• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ حکومت تحریک انصاف کی ہو یا زمامِ اقتدار پیپلز پارٹی یا نون لیگ کے ہاتھ میں ہو، بےشک عنانِ حکومت مُلا کا نصیب ہو یا مِسٹر کا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرق پڑتا ہے تو کارکردگی سے۔ عوام یہ بھی ہضم کر جاتے ہیں کہ کوئی الیکٹ ایبل جلوہ افروز ہو یا سلیکٹ ایبل رونق افروز ہو۔ 40فیصد سے زائد سلیکٹ ایبل اور 60فیصد سے زائد الیکٹ ایبل کے خاندان لکیریں اور پارٹیاں بدلنے میں مہارت رکھتے ہیں اور 70فیصد عوام اُن کے پیچھے پارٹیاں بدلنے کا منفرد اور مستقل تجربہ بھی رکھتے ہیں۔

نہیں معلوم، سیاسی کلچر کا مسئلہ ہے یا سیاسی تہذیب کا، شاید سیاسی تہذیب کا تو ہمارے ہاں سرے سے وجود ہی نہیں، پس مسئلہ سیاسی کلچر کا ہے۔ یہاں ہر اس شخص کو سیاست دان قرار دیا جاتا ہے جو قانون کو موم کی ناک اور آئین کو نظریہ ضرورت کی ڈھال بنالے۔ سن 1947سے یہی کلچر ہے، کبھی یونینسٹ سے مسلم لیگ، مسلم لیگ سے کنونشن لیگ و عوامی لیگ، جونیجو لیگ و ق لیگ۔ ایسے ہی پیپلزپارٹی سے سیاسی نہروں کا نکلنا اور دریا برد ہو جانا۔ اس کلچر کو کتنے فیصد جمہوری کہا جا سکتا ہے؟ اوکھے سوکھے تیس چالیس فیصد جمہوریت کا ہونا بھی جمہوری بقا سمجھیے۔ سیاست اور جمہوریت کا راگ الاپنے والے سبھی بزنس کی ڈگر، ناموری کی شاہراہ اور نظریۂ ضرورت کی پگڈنڈی پر ہیں، کوئی بھی حمودالرحمٰن کمیشن کے باریک حقائق کو سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔ اب اس بچی کھچی جمہوریت کی چیخیں بھی اس وقت سنائی دیتی ہیں جب مؤرخ اور مبصر 18ویں ترمیم کے ثمراتی مشاہدے کے بغیر کسی آمر نما کا ہم خیال ہو جاتا ہے، اس سے بناؤ کا کلچر جنم نہیں لیتا، بگاڑ کی طرف بات چل نکلتی ہے۔

کلچر کی ایک جھلک یہ بھی کہ دو دن قبل منڈی بہاؤالدین میں وزیراعظم کو ڈیزل و پٹرول کے ریکارڈ نرخ بڑھنے پر جہاں قوم کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا مگر وہ مولانا فضل الرحمٰن کو ڈیزل ڈیزل پکارتے رہے۔ اس شگفتہ مزاجی و ریشمی لفاظی پر کون نہ مر مٹے۔ کمر توڑ مہنگائی، پٹرولیم مصنوعات اور روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے پر پشیمانی کی ضرورت تھی، اور ضروری تھا لوگوں کو حقائق سے آگاہ کیا جاتا۔ پھر ساڑھے تین سال بعد بھی لوگوں کو کہا جارہا ہے کہ اپوزیشن کرپٹ ہے، پھر آپ اپنی مرکزی و صوبائی حکومتوں میں وہ سسٹم کیوں نہیں لا سکے جس سے کرپشن کے راستے بند ہوں، کرپشن اداروں میں آج بھی ہے جس کا بھانڈہ آئے روز بین الاقوامی ادارے پھوڑتے رہتے ہیں۔ اجی، آپ حکومت ہیں، اپوزیشن نہیں! آپ وعدے کرکے آئے تھے کہ مہنگائی اور بےروزگاری ختم کریں گے، جب آپ سے ہوا کچھ نہیں تو آپ یوں مخالفین کو رگید رہے ہیں جیسے آپ اپوزیشن ہوں، اور وہ حکومت۔ آپ کی بےبسی و بےکسی کی یہ انتہا دیکھی نہیں جاتی۔ آپ بھی جمہوری شفافیت و روحانیت سے دور پرانے کلچر کے ہم نوا نکلے، کہ جب بےبسی کا عالم جینے نہ دے تو مخالفین اور نکتہ دانوں کا جینا حرام کردیا۔ یہی سب تو ماضی کا خاصا تھا اور آج بھی ایکوسسٹم کا حصہ! ایسا قطعی نہیں کہ نون لیگ یا پیپلزپارٹی والوں نے گڑبڑ نہیں کی تھی مگر ایسا بھی نہیں کہ انہوں نے اس قدر برے حالات والا پاکستان دیا تاہم آپ نے جو فرق بنانا اور بتانا تھا، وہ پاکستان کے کسی کونے کھدرے میں بتا دیجئے؟ اور دل کھول کرووٹ مانگئے مگر قائدِاعظم اور ذوالفقار علی بھٹو کی طرح، اور پھر نواز شریف کی طرح کچھ کرکے دکھائیں بھی تو۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ورنہ آپ ڈیڑھ سال قبل الیکشن مہم پر نہ نکلتے، وزارتِ عظمیٰ والے خطبات سے نوازتے! کم از کم منڈی بہاؤالدین اور دیگر شہروں کی حالیہ تقریروں سے ہمیں نہیں لگتا نذر محمد گوندل اور میجر (ر) ذوالفقار گوندل سے سنجیدہ لوگ شہر اور حلقوں میں پھولے نہ سمائیں۔ منڈی بہاؤالدین میں عموماً گوندل راج ہی رہا، متذکرہ گوندلوں کا پی پی پی کے سبب، حتیٰ کہ انہیں گجرات کے چوہدریوں نے بھی ہمیشہ تختہ مشق ہی بنائے رکھا یا نون لیگ کے پلیٹ فارم پر بوسال سرخرو ہوئے۔ خیر، مقامی قیادت اور نذر محمد گوندل و ذوالفقار گوندل نے عوامی رابطہ مہم کی اوپننگ میں خان کے سامنے جمِ غفیر لاکھڑا کیا مگر اعتدال کے بجائے خان اوور چارج ہو گئے۔

ہمیں یاد ہے کہ 1986میں جب بےنظیر بھٹو منڈی بہاؤالدین گئیں تو انہوںنے وہاں پہنچ کر پہلے نوٹس لیے کہ وہاں فصلیں کون سی ہیں، رسم و رواج کیا ہیں اور شہدا کون ہیں؟ گویا انہوں نے تقریر کا آغاز منصور شہید وغیرہ کی دھرتی سے کیا۔ یوں شہید زندہ ہوتے ہیں اور پارٹیاں بھی۔ جس سنجیدہ طبع مقامی قیادت کو میں جانتا ہوں انہیں خان کی یہ تقریر سریلی یا پراثر نہیں لگی ہوگی تاہم لوگوں کی سیاسی مجبوریاں ہیں۔ جب پیپلزپارٹی اور نون لیگ والوں کی گاڑیوں سے بھی پراپرٹی ڈیلر نکلیں گے تو عمران خان کی سنجیدہ و غیر سنجیدہ ہر بات سنی جائے گی۔ اب ہر کوئی بھٹو نہیں کہ فلیٹیز ہوٹل لاہور کے کمرہ نمبر 4 میں بیٹھ کر سیاست کا جادو جگا جائیں اور گاڑی سے ڈاکٹر مبشر حسن اور بابائے سوشلزم شیخ رشید جیسے جہاندیدہ نکلیں۔ خالی جیے بھٹو کا نعرہ کب تک چلے گا؟ آج اگر عمران خان حکومت یا صفِ اول کے سیاست دان اور دانشوران ذوالفقار علی بھٹو کو قومی لیڈر قرار دے دیں، تو پیپلزپارٹی کے پاس کیا بچے گا؟ بہرحال آصف زرداری کی آئینی خدمات، این ایف سی ایوارڈ، سی پیک کی قلندری، ایران گیس کی کاوش اور مصالحت پر مبنی سیاست کا جھنڈا اونچا ہے مگر کئی سماجی و سیاسی باتیں نیچے بھی رہ گئی ہیں جو عمران خان کے غیر سنجیدہ سکے بھی سیاسی مارکیٹ میں چل ر ہے ہیں۔ رہی بات میاں صاحب کی، تو تاریخ ساز ترقیاتی کاموں کو سرانجام دینے والے تین دفعہ وزیراعظم (تیسری دفعہ وزارتِ عظمیٰ کا راستہ زرادری ترامیم نے ہموار کیا!) رہنے کے بعد میثاقِ جمہوریت یا اینٹی کرپشن کے ساتھ نواز شریف نے کوئی نیکی نہیں کی۔ اور یہی وجہ ہے خان کے پاس آدھی پیپلزپارٹی، آدھی قاف لیگ لیڈرشپ اور ووٹرز شکل میں، آدھی جماعت اسلامی ووٹرز صورت میں چلی گئی۔ سب سدھرے نہ، تو کوئی خان و نواز ہو یا زرداری پھر اگلی باری ایسے کلچر والی!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین