• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمومی طور پر سوشل میڈیا اور بلاگرز کا صحافت اور آداب صحافت سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔۔۔ لیکن اس میڈیا کو ذریعہ اظہار بنانے والے صحافی خبر اور اس کی سچائی کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر بریک کرتے ہیں۔۔۔ پیشہ ور صحافی جو صحافتی اقدار اور آداب سے آگاہ ہوتے ہیں، ذہن کی اختراع، خواہش یا غیر مصدقہ معلومات کو خبر کی بنیاد نہیں بناتے بلکہ ثبوت اور مشاہدات کے تناظر میں بات کرتے ہیں۔۔۔ جو عموماً حکومت وقت کو گوارا نہیں ہوتی۔۔۔

ایک خبر یہ ہے کہ وزیراعظم نے مزاحمتی صحافت پر یقین رکھنے والے صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے۔۔۔ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کی گرفتاری کے لیے متعلقہ ریاستی اداروں کو دستاویزات اور مواد جمع کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔۔۔ ان حلقوں نے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ وزیراعظم نے صرف مزاحمتی صحافیوں کو نشانہ بناتے ہوئے سخت اقدامات اٹھانے کے لیے PECA میں ترامیم کی ہیں۔۔۔

جس کے تحت محکمہ انسداد دہشت گردی (CTD)، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کو PREVENTION OF ELECTRONIC CRIMES ACT کے ڈریکونین قانون کے تحت وسیع اختیارات دینے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔۔۔ PECA کا یہ کالا قانون ریاستی ظلم و جبر کو قانونی حیثیت دینے اور اسے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کے لئے مسلم لیگ (ن) کے دور اقتدار میں 11 اگست 2016 کو پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد نافذ ہوا۔۔۔لیکن موجودہ حکومت نے اس قانون کو اپنے سیاسی مخالفین، خصوصاََ مزاحمتی صحافیوں کے خلاف بے دریغ استعمال کر رہی ہے۔۔۔جس کے تحت مزاحمتی صحافی دن بدن اس کالے قانون میں جکڑے جا رہے ہیں۔۔۔PECA میں ہونے والی ترامیم سے یہ عندیہ ملتا ہے صحافی اور غیر صحافی میں تفریق اور تشریح کا اختیار حکومت کے پاس ہو گا۔۔۔جس کے تحت مزاحمتی صحافیوں کو غیر صحافی قرار دیا جا سکے گا۔۔۔اور حکومت کی کمزوریوں کو اجاگر کرنے والے صحافیوں کو غیر صحافی قرار دے کر PECA میں کی جانے والی ترامیم کے تحت سخت ترین سزائیں دی جا سکیں گی۔۔

۔۔۔تاپم صحافتی تنظیمیں مقامی اور ملکی سطح پر اس قانون کی زد میں آنے والے مزاحمتی صحافیوں کو بچانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔۔۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) , صحافیوں پر حکومت کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ کے خلاف آواز احتجاج بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔لیکن طاقت کے زور پر مخالف آوازوں کو دبانے پر یقین رکھنے والی حکومت کے فیصلہ سازوں تک پہنچنے سے پہلے ہی یہ آوازیں ٹوٹ جاتی ہیں۔۔۔

صحافی راہنماؤں کا ماننا ہے کہ حکومت کی موجودہ پالیسیوں کے نتیجے میں صحافیوں سے جیلیں تو بھرتی رہیں گی۔۔۔لیکن مزاحمتی صحافت کو ریاستی طاقت کے زور پر نہ تو روکا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس مزاحمت میں کمی ممکن ہے۔۔۔ لیکن یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ حکومت ایک اور صدارتی آرڈیننس کے ذریعے "توہین وزیراعظم" کا قانون نافذ کرنے پر غور کرے تاکہ آزادی اظہار اور آزادی صحافت پر قدغن ممکن ہو سکے۔۔۔

ریاستی طاقت پر بھروسہ کرنے والوں نے گزشتہ دنوں روزنامہ جناح اور آن لائین کے چیف ایڈیٹر محسن جمیل بیگ کی گرفتاری کے لیے ان کی رہائش گاہ پر مقامی پولیس اور ایف آئی اے کی مشترکہ ٹیم کی کارروائیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر حکومت کی مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کرنے کی منصوبہ بندیوں کی ابتدا کر دی ہے۔۔۔

ماہرین قانون 16 فروری کی صبح محسن بیگ کی رہائش گاہ پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب چھاپہ مارنے کے اقدام کو غیر قانونی فعل قرار دیتے ہیں۔۔۔حکومتی طاقت اور ریاستی اداروں کے غلط استعمال کی بحث ابھی جاری تھی کہ ایف آئی اے نے محسن بیگ کے خلاف کراچی میں ایک اور مقدمہ درج کر دیا۔۔۔جبکہ حکومت کی جانب سے ایک اور انتہائی قدم یہ اٹھایا گیا ہے محسن بیگ کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ آبپارہ 1988 میں درج ہونے والے مقدمہ دربارہ کھول کر تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔۔۔ یہ تمام غیر قانونی اقدامات PECA میں ترامیم کے ذریعے قانونی قرار پائیں گے۔۔۔

حکومت نے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی جانب سے دوران سماعت دئیے جانے والے ریمارکس اور فیصلے پر جج کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو باضابطہ شکایت کرنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔ لیکن چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ میں محسن بیگ کی جانب سے ان کے خلاف درج مقدمے کے اخراج کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس مسٹر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ "جج کو ڈرایا دھمکایا نہیں جا سکتا، حکومت جو کرتی ہے، کرنے دیں۔۔۔" جس کے بعد حکومتی حلقوں کی جانب سے محسن بیگ کے کیس میں جج کے خلاف ریفرنس دائر نہ کرنے کا ارادہ ظاہر کر دیا۔۔۔

قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ ایسی عدالتیں جو حکومت کی مرضی اور خواہش کے خلاف فیصلے کرتی ہیں، حکومت کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنتی ہیں ۔۔۔ اب شاید حکومت کی خواہش ہو گی کہ وہ ریاستی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قانون سازی کے ذریعے عدلیہ کو اس بات کی پابند کردے کہ سماعت کے دوران حکومتی موقف کو فوقیت دیتے ہوئے اس کی بنیاد پر فیصلہ کرے۔۔۔

ریاستی طاقت پر بھروسہ کرنے والوں نے گزشتہ دنوں محسن جمیل بیگ کی گرفتاری کے لیے ان کی رہائش گاہ پر چھاپوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں، صحافتی کمیونٹی کے ردعمل اور عدل کرنے والوں کی جانب سے اظہار ناپسندیدگی کے بعد اس مسئلہ کو مستقل طور پر حل کرنے اور ہر معاملہ اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لئے PECA کو مزید ڈریکونین بنا کر سوشل میڈیا کو قانون کے دھارے میں لانے کے نام پر مزاحمتی صحافت پر یقین رکھنے والے صحافیوں کو نشانہ بنانے کےلئے اسے اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق ڈھال لیا۔۔۔جس کے تحت سوشل میڈیا مواد اور جعلی خبریں شائع کرنا قابل تعزیر جرم کی حیثیت اختیار کر گیا۔۔۔اور کسی بھی شہری کی شکائت پر کسی بھی خبر کو فیک قرار دیا جا سکتا ہے۔۔۔جس کے لئے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔۔۔لیکن اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے خبر کو درست یا فیک قرار دینے کا اختیار کس کے پاس ہو گا۔۔۔؟؟؟

shakeel.anjum74@gmail.com

تازہ ترین