• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور کا پہلا نمبر

غلاظت سروے کے مطابق لاہور بدستور پہلے نمبر پر ہے۔ یہاں اگرکوئی صفائی کا نظام ہے بھی تو پوش علاقوں تک محدود ہے یا وہاں جہاں سے ایلیٹ نے گزرنا ہوتا ہے، ظاہر ہے جس کے پاس دولت ہو، اقتدار ہو، اعلیٰ روزگار ہو ان کے لیے تو روش روش بہار باقی رہ گئے ہم تم تو کس باغ کی مولی ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب سے ہم پہلے بھی گزارش کر چکے ہیں کہ کم از کم بھینسوں اور کوڑا جلانے کے مراکز کو ہم تم لوگوں کے رہائشی علاقوں سے نکال باہر کریں۔ مہنگی ترین اشیا اور سستی غلاظت گاہوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں، وزیراعظم جب ہر اتوار کو لاہور آتے ہیں تو اپنے پیارے کے سامنے ہماری عرضداشت بھی رکھ دیں، جہاں میں رہتا ہوں وہاں صبح بھی گوبر کی مہک اور شام بھی گوبر کی خوشبو کے ساتھ دن گزارتا ہوں اس لیے ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، میرے ارد گرد کے مکینوں کا بھی یہی حال ہو گا، غلاظت پھیلانے والوں کو کوئی اُف تک نہیں کر سکتا کہ وہ اہلِ اقتدار کے ’’رشتہ دار‘‘ یا اہلِ اختلاف کے دامن بردار ہیں، واضح رہے کہ غلیظ لاہور اور ہے اورصاف ستھرا اور کہ مکین ایک جیسے نہیں، اگر باطن صاف ہوتے تو لاہور کا صفائی میں پہلا نمبر ہوتا، یہ حدیث اب بہت زیادہ سننے سنانے کو ملتی ہے کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘، کیا احادیثِ مبارکہ بھی عملدرآمد سے دور رکھ دی گئی ہیں، کوڑا جلانے والے مافیا نے معاوضے پر گھروں کا کوڑا اٹھانے والے گلی گلی پھیلا دیے ہیں، وہ جمع شدہ کوڑا جلانے والوں کو فراہم کرتے ہیں، یہ جو لاہور کے نیلے آسمان کو گدلا کرتے ہیں وہ یہی کوڑا جلانے والے ہیں، آوارہ کتوں کو بھی غلاظت میں شامل کر دیں، بدبو اور پھیلتی ہے جو بدبو میں ملے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

خفیہ ملاقاتیں اور عدم اعتماد

عدم اعتماد تو اب ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکا ہے کہ دھوکے کھا کھا کر اعتماد کھو بیٹھا، باقی خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ پاکستان بنتے ہی شروع ہو گیا تھا وہ جن خفیہ ملاقاتوں کا ذکر شاعر کیا کرتے تھے اب دن دیہاڑے حسن، چکنے میں بدل چکا ہے۔ گویا عدم اعتماد کا ووٹ لانے اور ملک گیر مارچ میں بھی کوئی فرق باقی نہ رہا۔ یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ عدم اعتماد عوام کو ہے یا اپوزیشن کو، کہیں یہ تو نہیں کہ وطنِ عزیز میں دولت بھی دولتمندوں کی دانش بھی انہی کی، کیونکہ دولت کملوں کو سیانا بنا دیتی ہے۔ اب تو جو بھی وسائل سے ماورا رہتا ہے اس نے اپنی دولت سے اپنا نام بھی چھین لیا، کیا یہ توہینِ دولت نہیں، مانا کہ مہنگائی کے اسباب اور بھی ہیں مگر گورننس کی چال تو فقط ایک چال ہے کہ چلتی ہے مگر منجمد دکھائی دیتی ہے، اول کوئی اتنی زیادہ خفیہ ملاقاتیں ہوتی نہیں اور جو ہوتی ہیں ان کو چنداں خفیہ رکھنے کی ضرورت نہیں ۔ملاقاتیں اور عدم اعتماد یہ دونوں ساتھ ساتھ کیسے چل سکتے ہیں؟ شاید یہ ہولناک حقیقت ہی اپوزیشن کی جڑوں میں بیٹھ گئی ہے کہ ملاقات ہے مگر عدم اعتماد کے ساتھ۔ بہترین مفت مشورہ یہ ہے کہ ڈیڑھ برس اپنی اپنی سیاست کو پختہ کرنےپر لگا دیا جائے نیم پختہ تو مرغی کا انڈا ہی لذیذ ہوتا ہے نیم پختہ سیاست تو حکمرانوں کی برائی کو دوام دیتی ہے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

