم جاتی ہو گی، اُس روز یہی ہوا تھا۔
تازہ ترین