• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں لیجنڈ گلوکارہ لتا منگیشکرجنہوں نے اپنی سریلی آواز سے کئی نسلوں کے دلوں پر راج کیا، 92سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ ان کی وفات کا سوگ ہندوستان ہی نہیں پاکستان کے مختلف شہروں میں منایاگیا۔ لتا منگیشکر کی آخری رسومات کے موقع پرجب شاہ رخ خان نے دعا پڑھ کر پھونکا تو ہندوستان بھر کے ہندوتوا نظریات کے حامیوں نے کہا کہ دعا پڑھ کر پھونک مارنا ہماری روایات کا حصہ نہیں،ہندوستان بھر کے میڈیا نے بھی اس پر ہر طرح کے تبصرے کیے جس سے ان خیالات کو مزید تقویت پہنچتی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کو ابھی امن اور خوشحالی کی مزید بات کرنی ہوگی۔

یاد رہے کہ نو آبادیاتی طاقتوں کے آنے سے پہلے متحدہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی کوئی نظیر نہیں ملتیکہ اس وقت گنگا جمنی کلچر بہت مضبوط تھا لیکن اس تہذیب کو اس وقت جھٹکا لگا جب 1813میں برطانوی ہائو س آف کامنز نے مسیحی مشنریوں کو ہندوستان میں تبلیغ کرنے کی اجازت دی جس سے ہندوؤں اور مسلمانوں میں نہ صرف مذہبی احساسات ابھرے بلکہ ساواگر نے ہندوتوا کا نظریہ پیش کردیا جو آج کل ہندوستان کا تشخص ہی تبدیل کرتا چلا جا رہا ہے۔ تاہم خیال رہے کہ ہندوتوا کے نظریات کو فروغ دے کر آپ دو تہائی اکثریت تو حاصل کر سکتے ہیں، بھارت اور کشمیرمیں مسلمانوں پرہونے والے مظالم سے آپ اپنی سیاست توچمکا سکتے ہیں لیکن اکیسویں صدی میں آپ اس خطے کو امریکہ اور چین کے مقابلے میں اقتصادی طاقت نہیں بنا سکتے!اُس کیلئے قائداعظم، مہاتما گاندھی اور نہرو کےافکار پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔

آج کل میڈیا میں پاکستان کی اقتصادی زبوں حالی کے چرچے اور تبصرے ہیں۔ بیرونی ادائیگیاں ، شرح نمو،برآمدات میں کمی اورتجارتی خسارے کے اعدادوشما ر ہر طرف بکھرے پڑے ہیں۔ ان حالات سے نکلنے کیلئے ہمیں اقتصادی ترقی کی شرح نمودس فیصد تک لے جانی ہوگی اور ہر دس سال میں جی ڈی پی دگنا کو کرنا ہوگا۔ ان اہداف کیلئے علاقائی تعاون کے ثمرات حاصل کرنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔ہمیں نوم چومسکی کے ان خیالات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ وہ کیا وجوہات تھیں کہ 1700میں سائوتھ ایشیا صنعتی ترقی میں بہت آگے تھا اور 1820 تک برطانیہ کے صنعت کار ہندوستان میں لوہا سازی کی تربیت لینے آیا کرتے تھے؟آج بھی پاکستان اپنی بہت ساری برآمدات مثلاً جیولری،سرجیکل آلات، ایتھائل الکوحل ،فارماسوٹیکل ،الیکٹرونک مصنوعات اور کھیلوں کاسامان دوسرے ممالک کو برآمد کر رہاہے حالانکہ انڈیا میں ان پروڈکٹس کی بہت زیادہ مانگ ہے اور جغرافیائی قربت کی وجہ سے یہ پاکستان کے لیے بہت سود مند ہو سکتا ہے۔

مثلاً جیمس اسٹون اس وقت دبئی ،ہانگ کانگ اور بنکاک کے راستے جا رہاہے۔یہی اگر زمینی راستے سے جائے تو اس سے بہت زیادہ بچت ہو سکتی ہے۔اس وقت انڈیا چائنہ سے آئرن ،اسٹیل پائپس ،الیکٹرک سامان ،ٹیلی فون کے سیٹ ، پرزے اور تعمیراتی سامان درآمد کررہاہے جبکہ یہی مال پاکستان بھی انڈیا کو برآمد کرسکتا ہے اور دونوں ممالک کے لیے یہ تجارت بہت کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔پوری دنیا اس وقت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ساٹھ فی صد اوٹ سورسنگ ہندوستان سے کررہی ہے۔ یورپ نے ہندوستان میں تقریباً 10بلین ڈالر کی فارما انڈسٹری میں ریسرچ ،کلینکل ٹرائل اور بائیو ایکولنس کی مد میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے جبکہ پاکستان میں ایسی کوئی ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ہندوستان سے ٹیکنالوجی کے ماہرین بھی یورپ سے آدھی قیمت پرمل سکتے ہیں۔سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت کو ہو سکتاہے اگر صرف اسی انڈسٹری میں دونوں ممالک آپس میں تعاون کر لیں تو اس خطے کی حالت بدل سکتی ہے۔

یاد رہے کہ یہ سرزمین امیر خسرو، بھگت کبیر ، خواجہ معین الدین چشتی،گرو نانک،بابا فرید، ابو فضل ، فیضی، بلھے شاہ،وارث شاہ، شاہ عبدلطیف بھٹائی اور رحمان باباکی ہزاروں سال کی انسانیت نواز روایتوں سے کی امین ہے اور یہ مشترکہ تہذیب سیاست دانوں،دانشوروں ، شاعروں، ادیبوں اور سول سوسائٹی سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم شاہ رخ خان کی پھونک کو نفرت میں تبدیل کرنے والوں کے عزائم کو پورا نہ ہونے دیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین