• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک ساتھ 12 روپے فی لیٹر اضافے نے مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے ، جہاں کسی بھی سماج کے تانے بانے بکھر نے کا عمل شروع ہوتا ہے اور انتشار کا آغاز ہوتا ہے ۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے سے ازخود دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی طرف سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے گہرے اثرات بھی نظر آنے لگے ہیں بلکہ اب تو بجلی کی قیمتوں میں پھر اضافے کی خبریں گرم ہیں۔ پہلے تو محاورتاًکہا جاتا تھا لیکن اب لوگوں کو واقعتا روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں ۔ صورتِ حال کی سنگینی کا درست اندازہ شاید اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو بھی نہیں ہے ۔

اگلے روز لاہور ہائیکورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے متنبہ کیا کہ جمہوریت خطرے میں ہے ۔ عمران خان کے دور حکومت میں پاکستان جمہوریت سے دور اور آمریت کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ مجھے نہیں پتہ کہ بلاول بھٹو زرداری نے کس تناظر میں یہ بات کہی لیکن موجودہ حالات میں مجھے جمہوریت حقیقتاًـ خطرے میں نظر آ رہی ہے کیونکہ بے تحاشا مہنگائی کی وجہ سے میں جو انتشار اور انارکی دیکھ رہا ہوں ، اس کا منطقی نتیجہ سیاسی اور جمہوری قوتوں کی کمزوری ہے ۔

چند سال پہلے کہا جاتا تھا کہ دنیا میں فوجی آمریت کا عہد ختم ہو چکا ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ 2020اور 2021میں افریقا کے چار ممالک چاڈ ، مالی ، گنی اور سوڈان میں جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیاگیا ۔ 2021ء کے اسی فروری میں ہمارے جنوبی ایشیاء کے ملک میانمار ( برما ) میں بھی فوج اقتدار پر قابض ہوئی اور اس وہم یا افسانوی تصور (Myth ) کا خاتمہ ہو گیا کہ اب دنیا میں فوجی یا آمرانہ حکومتیں نہیں بن سکتیں یا فوجی بغاوتیں نہیں ہو سکتیں۔ ان تمام ممالک کی تاریخ اور حالات کا میں نے غور سے مطالعہ کیا ۔ ان سب کی ایک ہی کہانی ہے ۔ ان پانچوں ممالک میں بغاوتوں سے قبل عوام کی معاشی حالت بدترین تھی ، بالکل ایسے، جو اس وقت پاکستان میں ہے ۔ وہاں روٹی ، روٹی ، روٹی کی چیخیں تھیں ۔ ان ملکوں میں جو نام نہاد جمہوری حکومتیں قائم رہیں،وہ وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی حکومتیں تھیں ، جنہیں انتخابات کی ’’ تدبیر سازی ‘‘ ( Manuvering ) سے قائم کیا گیا تھا ۔ وہاں کی اسٹیبلشمنٹ عالمی طاقتوں کی طفیلی تھی۔ عوام کی حقیقی نمائندہ سیاسی جماعتیں اگر سودے بازی یا سیاسی تدبیر سے اقتدار میں آئیں تو ان کا اقتدار کمزور ہوتا ہے ۔ سمجھوتوں کی وجہ سے ان کی سیاسی طاقت بھی کمزور ہوئی ۔ ایسی تمام جمہوری حکومتوں کو عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف ) ، عالمی بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن لینے پر مجبور کیا گیا ۔ ان حکومتوں کی ’’معاشی پالیسیوں ‘‘ اور ’’ مشکل فیصلوں ‘‘ سے جو معاشی بحران پیدا ہوا ، اس نے مقبول سیاسی جماعتوں کو کمزور کیا اور سیاسی انتشار میں افواج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع ملا ۔ میانمار میں تو آنگ سان سوکی جیسی مقبول سیاسی رہنما کی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیمو کریسی ( این ایل ڈی ) کی حکومت کا تختہ الٹا گیا اور آنگ سان سوکی کے ساتھ ساتھ ان کے وزراء اور معاونین کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا ۔ مذکورہ بالا پانچ ممالک میں اقتدار پر قبضے کی کہانیوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ پاکستان سے مختلف نہیں ہیں ۔

پاکستان میں عالمی مالیاتی اداروں کی ڈکیٹیشن پر اب تک جو کچھ ہو چکا ہے، اس کے خلاف اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے نہ صرف ضروری مزاحمت نہیں کی بلکہ ان میں سے کوئی جماعت اگر آئندہ عام انتخابات میں اقتدار میں آتی ہے تو ان تمام اقدامات کو ’’ Reverse ‘‘ کرنے یعنی پلٹنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں یا ان اقدامات کو ’’ Undo ‘‘ یعنی کالعدم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں ۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت میں مذکورہ بالا پانچ ملکوں میں جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے حالات پیدا نہ ہوئے تو آئندہ کی جمہوری حکومتوں میں جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے حالات پیدا کرنے میں کوئی رعایت نہیں ہو گی ۔ جہاں روٹی ، روٹی ، روٹی کی چیخیں ہوں ، وہاں جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی ۔ جمہوریت کو خطرات سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ ان چیخوں کو سنا جائے اور ان پر کھڑے ہو کر سیاسی مزاحمت کا آغاز کیا جائے تاکہ حالات چاڈ ، مالی ، گنی ، سوڈان اور میانمار جیسے پیدا نہ ہوں ۔

آج بھی پاکستان کی سیاسی قوتوں کے پاس موقع ہے ۔ وہ مہنگائی اور عوامی مسائل پر سمجھوتوں کے بغیر اپنی سیاسی حکمت عملی بنائیں ۔ وہ اقتدار کے حصول کیلئے ’’ ڈیل ‘‘ اور سمجھوتوں کی سیاست ترک کریں ۔ وہ نتائج کی پروا کئے بغیر عوام کا ساتھ دیں ۔ وہ عالمی مالیاتی اداروں اور ان کی سرپرست ملکی اور عالمی طاقتوں کے بنائے گئے ’’ سسٹم ‘‘ کے خلاف بغاوت کریں ۔ اس کیلئے انہیں اس سسٹم کی رائج کرپشن سے باہر نکلنا ہو گا تاکہ وہ ’’ احتساب ‘‘ کی جکڑ بندیوں سے نکل کر اپنے فیصلے کر سکیں ۔ اس کرپشن کی چھوٹ بھی سسٹم کی دی ہوئی ہے ۔ پاکستان کے عوام بے یارو مددگار ہو گئے ہیں۔ وہ انتشار ، انارکی اور انتہا پسند قوتوں کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ان کی سیاسی سمت تبدیل کرنے کے حالات پیدا ہو گئے ہیں ۔ عوام کی نمائندہ سیاسی قوتوں کو اپنے بوجھ اتار کر عوام کا ساتھ دینا ہو گا ۔ ورنہ روٹی ، روٹی ، روٹی کی چیخوں میں جمہوریت کا دفاع ممکن نہیں ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین