امریکہ کی شام پر فوجی کارروائی کا آسیب تنزلی کی جانب گامزن نہیں حالانکہ اس بابت اسکے یورپی اتحادیوں اور برطانوی پارلیمنٹ نے اس مداخلت کی شدید مخالفت کی ہے۔ صدر باراک اوبامہ نے فوجی کارروائی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کی منظوری کے بعد امریکہ حملے کیلئے تیار ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ واضح کردیا کہ اس ضمن میں انہیں اقوام متحدہ کی اجازت کی ضرورت ہے نہ ہی اقوام متحدہ کے ہتھیاروں کے انسپیکٹر کی مرتب کردہ رپورٹ کی۔ صدر اوبامہ نے کہا کہ وہ 21 اگست کو دمشق میں کیمیائی حملے کے ردعمل میں مختصر کارروائی پر غور کررہے تھے جس کے حوالے سے انہوں نے بشار الاسد کی حکومت پر الزام لگایا۔ اس ضمن میں شدید کارروائی پر زور دینے کیلئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے دعویٰ کیا کہ اس بات کے واضح اور مدلل شواہد موجود ہیں کہ شامی حکام نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے جس سے 1400 افراد ہلاک ہوئے۔ انہوں نے تسلیم کیا امریکی عوام جنگ سے اکتاگئے ہیں تاہم انہوں نے زور دیا کہ تھکان کا عمل امریکہ کو کیمیائی ہتھیاروں کے قانون کے نفاذ کی ذمہ داری سے مبرا نہیں کرتا، کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی ہے۔
فوجی کارروائی کا یہ انتباہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ اقوام متحدہ کے انسپکٹرز کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے اپنی تحقیقات مکمل کررہے ہیں اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی امن کو موقع دینے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے انسپکٹرز کی جانب سے شواہد کا جائزہ لینے کے بعد رپورٹ پیش کرنے تک کارروائی میں تاخیر کا مطالبہ کیا ہے، جس پر عمل میں تین ہفتے لگ سکتے ہیں، لیکن جان کیری ان استدعاوٴں کو ایک طرف کرتے ہوئے نظرآتے ہیں، وہ امریکہ کی خفیہ معلومات کے حوالے سے پُراعتماد دعوے کرتے ہیں اور اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے انسپکٹرز کو کسی کو مُورد ِالزام ٹہرانے کا اختیار نہیں ہے۔
امریکی حملے کے آثار بڑھ رہے ہیں دوسری جانب ایران اور روس نے خبردار کیا ہے کہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوگیجبکہ چین کا کہنا ہے کہ یکطرفہ کارروائی سے مشرق وسطیٰ کی صورتحال میں مزید ابتری آئیگی، جس سے شام کے مسئلے کو حل کرنا مزید مشکل ہوجائے گا۔ صدر ویلادیمیر پوٹن نے شامی حکومت کے ملوث ہونے کے حوالے سے امریکی خفیہ رپورٹس کے الزام کو مسترد کردیا اور مطالبہ کیا ہے کہ کوئی بھی انتہائی اقدام اٹھانے سے قبل شواہد سیکیورٹی کونسل میں پیش کیے جائیں۔ اسی روش پر چینی وزیر خارجہ کا بھی کہنا ہے کہ حقائق کو جانچنا کارروائی کیلئے پیشگی شرط ہے۔ لیکن یہ التجائیں بھی امریکہ کو اپنی خفیہ اطلاعات(چار صفحات پر مشتمل رپورٹ) کے جائزے پر انہیں طاقت کے استعمال کیلئے کافی قرار دینے سے نہ روک سکیں۔ امریکہ کے اس رویئے اور شواہد کے یکطرفہ جانچے جانے نے 2003 ءء میں بش انتظامیہ کی جانب سے غلط خفیہ اطلاعات پر عراق پر تباہ کن حملے کی یادیں تازہ کردیں جنہیں اس حملے کیلئے بطور تمہید استعمال کیاگیا تھا اور یہ حملہ اقوام متحدہ کی حمایت حاصل کیے بغیر کیا گیا تھا۔
