• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنی یادداشتوں اور واردات ہائے قلبی کو بعنوان ’’ سابق صدر کی ڈائری ‘‘ قلمبند کرنے کی میری عادت پختہ ہو چلی ہے ۔ چونکہ یہ ایک سابق جنرل کے مشاہدات و تاثرات ہوتے ہیں ، سو لا محالہ پڑھنے والوں کے جنرل نالج میں اضافے کا سبب بھی بنتے ہیں ۔ آل پاکستان مسلم لیگ کے میرے وفادار رفقاء نے میری اس عادت اور خصوصاً میری کتاب کی اشاعت کے بعد تو اگلے مورچوں میں مجھے صف اول کے ادیبوں کے کمانڈر کے طور پر تعینات کر رکھا ہے ۔ بجا کہ یہ رفقائے عزیز میری عوام میں بے پناہ مقبولیت کو کیش نہ کرا سکے مگر ان کی بندہ شناسی کی صلاحیتوں میں کوئی کلام نہیں ۔ جب سے میر ی طبلہ نوازی اور گلوکاری کی صلاحیتیں طشت از بام ہوئی ہیں ، انہوں نے مجھے استاد الطبلہ نواز ،سُر کا بھگوان اور موسیقی کا بے وردی بادشاہ جیسے القابات سے نواز رکھا ہے۔ اس کی تفصیل بڑی دلچسپ ہے ، جس پر میں آئندہ کبھی روشنی ڈالو ں گا۔
کل ایک تقریب میں عزیزی شوکت عزیز سے ملاقات ہوگئی ۔ انہوں نے میری صحت کا پوچھا تو میں نے کہا کہ میری طبیعت تو دبئی پہنچتے ہی بہتر ہو گئی تھی مگر یہاں لندن آ کر تو میری ریڑھ کی ہڈی اور گھٹنوں کی تکلیف کو معجزاتی طور پر مکمل آرام آ گیا ہے ۔تاہم میں نے انہیں بتانا ضروری سمجھاکہ یہ ایسا ریلیف ہر گز نہیں ، جیسا ہمارے دور میں آپ عوام کو دیا کرتے تھے ۔ میں نے عزیز ی کو یاد کرایا کہ آپ جب بھی تیل یا بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرتے تو مجھے ضرور بتاتے کہ میں نے عوام کو تھوڑا ریلیف دیا ہے ۔ اس پر ہم دونوں نے کھل کر قہقہہ لگایا۔ سابق وزیراعظم کہنے لگے ’’ سر! میں نے عوام کو یہ ریلیف اتنے تواتر سے دیا کہ ہماری حکومت’’ریلیف در ریلیف دہندہ سرکار‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئی ، جسے کئی ناخواندہ ’’ تکلیف در تکلیف دہندہ سرکار‘‘ بھی پڑھ دیتے تھے ۔ میں نے انہیں بتایا کہ ایسے ناخواندہ اور پست فہم عناصر میری جماعت ’’اے پی ایم ایل ‘‘ کو’’ آل پاکپتن مسلم لیگ ‘‘ کا مخفف سمجھتے ہیں ۔یادش بخیر ! اس سیاسی جماعت کے قیام کے ابتدائی دور میں ایک دن بیگم صاحبہ نے ’’آل پاکپتن ‘‘ پڑھنے والے احمقوں کے موقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چند لوگوں کی جماعت(انہوں نے شاید تانگے کا لفظ بھی استعمال کیا تھا ) کو ’’آل پاکستان‘‘ کیسے کہا جا سکتا ہے ؟ میں نے اُن کا طنز سمجھتے ہوئے کہا ’’ میں نے بھرا میلہ چھوڑا ہے بیگم صاحبہ ! ورنہ ملک کے پچاسی فیصد عوام تو مجھے روکتے رہ گئے ۔ آپ کسی سے پوچھیں ،آج پاکستان کے ہر تیسرے ٹر ک کے پیچھے میری تصویر کے ساتھ ’’تیری یاد آئی، تیرے جانے کے بعد‘‘ لکھا ہوا ہے ‘‘ انہوں نے ہنس کر جواب دیا ’’کمانڈو صاحب ! اگر ان سادہ دلوں کی ٹرکوں کی بتیوں اور تصویروں کے پیچھے بھاگنے کی عادت نہ ہوتی تو آج جینوئن لیڈر ان کے حکمران ہوتے ‘‘ میں نے یہ سوچ کر اس بحث کو وہیں ختم کردیا کہ اس ملک کے عوام کو بے وقوف بنانا اتنا آسان ہے ، بیگمات کو اتنا ہی مشکل۔
