• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسٹیٹ بینک نے آئندہ دو ماہ کیلئے زری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود میں چوتھائی فی صد کمی کردی ہے جس کے بعد یہ پونے چھ فی صد پر آگئی ہے جوملک کی تاریخ میں سود کی کم ترین شرح ہے۔ملک کی موجودہ معاشی صورت حال کے حوالے سے ہفتے کو جاری کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال میں ترقی کا 5.5 فی صد کا مقررہ ہدف تو حاصل نہیں ہوسکے گا تاہم پچھلے سال کے 4.2 فی صد کے مقابلے میں ترقی کی شرح بہتر رہے گی۔ رپورٹ کے مطابق موجودہ مالی سال کے اختتام پر بحیثیت مجموعی معاشی پیش رفت میں بہتررہی ہے ، بڑی صنعتوں کی پیداوار میں اضافے کی شرح 4.7 فی صد رہی جبکہ ایک سال پہلے یہ شرح 2.8 فی صد تھی۔مہنگائی اور جاری کھاتوں کے خسارے میں بھی گزشتہ سال کی نسبت کمی آئی ہے۔تعمیراتی شعبے کی سرگرمی میں اضافے سے معیشت کو فروغ ملا ہے۔ نجی شعبے کی شرکت بڑھی ہے جس کا اظہار نجی شعبے کی جانب سے لیے جانے والے314 ارب روپے کے قرضوں میں اضافے سے ہوتا ہے جبکہ پچھلے مالی سال میں ان قرضوں کی مالیت 206 ارب تھی۔معاشی بہتری کے اسباب میں رپورٹ کے مطابق توانائی کے بحران میں کمی اور امن وامان کی صورت حال کی بہتری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔آنے والے دنوں میں معیشت کو درپیش چیلنجوں کے حوالے سے بھی رپورٹ میں اہم نشان دہی کی گئی ہے جس کے مطابق اگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے، قومی بجٹ میں نئے ٹیکسوں کے نفاذاور بجلی و گیس کے نرخ بڑھائے جانے کے خدشات حقیقت بنے تو آئندہ مالی سال میں مہنگائی کی سطح بلند ہوسکتی ہے۔تاہم صنعتی سرگرمیوں اور خدمات کے شعبوں میں توسیع سے کپاس اور چاول کی پیداوار میں کمی سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے میں مدد ملے گی۔اسٹیٹ بینک نے متنبہ کیا ہے کہ تیل کی قیمتوں یا کارکنوں کی ترسیلات زر میں کوئی منفی تبدیلی واقع ہوئی تو غیریقینی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔رپورٹ میں قومی معیشت میں مزید بہتری کے امکانات کی نشان دہی کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ مستقبل میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری بڑھنے کی توقعات ہیں کیونکہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبوں پر کام کی رفتار میں تیزی آرہی ہے جبکہ توانائی کے وسائل میں اضافے کے ساتھ ساتھ امن وامان کی صورت حال بھی بہتر ہورہی ہے۔ ملک کی معاشی صورت حال پر اسٹیٹ بینک کی اس رپورٹ سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ تین سال پہلے کے مقابلے میں ہماری معیشت مسلسل رو بہ ترقی ہے۔ بلاشبہ تیل کی قیمتوں میں کمی اور ترسیلات زر میں اضافے جیسے بیرونی عوامل بھی اس بہتری کا اہم سبب ہیں تاہم اصل کریڈٹ بہرصورت موجودہ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کو جاتا ہے جس نے سنگین چیلنجوں کے باوجود معاشی استحکام کیلئے قابل قدر کوششیں کیں ۔ اس کے باوجود بیرونی قرضوں میں مسلسل اضافہ قومی سطح پر فکرمندی کا باعث ہے ۔ مخصوص مفادات کیلئے کام کرنے والے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے چنگل سے ملک کو جلد از جلد نکالنے کیلئے بھی اقدامات ناگزیر ہیں اور ضروری ہے کہ اس کا روڈ میپ قوم کے سامنے لایا جائے۔ علاوہ ازیں قومی ترقی کی راہ میں حائل کرپشن ، بدنظمی ، اچھی حکمرانی کے فقدان جیسی بنیادی خامیوں کے ازالے کیلئے بھی قومی پالیسیاں تشکیل دی جانی چاہئیں۔چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی نے گزشتہ روز اس موضوع پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی ہے۔ آزاد کشمیر میں جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بجاطور پر کرپشن ، نااہلی اور بے انصافی کو ملک کے بنیادی مسائل قرار دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی عدالتوں میں ساٹھ فی صد مقدمات سرکاری اداروں کی نااہلی اور بیس فی صد بددیانتی کی وجہ سے زیرالتواء ہیںجس کی بناء پر لوگ انصاف کے حصول سے محروم ہیں۔ان برائیوں سے نجات کیلئے قومی اتفاق رائے کے ساتھ پیش رفت لازم ہے تاکہ معیشت سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں تیزرفتار ترقی ممکن ہو اور پاکستان اقوام عالم میں سرفراز و سربلند ہوسکے۔
تازہ ترین