• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوری استحکام کیلئے مفاہمت سے بھی آگے جانا پڑے گا

پاکستان اپنی سیاسی تاریخ کا ایک اور سنگ میل عبور کرنے جارہا ہے، جس پر پاکستانی قوم بجا طور پر فخر کر سکتی ہے ۔ اپنی آئینی مدت پوری کرکے سبکدوش ہونے والے صدر مملکت آصف علی زرداری کے اعزاز میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے وزیر اعظم ہاوٴس میں الوداعی ظہرانہ دیا اور انہیں باوقار طریقے سے رخصت کیا ۔ آصف علی زرداری کی جگہ نو منتخب صدر ممنون حسین اپنے عہدے کا حلف اٹھانے جا رہے ہیں ۔ اس طرح جمہوری انداز میں انتقال اقتدار کا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے ۔ قبل ازیں پاکستان نے اپنی سیاسی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل اس وقت عبور کیا تھا جب ایک منتخب جمہوری حکومت نے اپنے پانچ سال مکمل کئے اور عام انتخابات کے ذریعہ دوسری منتخب حکومت وجود میں آئی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب جمہوری حکومت سے دوسری منتخب جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل ہوا ہے اور پہلی مرتبہ ایک منتخب صدر اپنی آئینی مدت پوری کرکے باعزت طریقے سے رخصت ہورہا ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا یہ کہنا درست ہے کہ صدر کو باوقار طریقے سے رخصت کرکے ایک تاریخ رقم کی گئی ہے۔ الوداعی ظہرانے سے خطاب کے دوران صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کے لئے مل کر کام کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے لیکن اس مرحلے پر یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا صرف سیاسی مفاہمت اور خیر سگالی کے جذبے سے جمہوریت اور جمہوری اداروں کو درپیش خطرات سے نمٹا جا سکتا ہے؟
سبکدوش ہونے والے صدر آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ مفاہمت سے ہی تمام چیلنجوں کا سامنا کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ پاکستان کو ایک مضبوط اور خوشحال ملک بنانے کے لئے وہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی قیادت میں کام کریں گے ۔ وہ سیاست پانچ سال بعد کریں گے ، جب وزیر اعظم آئندہ عام انتخابات کا اعلان کریں گے ۔ زرداری صاحب کی اس بات میں وزن ہے کیونکہ ان کے مخالفین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی مفاہمت کی پالیسی کی وجہ سے پاکستان میں جمہوری تسلسل قائم رہا اور غیر جمہوری قوتوں کو عوام کے اقتدار اعلیٰ پر براہ راست قبضہ کرنے کا جواز میسر نہیں آیا لیکن زرداری صاحب کی طرف سے مفاہمت کی اس خواہش کو بعض حلقے دوسرا رنگ دے رہے ہیں۔ مذکورہ حلقے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ زرداری صاحب مقدمات سے بچنے کے لئے مفاہمت کو بطور ”سیاسی ڈھال“ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ان حلقوں کے پروپیگنڈے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ مفاہمتی پالیسی کی مخالفت نہ صرف موجود ہے بلکہ طاقت کے کچھ اہم مراکز سے اس مخالفت کو مزید ہوا دی جا سکتی ہے۔ کچھ لوگ یہ طنز بھی کر رہے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ پانچ سال ”فرینڈلی اپوزیشن“ کا کردار ادا کیا اور اب آصف علی زرداری آئندہ پانچ سال یہی کردار ادا کریں گے۔ کچھ دیگر لوگ یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ مفاہمت کی آڑ میں لوٹ مار کرنے والوں کو احتساب سے بچانے کے وعدے کئے جا رہے ہیں ۔ اس بات کا بھی خدشہ موجود ہے کہ احتساب کے نام پر کچھ قوتیں ایسے حالات پیدا کر دیں گی جن کی وجہ سے مفاہمت کا سلسلہ ٹوٹ سکتا ہے۔ اس بات کے بھی قوی امکانات موجود ہیں کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف پیپلزپارٹی کے رہنماوٴں خصوصاً آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کھولنے کے لئے دباوٴ کو شاید زیادہ عرصے تک برداشت نہیں کرسکیں گے اور نہ ہی طاقتور حلقوں کے خلاف مزاحمت کرسکیں گے لہٰذا جمہوریت سے پہلے مفاہمت کو شدید خطرات لا حق ہیں۔
الوداعی ظہرانے میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا ہے کہ حکومتیں ووٹ سے آنی اور جانی چاہئیں۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں غیر آئینی تبدیلی کی راہ روکنے کی بنیاد رکھ دی گئی ہے لیکن پاکستان کے عوام یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ انتخابات ہونے کے باوجود حکومتیں نہ ووٹ سے آتی ہیں اور نہ ووٹ سے جاتی ہیں ۔ 2013ء کے عام انتخابات نے انتخابی عمل اور ووٹ کی طاقت پر عوام کے اعتماد کو اور زیادہ مجروح کردیا ہے۔ سیاسی قیادت اگرچہ بڑے اعتماد کے ساتھ یہ بات کہہ رہی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت مستحکم ہو رہی ہے مگر پاکستان کے موجودہ حالات میں عوام ان کی اس بات سے اتفاق کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ میاں محمد نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری سے زیادہ اس حقیقت سے کون واقف ہو گا کہ انتخابات محض دکھاوا ہوتے ہیں اور پاکستان میں اقتدار کے معاملات کہیں اور طے ہوتے ہیں۔ اگر صرف ووٹ سے ہی حکومتیں قائم ہوتیں یا ختم ہوتیں تو پھر پاکستان میں صورتحال دوسری ہوتی۔ آج بھی پاکستان میں بظاہر انتخابی عمل سے قائم ہونے والی حکومتیں اپنی مرضی کے کوئی فیصلے نہیں کرسکتی ہیں۔ ان کا خارجہ پالیسی میں عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ داخلی سطح پر بھی ” جمہوری “ حکومتیں بے بس ہیں۔ ملک بھر میں روزانہ درجنوں بے گناہ افراد دہشت گردی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لئے سیاسی حکومتیں جو پالیسیاں بناتی ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ان کی پالیسیاں نہیں ہیں۔ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کی حالیہ پالیسی اس کی ایک واضح مثال ہے۔ ایسی پالیسیوں کا نہ کوئی پہلے نتیجہ نکلا تھا اور نہ ہی آئندہ کوئی نتیجہ نکلے گا۔ سیاسی حکومتوں کے اقدامات محض دکھاوا ہوتے ہیں۔ آج بھی پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے درست اپروچ اختیار کرنے کی نہ تو پوزیشن میں ہے اور نہ ہی کوئی گہرے پانیوں میں اترنے کے لئے تیار ہے۔ بجلی اور گیس کے ٹیرف مقرر کرنے اور نئے ٹیکس لگانے کا اختیار بھی حکومتوں کے پاس نہیں ہے اور وہ عالمی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن کو قبول کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ پہلی مرتبہ پُرامن جمہوری انتقال اقتدار کا مرحلہ مکمل ہوا ہے لیکن جمہوری قوتوں کے ہاتھ میں بہت سے اہم معاملات نہیں ہیں ۔
مفاہمت کی پالیسی اگرچہ غیر جمہوری قوتوں کے لئے موزوں نہیں ہے لیکن حالات بتاتے ہیں کہ جمہوری قوتیں بھی مضبوط نہیں ہیں۔ انہیں مفاہمت سے آگے بڑھ کر کچھ کرنا ہو گا۔ سب سے پہلے مفاہمت کی فضا کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ اس کے بعد معاملات پر اپنی گرفت حاصل کرنے کے لئے سیاسی قوتوں کو جدوجہد اور مزاحمت کی مشترکہ حکمت عملی بنانا ہو گی۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کو ، جو اپنے آپ کو جمہوری کہتی ہیں ، روایتی سیاست سے کنارہ کشی کرنا ہوگی ۔ سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ حالات کا ازسرنو تجزیہ کریں اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ واضح نظریات کے ساتھ عوام کے پاس جائیں۔ ہر پارٹی میں چند افراد کی اجارہ داری کا کلچر ختم ہونا چاہئے۔ پارٹیوں کی ازسرنو تنظیم ہونی چاہئے اور جمہوری، ترقی پسندانہ اور روشن خیالی والی اپروچ کے ساتھ عوام کو نظریاتی سیاست میں دوبارہ ملوث کرنا چاہئے کیونکہ عوام سیاست سے لاتعلق ہورہے ہیں اور انتہا پسندی کی لپیٹ میں آتے جا رہے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کو کرپشن کا بھی خاتمہ کرنا چاہئے اور بلا امتیاز احتساب کا قابل اعتبار نظام وضع کرنا چاہئے۔ سیاسی پارٹیوں پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کو گڈ گورننس بھی دیں ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو جمہوریت کے استحکام کے لئے صرف مفاہمت کافی نہیں ہے کیونکہ مفاہمت خود خطرات سے دو چار ہے ۔
تازہ ترین