کیا سب غلط سمت میں رواں دواں ہیں؟

اب تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کے چند اچھے بندے باقی رہ گئے ہیں ورنہ قیامت آنے میں کوئی کسر تو نہیں رہ گئی، ہم اپنے ملک کی نہیں ساری دنیا کے ملکوں کی بات کررہے ہیں کہ سمت کسی کی بھی درست نہیں، جن کے پاس پیسہ وافر ہے وہ ’’غم نداری بزنجز‘‘ (کوئی غم نہیں، بکری خرید لو) پر عمل کرکے اپنی کور ذوقی کو تسکین دے سکتے ہیں اور جن کی کوئی نہ کوئی ضرورت پوری نہیں ہو رہی یا ہماری طرح سب ضروریات نامکمل ہیں، وہ غلط سمت میں یہ سمجھ کر کہ پیچھے پانی آ رہا ہے، کسی اچھے سے کنویں میں کود جائیں کہ مینڈک کو ایسے بھی کنویں سے رغبت ہے، آج کل اگرکنویں باقی نہ رہے تو بڑی بڑی عمارات کے سامنے پورا ملک ایک کنواں ہی تو ہوتا ہے۔ کوئی کتنا ہی غلط سمت کا رخ کرے خدا کے اس جملے سے جان نہیں چھڑا سکتا کہ ’’این لک مفر‘‘ (تیرے لیے راہ فرار کہاں) ہمیں انگلینڈ کا تاریخی واقعہ یاد آ رہا ہے جسے تاریخ نام دیا گیا "THE DAY THE DAM BROKE"(جس روز ڈیم ٹوٹا )قبلہ کسی کا بھی درست نہیں، نماز عشق کسی کی بھیقبول نہیں، نماز عشق میں وہ سب موجود ہوتا ہے جو نماز عشق میں نہیں ہونا چاہئے لیکن کیفیت یہ ہے کہ

چاہے وضو ٹوٹے یا چھوٹے نماز

یارو ہم نے تو ہاں کر دی

٭٭ ٭ ٭ ٭

مسلم سکھ عیسائی ہو جائیں بھائی بھائی

٭:اللہ گواہ ہے، بیٹے کی کرپشن ثابت کر دیں، معافی مانگ کر گھر چلے جائیں گے۔

جب اللہ کو گواہ بنا لیا تو کورٹ کو قانون میں اللہ کو گواہ بنانے کی گنجائش پیدا کرنی چاہیے اور بتا دینا چاہیے کہ گواہ نظر نہیں آئے گا اس لیے غیب پر ایمان لانا پڑے گا۔

٭فضل الرحمن: علما، انبیاؑ کے وارث، سیاست لوفر لفنگوں کا کام نہیں۔

سچ کہا تھا اقبال نے

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

٭مودی حکومت آئینہ دکھانے پر وزیراعظم سنگا پور سے ناراض۔

آئینے نے مودی کے روئے زیبا کو دکھانے کی بجائے کشمیریوں پر ظلم و ستم اور حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کرنے والی خواتین سے ان کا حق چھیننے کے مناظر دکھا دیے ہوں گے۔ مودی نے بڑی عقلمندی کی کہ کروڑوں مسلمانوں کو کشمیری مسلمانوں کا ہمنوا بنا دیا۔

مسلم سکھ عیسائی ہو جائیں بھائی بھائی

٭٭ ٭ ٭ ٭

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین