• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم سب بڑے بوڑھے ملتے جلتے حالات سے گزرتے ہیں۔ کچھ لوگ ہمیں عمر رسیدہ کہہ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمیں کسی کام کا نہیں سمجھتے۔ کچھ لوگ ہمیں بزرگ ہونے کے لقب سے سرخرو کرتے ہیں۔ خود بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑے ہوئے لوگ ہمیں خبطی کہتے ہیں۔ انگریز نے سب کا کام آسان کردیا ہے۔ انگریز اپنے اور دنیا بھر کے بوڑھوں کوSenior Citizenکہتے ہیں۔ زیادہ نہیں، کچھ نوجوان ہم بوڑھوں سے رابطے میں رہتے ہیں اور مختلف نوعیت کے سوال پوچھتے رہتے ہیں۔ ہم بوڑھوں کی اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں۔ ہم کچھ سوالوں کے جواب دیتے ہیں اور کچھ سوال ٹال جاتے ہیں۔ کچھ بوڑھے کسی سوال کا جواب نہیں دیتے اور کچھ بوڑھے ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر سوال کا جواب دینے میں دیر نہیں کرتے۔ میں بھی بغیر ہچکچاہٹ کے تمام سوالوں کے جواب دینے میں دیر نہیں کرتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں خود کو پھنے خان سمجھتا ہوں۔ میرے اکثر جواب پڑھ کر اور سن کر آپ محسوس کر لیں گے کہ اس نوعیت کے سوالوں کا جواب کوئی بھی دے سکتا ہے۔ مثلاً کسی نے پوچھا: مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے؟‘‘۔

میں نے کہا ’’مرنے جانے کے بعد واپس آکر بتاؤں گا‘‘۔ دوسرے کسی نے پوچھا ’’جب ہندوستان مغلوں کے زیر حکومت تھا تب برطانیہ میں کیمبرج اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں میں درس و تدریس کے دوران طلبا کو جدید علوم، سائنس اور ٹیکنالوجی سے لیس کیا جاتا تھا۔ مغلوں کے دورِ حکومت میں ہندوستان میں کتنے کالج اور یونیورسٹیاں تھیں اور ان میں کیا پڑھایا اور سکھایا جاتا تھا؟‘‘ میں نے کہا ’’مجھے نہیں معلوم‘‘۔اور کسی نے پوچھا ’’کیا تقسیمِ ہند سے پہلے ہندوستان میں مسلمانوں سے اس قدر نفرت کی جاتی تھی جس قدر بٹوارے کے بعد آج کل کی جاتی ہے؟‘‘۔میں نے فوراً کہا ’’مجھے نہیں معلوم۔ یہ سوال جاکر اپنے آباؤ اجداد سے پوچھو‘‘۔کسی نے سیاسی نوعیت کا سوال پوچھا ’’انگریز نے مسلمان حکمرانوں کو بےدخل کرنے کے بعد ہندوستان پر تسلط قائم کیا تھا۔ کیا یہ درست ہے؟‘‘۔

میں نے سر کھجاتے ہوئے کہا ’’مجھے نہیں معلوم‘‘۔ اسی شخص نے دوبارہ پوچھا ’’انگریزوں کو ہندوستان سے بےدخل کرنے کے لیے مسلمانوں نے منظم جدوجہد کیوں نہیں کی تھی‘‘۔میں نے فوراً کہا ’’مجھے نہیں معلوم‘‘۔ایک نوجوان نے پوچھا ’’آپ بھولتے جارہے ہیں یا پھر آپ جان بوجھ کر بھلانا چاہتے ہیں؟‘‘

میں نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’میں کچھ نہیں جانتا‘‘۔

نوجوان نے پوچھا ’’کچھ بتاتے ہوئے آپ کوڈر لگ رہا ہے؟‘‘۔

میں نے کہا ’’ پتہ نہیں‘‘۔

’’ اچھا یہ بتائیں‘‘، دوسرے کسی نوجوان نے پوچھا ’’زندگی ریلوے پلیٹ فارم پہ گزر جاتی ہے اس جملے سے آپ کی مراد کیا ہے؟‘‘

میں نے کہا ’’ہم سب ریلوے پلیٹ فارم پہ کھڑے ہوئے ہیں اور اپنی اپنی ٹرین کے آنے کا انتظار کررہے ہیں جو ہمیں نامعلوم منزل کی طرف لے جائے گی‘‘۔ہم سب کے اپنے اپنے مشاہدے ہوتے ہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ کچھ لوگ ہمیںOut Datedیعنی دقیانوسی سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔ ایسے لوگ آثار قدیمہ میں دلچسپی نہیں لیتے۔ کچھ لوگ آثار قدیمہ میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ کھنڈروں اور آثار قدیمہ سے گزرتے ہوئے ادوار کی تاریخ اور تمدن ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ وہ ہم سے عمیق نوعیت کے تحقیقی اور تفتیشی سوال پوچھتے ہیں۔ پلیٹ فارم، ٹرین اور نامعلوم منزل کے بارے میں سوال پوچھنے والے نوجوان نے کہا ’’آپ جس منزل کو نامعلوم منزل کا نام دے رہے ہیں، اس کے بارے میں بےشمار لکھنے والوں نے لکھا اور ہمیں بتایا ہے۔ آپ اس منزل کو نامعلوم منزل کیوں کہتے ہیں؟‘‘

میں نے ذہین نوجوان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’انسان ذات کی تاریخ سے ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی جس میں مرجانے کے بعد کسی شخص نے واپس آکر بتایا ہو کہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے‘‘۔

ایک متجسس نوجوان نے پوچھا ’’بقول آپ کے، کبھی آپ گیسٹ ہائوس میں رہتے ہیں اور کبھی آپ مسافر خانہ میں رہتے ہیں۔ آپ اپنے گھر میں کیوں نہیں رہتے؟‘‘۔’’سب گھر مسافر خانہ اور گیسٹ ہائوس ہوتے ہیں۔ ایک نہ ایک دن چھوڑنے پڑتے ہیں‘‘۔ میں نے کہا ’’کسی کے پاس ایسا گھر نہیں ہوتا جو اسے کسی دن چھوڑنا نہ پڑے‘‘۔

نوجوان نے پوچھا ’’آپ کا مطلب ہے کہ یہاں سب کچھ عارضی ہے؟‘‘۔’’ ہم عارضی ہوتے ہیں‘‘۔ میں نے کہا ’’مسافر خانے اور گیسٹ ہائوس بھی آخرکار عارضی نکلتے ہیں مگر ان کی بقا کی مدت لمبی ہوتی ہے۔ ہم اپنی مدت پوری کرنے کے بعد گیسٹ ہائوس چھوڑ جاتے ہیں۔ ہماری جگہ کوئی اور لے لیتا ہے‘‘۔

متجسس نوجوان نے پوچھا ’’آپ کے زیادہ تر ہم عصر اور ہم عمر گیسٹ ہائوس چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ کیسا لگتا ہے آپ کو؟‘‘۔ ’’مسافر خانے میں اجنبی اور غیر مانوس مسافر دکھائی دیتے ہیں‘‘۔ تفصیلی جواب پھر کبھی آپ سے شیئر کروں گا۔

تازہ ترین