اگر اس رعایاکو بے وقوف بنانا آسان نہ ہوتا تو آج ان کی دولت لوٹ کر بیرون ملک آف شور کمپنیاں بنانے والے ان کے فرمانروا نہیں ، جیلوں کے مکین ہوتے ۔ میں نے تو ان کا اصل روپ پہچان کر کب کا انہیں برادر اسلامی و غیر اسلامی ممالک کو پارسل کردیا تھا ، مگر سادہ لوحوں کو موقع ملا توانہوں نے پھر انہی کو منتخب کر کے اپنے سروں پر سوار کرلیا۔ چک شہزاد کے بے رنگ قفس سے لے کر آج اس ایجوروڈ کے لگژری فلیٹ تک میں نے اس قوم کی نفسیات کے متعلق بہت سوچا ہے ۔ عجیب پارہ صفت لوگ ہیں ۔آمریت میں جمہوریت کیلئے تڑپتے ہیں اور جمہوریت بحال ہو تو آمریت کی یاد میں آہیں بھرتے ہیں ۔ حالانکہ ہر دو صورتوں میں ان کی قسمت میں رسوائی لکھی ہوئی ہے۔ چاہے تو آمریت میں ان کے چوروں کے احتساب کا ڈھونگ رچا کر انہیں اپنے پیچھے لگا لو اور چاہے تو جمہوریت میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے جھوٹے وعدے کر کے ان سے اپنے حق میں ’’آوے ای آوے ‘‘ کے نعرے لگوا لو۔ پر لطف بات یہ ہے کہ یہ بھلے لوگ ایسے لاغر حافظے کے مالک ہیں کہ ووٹ دیتے وقت لیا گیا وعدہ دوسرے ہی دن بھول جاتے ہیں ۔ اگر بندہ چند لمحے غور کرے تو دماغ گھوم جاتا ہے کہ رب کی شان ! اس قوم کو کیسے کیسے حکمراں اور رہنما میسر آئے ہیں ۔ فاتر العقل بھی اس ملک کو چلاتے رہے ہیں اور سرے سے بدون دماغ بھی ۔جنہوں نے کبھی اپنے کنوئیں سے باہر جھانک کر نہیں دیکھا،وہ عوام کو دنیا کی سیاست سمجھاتے ہیں اور منافقت کے معبد تعمیر کرنیو الے انہیں اخلاقیات کے سبق پڑھاتے ہیں ۔
لندن میں آرام تو بہت ہے لیکن ملکی حالات نے مجھے بے چین کر رکھا ہے ۔ مجھے ذاتی طور پر جمہوریت سے کوئی پرخاش نہیں ، لیکن مصیبت یہ ہے کہ منتخب ایوان میں سوال 7سے بڑھ کر70ہو جاتے ہیں مگر جواب ایک کا بھی نہیں ملتا۔ جبکہ شخصی حکومت میں اول تو کوئی لغو سوال کرنے کی جرأت ہی نہیں کرتا اور اگر ضروری سوال و جواب ہوں بھی تو انتہائی مختصر اور با وقار طریقے سے کئے جاتے ہیں ۔ جیسے مرد مومن اور میں نے اپنے ریفرنڈم میں عوام سے ایک انتہائی مختصر اور جامع سوال پوچھا اور اسی دن شام تک ملک بھر سے عوام کااتنا ہی مختصر مگر بھرپور مثبت جواب بھی آ گیا ، جس کے بعد ملک کی تقدیر بدل گئی ۔ آج میں پاناما لیکس پر ایوان اور ایوان کے باہر ان لوگوں کی پھرتیاں دیکھتا ہوں تو میرا خون کھول جاتا ہے ۔ یہ اپنی تنخواہوں اور مراعات میں تو پلک جھپکتے میں بھاری اضافہ کر سکتے ہیں لیکن سالوں دھکے کھا کر بھی اپنی محدود عقلوں میں معمولی سا بھی اضافہ نہیں کر سکے ۔ کیا فرار کی راہ ڈھونڈنے والے نہیں جانتے کہ کمیٹیاں پارلیمانی ہوں یا غیر پارلیمانی ان کے گن جلیبیوں سے بھی زیادہ ہوتے ہیں ؟ میری مستند رائے میں ٹی او آرز پر نا اہلوں کا جمگھٹا کوئی معتبر فیصلہ نہیں کر سکے گابلکہ اس کیلئے صر ف ایک قابل دماغ چاہئے ۔ میں صدق دل سے سمجھتا ہوں کہ مجھے آ کر ان سب کا بے لاگ احتساب کرنا ہوگا، تب ہی یہ ملک ٹھیک ہوگا۔دل میں ایک خواہش رہ رہ کر انگڑائیاں لیتی ہے کہ اگر ایامِ رفتہ لوٹ آئیں اور میں دوبارہ وطنِ لذیذ کی لگام تھام لوں تو نہ صرف قوم کے ان مجرموں کو لگام دی جا سکتی ہے بلکہ تیز رفتار ترقی کا سفر بھی وہیں سے شروع ہو سکتا ہے ، جہاں سے ٹوٹا تھا ۔
نوٹ: گزشتہ شب یہ ڈائری لکھتے میری آنکھیں بوجھل ہونے لگیں تو میں میز پر ہی قلم ،ڈائری اور گلاس وغیرہ وغیرہ چھوڑ کر بیڈ روم میں چلا گیا ۔ صبح آنکھ کھلنے پر دوبارہ اسٹڈی میں گیا تو ڈائری دیکھ کر چونک پڑا ۔ کسی نے میرے عنوان ’’ سابق صدر کی ڈائری ‘‘ کو کاٹ کر ’’ایک اشتہاری کی ڈائری‘‘ لکھ دیا تھا ۔ میں نے جلدی میں ٹی وی آن کیا تو وطنی چینل کی ایک اینکر کرسی سے اچھل اچھل کر چیخ رہی تھی’’ سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے سابق صدر کو اشتہاری قرار دے دیا ‘‘ میں سمجھ گیا کہ ڈائری پر یہ گل کاری بیگم صاحبہ کی شرارت ہے ۔ میرا دل یوں ٹوٹ گیا ،جیسے کسی نے 58/2-Bکے تحت اسمبلی توڑ دی ہو۔ جب گھر والے ہی طنز کے نشتر چلانا شروع کر دیں تو غیروں سے کیا گلہ ؟ (سابق صدر)
تازہ ترین