شام پر فوجی کارروائی کے امکانات سے اسکی قانونی حیثیت، شواہد کی بنیاد ، حکمت اور فوجی حملے کے نتائج پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔بنیادی طور پر اور سب سے پہلے امریکہ کی جانب سے طاقت کے استعمال کا راستہ اخیتار کرنا اقوام متحدہ کی شدید مخالفت ہے کیونکہ اقوام متحدہ کے انسپکٹرز کی جانب سے شامی حکام کے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ثابت ہونے پر اقوام متحدہ کے پاس ردعمل کے طور پر کئی ٹھوس اقدامات کی راہ موجود ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال انسانیت کے خلاف جرم ہے لیکن بین الاقوامی قانون کے مطابق صرف سکیورٹی کونسل ہی سزا دے سکتی ہے اور ریاستیں انفرادی طور پر کسی ریاست کو خود سزا نہیں دے سکتیں۔ اوبامہ کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال(جس نے انہیں کارروائی کی سبیل فراہم کی) کے حوالے سے سرخ لکیر کیھنچنے نے انہیں تنہا کردیا ہے۔ ان کے خود ساختہ دباوٴ نے انہیں اس موقف کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے کہ جب تک امریکہ عسکری طور پر شام میں مداخلت نہیں کرے گا تب تک اسکی قابل اعتباری پر شکوک کے بادل منڈلاتے رہیں گے، تاہم یہ بنیاد جنگ کا جواز فراہم نہیں کرتی۔ اس مشکل سے نکلنے کا راستہ یہ ہے کہ واشنگٹن کو اقوام متحدہ کے ساتھ کام کرتے ہوئے شام کو اقوام متحدہ کے ذریعے سزا دلوانے پر زور دینا چاہیے وہ بھی اس وقت جب اگر شام کا جرم پوری طرح ثابت ہوجائے۔ لیکن اوبامہ نے اس راستے کا انتخاب نہیں کیا۔ اسکے بجائے امریکہ نے یکطرفہ طور پر بشارالاسد کو قصور وار گردانا اور اسکے حملے کی معقول بنیاد سمجھا، جس سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ واشنگٹن کے شام میں مداخلت کرنے کے فیصلے کے پیچھے جغرافیائی تذویری سوچ بھی کارفرما ہوسکتی ہے، کم از کم ان مشیروں کی جانب سے جو کہ اوبامہ کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ اس زاویے سے شام کے خلاف کارروائی کی نیت ایران کیلئے بھی اشارہ ہوگی۔ وسیع تر جغرافیائی سیاسی منظر نامے پر شامی حکومت کے کمزور ہونے سے اسکے طاقتور اتحادی یعنی ایران اور حزب اللہ بھی کمزور ہونگے اس طرح ان کی جانب سے اسرائیل کو درپیش خطرات زائل ہوجائیں گے۔
مزید برآں، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے قانون کے نفاذ کیلئے مستقبل میں کسی ریاست کے خلاف جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے بھی فوجی کارروائی کی مثال بھی قائم ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ ایک بااثر امریکی نے لکھا ہے کہ’ یہ لازمی ہے کہ شام کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی سرخ لکیر عبور کیے جانے سے ایران کے حوالے سے اس قسم کی لکیر دھندلی نہیں ہوجاتی‘۔ لیکن کیمیائی ہتھیاروں کے عدم استعمال اور ایران سے جوہری عدم پھیلاوٴ(این پی ٹی) کے حق سے دستبرداری کے مطالبے(کہ وہ جوہری افزودگی کے عمل کو روک دے) میں کوئی قانونی ربط نہیں ہے، جس مقصد کیلئے امریکہ شام پر عسکری کارروائی کرنا چاہتا ہے۔ یہ دلیل بالکل غلط ہے کہ اگر اوبامہ شام پر حملے کی دھمکی کو عملی جامہ نہ پہنائے تو تہران یقین کرلے کے مستقبل میں اس پر حملہ نہیں کیا جائیگا۔اسنوڈن معاملے کی وجہ سے روس اور امریکہ کے مابین بڑھتے ہوئے تناوٴ کے پس منظر کے برخلاف، بشارالاسد کو کمزور کرنا یا اقتدار سے علیحدہ کرنا، ماسکو کو مشرق وسطیٰ میں باقی ماندہ اتحادیوں سے بھی محروم کردے گا اور خطے کی حریف طاقتیں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھانے کیلئے کافی عرصے سے شام کے خلاف کارروائی پر زور دے رہی ہیں۔ خطے کے منظر نامے کے یہ خدوخال رقابتوں اور تناوٴ کے عکاس ہیں، جن سے عسکری مداخلت کے باعث بھڑکنے کا اندیشہ ہے۔ امریکی حکام کا اصرار ہے کہ فوجی مداخلت کا مقصد حکومت کی تبدیلی یا شامی خانہ جنگی میں کسی فریق کی طرفداری نہیں ہے بلکہ شامی حکومت کو سزا دیکر کیمیائی ہتھیاروں کے عدم استعمال کے قانون کا نفاذ ہے تاکہ مستقبل میں وہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال نہ کرے۔ لیکن فوجی حملے سے متوقع طور پر خانہ جنگی میں ملوث فریقین میں عدم توازن پروان چڑھے گا جس سے بالواسطہ طور پر باغیوں کو مدد ملے گی اور یہ تنازعہ خطے میں پھیل جائے گا جس کے غیر یقینی نتائج مرتب ہونگے۔
شام کے اتحادیوں کے اسرائیل کے خلاف متوقع جوابی ردِعمل کو دیکھتے ہوئے یہ دلیل بے وزن ہے کہ احتیاط کے ساتھ فوجی کارروائی سے بعد میں مرتب ہونے والے اثرات کو محدود کیا جاسکتا ہے یا ان سے بچا جاسکتا ہے جبکہ شام میں انتشار طول پکڑ سکتا ہے۔ یہ منظرنامہ شام کے مسلح باغیوں میں سلفی فرقے اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے مقامی افراد کو قوت بخش سکتا ہے، ایسی صورتحال بمشکل ہی واشنگٹن چاہے گا جوکہ اسکی کارروائی سے پیدا ہوگی۔ فوجی حملے سے پہلے ہی عدم استحکام کی شکار صورتحال میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہوں گی جس کے خطے کے امن اور امریکہ کے اپنے مفادات کے حوالے سے دوررس نتائج مرتب ہونگے۔ امریکہ کے اتحادیوں کی جانب سے جنگ پر زور دیئے جانیو الے موقف اور اسکی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان ہیں جس سے قانون پر یکطرفہ نفاذ کی خطرناک مثال قائم ہوگی۔ روس اور چین کی مخالفت مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل( یو این ایس سی) فوجی کارروائی نہیں چاہتی، امریکہ کے کارروائی کے موقف کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی اسکی بین الاقوامی قانون میں کوئی جگہ ہے۔ فوجی کارروائی کی اسی صورت میں اجازت ہے جبکہ وہ دفاع کیلئے کی جائے یا اسے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی حمایت حاصل ہو۔ جہاں تک فوجی کارروائی کے چند حامیوں کی جانب سے اصولوں کا تحفظ کرنے کی ذمہ داری کا تعلق ہے تو انسانی حقوق کیلئے کی جانے والی مداخلت کو بھی سکیورٹی کونسل کی منظوری درکار ہوتی ہے اور یہ سکیورٹی کونسل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یکطرفہ طور پر نہیں کی جاسکتی۔ آخر کار اقوام متحدہ کے انسپیکٹرز کی رپورٹ سکیورٹی کونسل میں پیش کی جائیگی، لہٰذا سکیورٹی کونسل کے جانب سے شواہد کا جائزہ لینے سے قبل فوجی کارروائی قانونی نہیں ہوگی۔ واشنگٹن کی جانب سے عسکری مہم کو محدود رکھنے کا وعدہ کیا جارہا ہے لیکن اس سے بھی اسکی توثیق نہیں ہوتی۔حالانکہ شام میں گزشتہ ڈھائی سال سے جاری خانہ جنگی میں بشارالاسد کی کارروائیاں کسی ہمدری کی مستحق نہیں ہیں لیکن اس سے بیرونی عسکری مداخلت کا جواز پیدا نہیں ہوتا۔ ناسمجھی میں زیرغور عسکری کارروائی کے پیش منظر میں قلیل مدتی اور دوررس خطرات کو نظرانداز کردیا گیا جس سے خطے کی صورتحال میں مزید شعلے بھڑکنے کا خطرہ ہے، ساتھ ہی یہ بھی امکان ہے کہ فوجی کارروائی سے فرقہ وارانہ کشیدگی خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
صدر اوبامہ نے خود بھی تسلیم کیا ہے کہ فوجی حملے شام کے بنیادی مسائل کے حل کیلئے بے سود ہیں، جس سے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ اقوام متحدہ کی حمایت سے (جنیواII پراسس کے تحت) اس کا سیاسی حل نکالا جائے۔ رواں برس اس حوالے سے امریکہ اور روس کی جانب سے شام کے متحارب فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے امن کی مشترکہ تجویز مرتب کی گئی تھی۔ اس زیر التواء کانفرنس کے انعقاد کیلئے اور جنگ بندی کرانے کیلئے سفارتی کوششوں کی تجدید کو طاقت کے استعمال کا راستہ اختیار کرنے پر فوقیت دینی چاہیے۔ فوجی کارروائی سے شام کے بحران کے مذاکرات پر مبنی حل کے امکانات بہتر ہونے کے بجائے ابتری کا شکار ہوں گے۔