• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی میں ٹارگٹ کلرز ، بھتہ مافیا ، اغواء برائے تاوان کے مجرموں اور تمام قسم کے مافیاز کے خلاف آپریشن کا سب سے زیادہ انحصار پاکستان پیپلزپارٹی کی نیت اور ارادے پر ہے کیونکہ وہ سندھ میں حکمراں ہے اور صوبائی حکومت کو ہی اس مشکل ترین ٹاسک میں لیڈ رول ادا کرنا ہے۔ اگر پی پی پی نے وقتی طور پر وفاقی حکومت کی ہاں میں ہاں ملا کر آپریشن شروع بھی کر دیا اور بعد میں مختلف حیلے بہانوں سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا جس کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا تو زیادہ خرابی ہوگی اور بے رحم مجرموں کو بڑا حوصلہ ملے گا اور وہ مزید دیدہ دلیری سے اپنی گھناؤنی کارروائیاں جاری رکھیں گے ۔ شاید ہی کوئی شخص ہو جسے وفاقی حکومت کی نیت پر شک ہو ۔وہ ہر پاکستانی اور کراچی کے پرامن شہریوں کی طرح خلوص دل سے کراچی سے مافیا کی حکمرانی کو دفن کرنے کا مصمم ارادہ کئے ہوئے ہے ۔ وہ اس کیلئے پی پی پی کو ہر قسم کی رعایت دینے کو بھی تیار ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے تمام سیکورٹی اداروں خصوصاً پاک فوج کے ساتھ صلاح و مشورہ مکمل کرلیا ہے اور ہرا ادارہ ان کے ساتھ کھڑا ہے کہ کراچی میں مجرموں جن کی نشاندہی ہوچکی ہے کا طاقت سے خاتمہ کیا جائے۔ فوج کے خفیہ ادارے خصوصاً آئی ایس آئی ،رینجرز اور پولیس کو مکمل معلومات فراہم کریں گے تاکہ ٹارگٹڈ آپریشن صحیح نشانوں کو ہٹ کرے۔ اس سے قبل شاید ہی کبھی اس قسم کا قومی اتفاق رائے پایا گیا ہے۔ 1992ء میں آرمی چیف جنرل آصف نواز نے آپریشن کے سلسلے میں اس وقت کی سویلین حکومت جس کے سربراہ نوازشریف تھے کو اعتماد میں نہ لیا۔ بلکہ یہ آپریشن اس وقت شروع کیا جب وزیراعظم برطانیہ کے سرکاری دورے پر تھے۔ وہ اس مہم جوئی کے خلاف تھے مگر ان کی ایک نہ سنی گئی ۔ اس سے قبل بینظیر بھٹو کی حکومت نے وزیرداخلہ میجر جنرل (ر) نصیر اللہ بابر کی سربراہی میں کراچی میں آپریشن کیا مگر اس وقت کی اپوزیشن جماعت نون لیگ اس کے خلاف تھی۔ مگر اب ایسا نہیں ۔ ہر سیاسی جماعت کراچی میں مجرموں کو کڑی سزا دینے کیلئے آن بورڈ ہے۔ سویلین حکومت اور فوج یک زبان ہے۔یہ بات طے ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں جن کی کراچی میں ٹھیک ٹھاک اسٹینڈنگ ہے کے آرمڈ ونگز ہیں ۔ یہ بات نہ صرف وفاقی اور سندھ حکومتوں کے علم میں ہے بلکہ تمام خفیہ ادارے بھی اس سے آگاہ ہیں۔ خدشہ اس بات کا ہے کہ جب ان ونگز پر کاری ضرب لگے گی تو چیخ و پکار ہوگی اور سیاسی انتقام کا رونا رویا جائے گا۔ ایسی تمام جماعتیں منافقت کی مرتکب ہورہی ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ انہیں آرمڈ ونگز کے خلاف کارروائی پر اعتراض نہیں کیونکہ ان کے پاس ایسے کوئی اسکواڈ موجود ہی نہیں۔ یقینا اپنی حفاظت کیلئے ایسی جماعتوں نے ایسے افراد پال رکھے ہیں ۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ آپریشن کے باس ہیں۔ مگر ان کا ٹریک ریکارڈ بہت ہی مایوس کن ہے ۔ وفاقی حکومت کی مجبوری ہے کہ وہ ڈائریکٹ مداخلت نہیں کرنا چاہتی ۔ تاہم آثار بتا رہے ہیں کہ قائم علی شاہ آپریشن کے انچارج تو بنا دیے گئے ہیں مگر دوسرے ادارے جو یہ ڈیوٹی سرانجام دیں گے کافی حد تک آزاد ہوں گے اور یہ یقینی بنایا جائیگا کہ ان کے کام میں بے جا مداخلت نہ ہونے پائے۔ خصوصاً اس طرح کی مداخلت جس سے آپریشن میں رکاوٹیں کھڑی ہوں اور گرفتار شدہ مجرموں کے ساتھ رعایت مانگی جائے۔