• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں تیرا حاجی لگو یم تو میرا حاجی بگو ، بروز جمعرات 5ستمبر2013ء ملکی سیاست میں ایک بڑا اہم دن ثابت ہوا۔ اس دن وزیر اعظم نے سبکدوش ہونے والے صدر کے اعزاز میں ظہرانہ دیکر ایک نئی روایت کی بنیاد ڈالی۔ میاں نواز شریف اور جناب آصف زرداری دونوں ہی اپنی ذاتی زندگی میں انتہائی مہمان نواز شخصیات ہیں۔مجھے خوش قسمتی سے دونوں کے بہت قریب رہنے کا اعزاز حاصل ہے اور میں ہمیشہ یہ سوچتا تھا کہ ان دونوں میں کون زیادہ مہمان نواز ہے۔
یقین کیجئے میں آج تک اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکا جبکہ فیصلہ کرنے میں کافی جلد باز واقع ہوا ہوں۔ میں نے ایک سال میں بطور ہائیکورٹ جج1400کیسوں کا فیصلہ کر دیا اور خواجہ نوید کی عدالت میں35منٹ میں فیصلہ کرتا ہوں جسے اسکرین پر لاکھوں افراد دیکھتے ہیں ۔ بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ جناب آصف زرداری اور میاں نواز شریف کے درمیان پہلی پیغام رسانی کے فرائض میں نے ادا کئے۔ لانڈھی جیل سے میاں نواز شریف کی طرف سے نیک تمناؤں کا پیغام لیکر میں سینٹرل جیل میں آصف زرداری کے پاس گیا تھا اور سینٹرل جیل سے جناب آصف زرداری کی طرف سے سندھ میں قیام کے دوران میاں نواز شریف کے لئے جیل میں تمام تر مہمان نوازی بشمول کھانا، بستر اور ضروریات زندگی مہیا کرنے کی آفر لیکر میں واپس لانڈھی جیل گیا جسے میاں نواز شریف نے شکریہ ادا کر کے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ سب انتظام ہو گیا ہے اگر کوئی ضرورت ہوئی تو آپ ( (آصف زرداری) کو ضرور بتائیں گے۔ ان باتوں کی بازگشت آج وزیر اعظم ہاؤس میں دونوں رہنماؤں کی تقریروں میں میں نے محسوس کی اور میری آنکھوں کے سامنے اکتوبر/نومبر1999ء کے وہ مناظر گھوم گئے جب میں دونوں جیلوں سے لانڈھی جیل اور سینٹرل جیل کراچی سے دونوں رہنماؤں کے پیغامات ایک دوسرے تک پہنچا رہا تھا۔ پھر جب میں میاں صاحب سے سرور پیلس جدہ میں ملا تو میاں صاحب کو یہ ساری باتیں یاد تھیں۔ اور انہوں نے ان باتوں کا پھر سے ذکر کیا اور انہیں ایک ایک جملہ یاد تھا ۔
آج میاں صاحب نے ایک مرتبہ پھر انتہائی خوبصورت انداز میں اکتوبر /نومبر 99ء والے جذبات کو دہرایا۔ بہت سی باتیں میں یہاں مصلحتاًضبط تحریر میں نہیں لا رہا مگر یہ کہنا کافی ہے کہ آج کی تقریب انہی پیغامات کی بلاواسطہ ترجمانی تھی جن جذبات کا اظہار دونوں رہنماؤں نے میری معرفت سب سے پہلے کیا تھا اور پھر میری شروع کی ہوئی دونوں رہنماؤں کے درمیان بات چیت انکے اپنے ذرائع کے ذریعے میثاق جمہوریت تک پہنچی اور پھر ایوان وزیراعظم کی مذکورہ تقریب تک جا پہنچی۔ یہ ایک نئی روایت ہے اور امید ہے کہ یہ قائم رہے گی۔ آصف زرداری کی یہ بات کہ اب ہم سیاست پانچ سال بعد کریں گے جب آپ انتخابات کا اعلان کریں گے بہت وزنی ہے اور ملک کی سیاست پر اسکے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ میاں نواز شریف کی تقریر کا ایک ایک لفظ محبت اور خلوص میں ڈوبا ہوا تھا اور اس کی ادائیگی بھی بڑی فطری تھی جس نے پوری تقریب کے وقار میں اضافہ کر دیا اور ماحول کو خوشگوار کر دیا ۔کراچی کے حالات دیکھ کر یہ تقریب کسی فلم یا ڈرامے کا کوئی سین لگتا ہے۔ یہاں سڑکوں پر خون بہہ رہا ہے۔ نیوی افسران رینجرز کے جوان، پولیس کے بہادر سپاہی اور افسران تمام باری باری اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں جان کی بازی ہار رہے ہیں ۔ یہاں درودیوار پر موت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ گورنر ہاؤس سے لاء اینڈ آرڈر کی ڈیوٹی انجام دیکر نکلنے والے پولیس ملازم کو راستہ میں موت کے گھاٹ سلا دیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے اور ایوان وزیر اعظم میں ہونے والی باوقار تقریب مصنوعی سی لگتی ہے۔ ہمیں اپنی اصلیت تو کراچی کی سڑکوں، بسوں اور گلی محلوں میں نظر آتی ہے جہاں یونیورسٹی کی بس میں جانے والے طالب علموں سے سمسٹر کی فیس، پرس، موبائل اور یہاں تک کہ کاغذات بھی چھین لئے جاتے ہیں۔ یہ ایک نہایت ہی سفاکانہ عمل ہے اور میرے خیال میں اسکے پیچھے سیاسی مضمرات ہیں اور اسطرح کا عمل کرنے والے لوگ ڈکیتی کے علاوہ کوئی پیغام بھی دینا چاہتے ہیں یا کسی سیاسی موومنٹ کو شروع کرنے کے لئے طلبہ پر تشدد کر رہے ہیں تاکہ وہ سڑکوں پر نکلیں اور حالات گرم ہوں۔
ہماری جوانی کے دنوں میں اور زمانہ طالب علمی میں سیاسی موومنٹ طلبہ کے ذریعے چلائی جاتی تھی۔ 1969کی طلباء کی تحریک ایوب خان کا اقتدار لے گئی۔ یحییٰ خان کو مشرقی پاکستان لے گیا 1997کی پی این اے کی تحریک بھی طلبا کے ذریعے شروع ہوئی اور پھر نو ستارے آ گئے اور ضیاء الحق کو لے آئے۔ضیاء الحق کو طیارہ کھا گیا اور اسکے بعد مشرف کو وکلا نے اتارا ۔ طلبا کافی دن سے ٹھنڈے پڑے ہیں لگتا ہے کہ ان کو جگایا جا رہا ہے اگر یہ حقیقت ہے تو پھر ڈھونڈ لیں کہ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔دو بڑی حریف سیاسی جماعتیں تو آپس میں گٹھ جوڑ کر بیٹھی ہیں اور بالواسطہ طور پر گزشتہ پاچ سالوں میں فرینڈلی اپوزیشن کا اعتراف الوداعی تقریب میں ہو گیا ہے اور اب دوسری جماعت کو فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ہے۔ سیاست پانچ سال بعد ہوگی مگر نہ جانے اس دوران بے روزگاری غربت، لوڈ شیڈنگ،کرپشن ،لاء اینڈ آرڈر کے ستائے ہوئے غریب اور محنت کش لوگ اپنے لئے کوئی اور سہارا تلاش کر لیں۔اور کوئی نئی سیاسی جماعت یا قوت میدان میں آ جائے۔ ہم نے بچپن سے سنا تھا کہ میدان خالی نہیں رہتا ۔ آخر میں جناب فیض احمد فیض کے حسب حال اشعار قارئین کی نذر کرتا ہوں۔
باقی ہے لہو دل میں تو ہر اشک سے پیدا
رنگ لب و رخسار صنم کرتے رہیں گے
اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
تازہ ترین