• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Firing On Sindh Mahabbat Rally Slow Progress In The Case
افضل ندیم ڈوگر.... کراچی میں مہاجر صوبے کے قیام کی کوششوں کے خلاف اور سندھ سے اظہار یکجہتی کے لئے نکالی گئی سندھ محبت ریلی پر فائرنگ سے خواتین سمیت 11 افراد کی ہلاکت کا مقدمہ چار سال گزرنے کے باوجود انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ پولیس ملزمان کا سراغ لگانے میں ناکام رہی تاہم پاکستان رینجرز کے ہاتھوں گرفتار ملزمان پر پولیس تاحال فرد جرم عائد نہیں کراسکی۔

ایاز لطیف پلیجو کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے کسی مقتول کو لواحقین یا زخمیوں کو اعلان کردہ امدادی رقم نہیں ملی۔ پولیس ذرائع کے مطابق سال 2012 میں اچانک متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے کراچی سمیت سندھ بھر میں مہاجر صوبہ تحریک شروع کردی گئی تھی جس خلاف کے خلاف شدید عوامی ردعمل سامنے آیا تھا اور 22 مئی 2012 کو لیاری کے فٹبال گراؤنڈ سے قومی عوامی تحریک، سٹی الائنس، مسلم لیگ نون اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت سیاسی جماعتوں کی جانب سے سندھ محبت ریلی نکالی گئی تھی۔

ریلی نے کراچی پریس کلب پہنچ کر ختم ہونا تھا تاہم ریلی جب لی مارکیٹ سے گذر کر نیپئر روڈ پر پہنچی اور پان منڈی اور سٹی کورٹس کی گلیوں سے اچانک مسلح دہشت گرد نکل آئے جنہوں نے ریلی کے شرکاء پر کئی طرف سے شدید فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ایک بچی اور دو خواتین سمیت 11 افراد جاں بحق جبکہ پولیس اہلکار اور صحافیوں سمیت 35 افراد زخمی ہوگئے تھے۔ مشتعل افراد نے 15 موٹر سائیکلیں، 7 گاڑیاں اور 8 دکانیں اور 3 گھر جلا دیئے تھے۔

شہر کے سیاسی اثر و رسوخ کی بنا پر سانحہ 12 مئی کی طرح پولیس اس مقدمے میں ملوث ملزمان کا سراغ لگانے میں ناکام رہی یا اس سلسلے میں کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ ملزمان کی عدم گرفتاری پر اس مقدمے کو اے کلاس قرار دے کر پولیس نے چالان انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر 3 میں جمع کرا دیا تھا۔ تفتیشی افسر اعجاز مغل کے مطابق 11 مارچ 2015 کوعزیز آباد میں 90 پر رینجرز نے چھاپہ مارا تو وہاں سے گرفتار ملزمان عامر سرپھٹا اور عبد القادرہنگورو نے جے آئی ٹی کے سامنے سندھ محبت ریلی پر فائرنگ کرنے کا اعتراف کیا۔

پولیس کے تفتیشی افسر غلام علی مروت کے مطابق یکم اپریل 2015 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں متحدہ کے گرفتار کارکن عامر عرف سرپھٹا کا اعتراف شامل تھا کہ اس نے کراچی تنظیمی کمیٹی کے اس وقت کے انچارج حماد صدیقی کے کہنے پر لیاری سے نکلنے والی سندھ محبت ریلی پر فائرنگ کی۔

عامر عرف سر پھٹا کی نشاندہی پر ہی حماد صدیقی سمیت دیگر ملزمان کو سندھ محبت ریلی کے مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا۔ جس پر پولیس نے اس مقدمے کا چالان دوبارہ پیش کیا۔ جس میں ان دو ملزمان کو گرفتار جبکہ 7 ملزمان کومفرور ظاہر کیا۔

11 اگست 2015 کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مقدمے میں متحدہ قومی موومنٹ کراچی کی تنظیمی کمیٹی کے سابق سربراہ حماد صدیقی، منظور عرف مانجو، کامران کالا، مبشر نقوی، رضوان اور نبیل ماما کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے۔ 15 ستمبر 2015 کو عدالت نے ان تمام ملزمان کو اشتہاری قراردے دیا۔

یہ مقدمہ کراچی سینٹرل جیل میں قائم انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر 6 میں زیرسماعت ہے اور ملزمان پر تاحال فردجرم عائد نہیں کی جاسکی۔ حکومت سندھ نے سانحہ 22 مئی کے واقعات کی عدالتی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا تھا مگر کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔

حکومت سندھ کی جانب سے سندھ محبت ریلی پر دہشت گردوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والوں کے ورثا کو فی کس 2 لاکھ روپے اور زخمیوں کو فی کس 50 ہزار روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو کے مطابق حکومت کی جانب سے تاحال کسی مقتول کے وارث یا زخمی کو کوئی امدادی رقم نہیں دی گئی۔

انہوں نے اس سلسلے میں پاکستان رینجرز کے کردار کی تعریف کی اور کہا کہ رینجرز کی بدولت معصوم کارکنوں کے قاتلوں کا سراغ ملا ورنہ سندھ حکومت یا پیپلزپارٹی کی جانب اس کیس کی تحقیقات مناسب طریقے سے کرائی گئی۔

ایاز لطیف پلیجو کے مطابق گرفتار ملزمان ہی ریلی کے شرکاء کے قاتل ہیں جنہیں زخمیوں نے عدالت میں شاخت کرلیا ہے۔ ایاز لطیف کے مطابق سانحہ 12 مئی کی طرح اس دہشت گردی کے بارے میں سب کچھ عیاں ہے اس کیس کے ماسٹر مائنڈ حماد صدیقی کی گرفتاری کے بعد دیگر کرداروں کا سراغ ملے گا ۔
تازہ ترین