• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زہر کی فصل فضاؤں میں اگانے والے
قتل گاہ شام کا ہر کوچہ بنانے والے
عثمان جامعی صاحب کے شعر کا روئے سخن شامی صدر بشارالاسد ہیں جن پر تازہ الزام ہے کہ انہوں نے مخالفین پر کیمیکل ہتھیاروں اور زہریلی گیسوں کا استعمال کیا ہے ۔دروغ برگردن ِراوی ۔راویان امریکہ اور فرانس ہیں۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے زیر الزام درندگی پر عالم انسانیت سے شام کے اندر مداخلت کی کال دی تھی مگر ان کی اپنی پارلیمینٹ نے اسے درخوراعتنا نہیں جانا۔ جنگ میں ملوث کھلاڑی فرقہ پرستی ، حقوق اور انسانیت کے نام پر اقتدار کا کھیل کھیل رہے ہیں ۔ انسانیت، امن،حقوق کسی کو ان لوازمات میں کوئی دلچسپی نہیں۔ سب انہیں ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔گیند اب بشارالاسد کی کورٹ میں نہیں،جنگ اس کیلئےDo or dieکا کھیل بن چکی ہے۔کاش وہ کرنل قذافی کے انجام سے سبق سیکھتے، قومی حکومت بنا کر الیکشن کروا دیتے، اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کر کے کچھ وقت کے لئے چین کی بانسری بجاتے۔ جمہوریت میں اچھے کی امید ہمیشہ رہتی ہے نہ انہیں شامیوں پر قیامت ڈھانا پڑتی۔نہ خودکوکسی قیامت کا سامنا کرنا پڑتا ۔میں نے کرنل قذافی کی المناک موت پر نوحہ نما کالم لکھا تھا۔قذافی کے انجام سے کوئی سبق نہیں سیکھے گا،اس نے بھی صدام کی موت سے سبق نہیں سیکھا تھا۔ اقتدار کے کھلاڑی کسی سے سبق نہیں سیکھتے ،خود کوعقل کل سمجھتے ہیں ،دوسروں کو عمر بھر سبق سکھاتے ہیں جب خود پر بھاری پڑتی ہے تو کسی غار،کسی پائپ میں چھپے ملتے ہیں۔
تازہ خبر ہے پینٹاگون کے جنگی جہازوں نے کھلے سمندروں سے شام کی طرف کوچ کرنا شروع کر دیا ہے ۔اب ان کے میزائلوں، توپوں کا رُخ شامی افواج ،صدارتی محلات اور نہتے عوام ہوں گے ۔میزائل یہ نہیں دیکھیں گے ان کی زد میں آنے والا صدر اسد کاحامی یا مخالف ہے یا عام آدمی جو نہ اقتدار کا حصہ ،نہ جنگ میں شریک ۔بیچارہ جان بچاتے بچاتے محسن امریکہ کے میزائلوں کی زد میں آ گیا ۔ برطانوی پارلیمینٹ نے سردست انکار کر دیا ہے مگر فرانسیسی صدر فرانکولس ہالینڈی بڑے وثوق سے کہہ رہے ہیں شامی افواج نے دمشق اور قرب و جوار میں کیمیکل ہتھیار استعمال کئے ہیں ،شامی افواج کو معاف نہیں کیا جا سکتا ،بصورت دیگر ان ہتھیاروں کا استعمال معمول اور انسانیت کیلئے دھمکی بن جائے گا۔یقینا دلیل میں وزن ہے مگر شام کے حکمران الزام سے انکاری ہیں ،ثبوت تو دینا ہو گا ۔انصاف ثبوت مانگتا ہے ۔صدر اوباما نے کہا ہے ہم نے کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال کی Red lineدے رکھی تھی شام نے لائن کو کراس کیا ہے ۔ سب ثبوت کے دعویدار ہیں مگر کسی نے ثبوت پیش نہیں کئے۔ ایران اور جرمنی کا موقف ہے ملزم انکاری ہے لہٰذا اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کی رپورٹوں کا انتظار کر لیا جائے۔ جرمن چانسلر انجیلا مارکل اور اپوزیشن لیڈر نے مشترکہ موقف اختیار کرتے ہوئے کہا G.20ممالک کی میٹنگ کا انتظار کر لیا جائے۔ جرمنی میں الیکشن قریب ہیں ہم نہیں چاہتے ہماری الیکشن مہم میں شام موضوع بنے۔ جرمن لیڈروں نے اقوام متحدہ کے انسپکٹروں سے بھی اپیل کی ہے وہ جلد اپنی رپورٹس پیش کریں ۔امریکی وزیر خارجہ نے فرانسیسی اور امریکی صدور کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا ہے انہیں کوئی شک نہیں زہریلی گیس اور کیمیکل ہتھیاروں کا استعمال شامی فوج نے کیا ہے مگر وہ پھر بھیintelligence failureکے پیش نظر رپورٹس کا بڑی باریک بینی سے مطالعہ کر رہے ہیں تاکہ عراق جنگ کی غلطی کے اعادے سے بچا جا سکے۔ اقوام متحدہ میں ایرانی سفیر بار بار کہہ رہے ہیں شامی صدر نے انہیں یقین دلایا ہے کیمیکل ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا گیا ۔ الزام دہندگان سچے ہیں تو اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کی رپورٹس کے انتظار سے کیوں پس و پیش کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں شام امریکہ روس جنگ کی آماجگا ہ اور اسلحے کا ٹیسٹ بن سکتا ہے ۔جرمن چانسلر سے کچھ میڈیا کے باخبر لوگوں نے خدشے کے پیش نظر روس اور امریکہ کے درمیانMediatorبننے کی بھی درخواست کی ہے مگر محترمہ کا جواب تا دم تحریر خاموشی ہے ۔ترکی شامی صدر کا مخالف ہے اس نے بھی الزام کو درست قرار دیا ہے مگر ابھی تک کسی نے بھی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کئے ۔سب نے اپنی اپنی ایجنسیوں کی رپورٹس کا حوالہ دیا ہے ۔عراق جنگ ایجنسیوں کی رپورٹس پر شروع کی گئی جو امریکہ سمیت دنیا بھر کی معیشتوں کی تباہی کا باعث بنی ۔ عراق جنگ کو اب سب Intelligence failure تسلیم کرتے ہیں۔ معروف امریکی سفارتکار سی ریان کروک نے خبردار کیا ہے درست ترین معلومات کی آمد کے بغیر جنگ سے بچا جائے ،عراق اور افغانستان کی جنگوں سے سبق سیکھا جائے۔امریکی عوام جنگ نہیں چاہتے ۔امریکی معیشت جنگوں کی متحمل نہیں۔ الزامات اور خدشات کے آئینے میں واضح ہو رہا ہے عراق جنگ کے بر عکس فرانس امریکہ کی پشت پر ہوگا اور برطانیہ ذرا فاصلے پر رہ کر سپورٹ کرے گا ۔مشرق وسطیٰ کے ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں جنگ کا فیصلہ خطرات سے خالی نہیں ۔جنگ محدود نہیں ہو گی، جنگ شروع کرنا آسان مگر بند کرنا مشکل ہوتا ہے۔ خدشہ ہے شام کی جنگ ایران اورایک عرب ملک میں طاقت حاصل کرنے کے جوش میں وسعت نہ اختیار کرجائے ۔ترکی اور اسرائیل کے علاوہ حزب اللہ بھی تیار کھڑی ہے ،القاعدہ بھی الگ نہیں رہے گی،لبنان صورت حال سے پہلے ہی پریشان ہے ۔اچھی خبر ہے صدر اوباما نے جنگی مداخلت کا فیصلہ ملتوی کر دیا ہے ۔صدر کانگریس سے منظوری چاہتے ہیں ۔کانگریس میں ری پبلکن کو اکثریت حاصل ہے ۔وہ ذمہ داری شیئر کرنا چاہتے ہیں ۔سینیٹ میں گو ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے مگر صدر کو یقین نہیں سینیٹرزکی اکثریت جنگ کی حمایت کرے گی ۔ دونوں اطراف کے hawlksمداخلت چاہتے ہیں اور پینٹاگون مداخلت کے لئے تیار کھڑا ہے ۔صدراوباما مداخلت کے خلاف نہیں مگر ذمہ داری بانٹنا چاہتے ہیں۔Disinformationسے بچنا چاہتے ہیں۔اچھے انسان ہیں یقینا خواہش ہو گی مسلئے کا حل جنگ کے علاوہ نکل آئے۔حل تو ہے گر نیتّیں صاف ہوں ،وگرنہ ببولوں پہ انگور نہیں پھلاکرتے۔
تازہ ترین