اندیشہ ہے کہ آپریشن کے کسی اسٹیج پر پی پی پی تحفظات کا اظہار شروع کر دے گی اور اس سے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کریگی۔ خصوصاً اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ وفاقی مداخلت کا بہانہ بنائے گی ۔ ابھی سے وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ آصف زرداری کو مکمل اعتماد میں لے لیں تاکہ آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہوسکے۔ اگر آصف زرداری خلوص دل سے ساتھ دینے پر تیار ہوں تو سندھ حکومت کی مجال نہیں کہ وہ صحیح طور پر تعاون نہ کرے۔ کراچی پولیس مختلف سیاسی جماعتوں کے منظور نظر افراد سے بھری پڑی ہے۔ پی پی پی کس طرح چاہے گی کہ اس کے بندوں کو اس فورس سے نکال باہر پھینکا جائے۔ سب متفق ہیں کہ جب تک کراچی پولیس کو کالی بھیڑوں سے پاک نہیں کیا جائے گا کوئی بھی آپریشن مثبت نتائج نہیں دے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مجرموں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرنے کے ساتھ ہی پولیس میں اہم تبدیلیاں بھی کی جائیں۔ کراچی میں ایسے پولیس افسران کو تعینات کیا جائے جو نہ صرف بہت ہی اچھی شہرت کے حامل ہیں بلکہ ایماندار بھی ہیں اور دلیر بھی۔ باوجود اس کے کہ زندگی کے ہر شعبے میں بہت ہی خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں مگر پھر بھی ایماندار پولیس افسران کی کمی نہیں ہے جو صرف اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں اور کسی کی نہیں سنتے چاہے انہیں نوکری سے ہی ہاتھ کیوں نہ دھونا پڑے۔ ایسے ”سر پھروں“ کو کراچی ٹرانسفر کیا جائے۔
آپریشن کے دوران چند باتوں کا خاص خیال رکھنا ہوگا تاکہ اس کے صحیح مقاصد حاصل کئے جاسکیں۔ سب سے اہم عنصر اس کی شفافیت ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کارروائی کے دوران یہ خیال رکھا جائے کہ کون سا مجرم کس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہے۔ مجرم مجرم ہی ہے چاہے کوئی بھی ہو اور اس کے ساتھ مجرم والا ہی سلوک کرنا ضروری ہے۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ آپریشن کو بیلنس کرنے کیلئے مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مجرموں کو ایک تناسب سے گرفتار کیا جاتا ہے اور بعض اوقات خوا مخواہ معصوم لوگوں کو بھی دھر لیا جاتا ہے۔ دوسری اہم بات آپریشن کی غیر جانبدارانہ مانیٹرنگ ہے۔ ایسی کمیٹی کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اس کے ارکان اپنی اپنی جماعتوں کے گرفتار مجرموں کو رہا کرنے میں لگے رہیں ہاں البتہ جہاں ناانصافی ہو وہاں اس کی فوراً تلافی کرنا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ سندھ انتظامیہ کو آپریشن کے علاوہ ایک اور مشکل کام بھی کرنا ہوگا وہ ہے پراسیکیوشن کے نظام کو صحیح معنوں میں بحال کرنا۔ اس وقت یہ برانچ عضو معطل ہے۔ پہلے تو ٹارگٹ کلرز ، بھتہ خور اور اغوا برائے تاوان کے مجرم گرفتار ہی نہیں ہوتے اور اگر پکڑ بھی لیے جائیں تو ان کا ٹرائل ہونا ناممکن ہے کیونکہ پولیس تفتیش صحیح نہیں کرسکتی ۔ گواہ نہیں ملتے اور اگر گواہ مل بھی جائیں تو ان کی بھی ٹارگٹ کلنگ ہو جاتی ہے اس طرح پورے کا پورا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ جو صرف صحیح اس وقت ہوگا جب ہر اسٹیک ہولڈر خصوصاً پی پی پی کی نیت صاف ہوگی اور وہ خلوص دل سے کراچی کو مجرموں سے پاک کرنے کا ارادہ کرے گی۔ اسے فوراً مسئلے کی نزاکت کا احساس کرنا ہوگا۔ آخر اس کے ورکرز بھی تو اس خوں ریزی کا شکار ہو رہے ہیں۔
تازہ ترین