• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیپلز پارٹی ہمیشہ عوامی حکومت کا دعویٰ لیکر اقتدار میں آئی لیکن اس کے سابقہ دور حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے گزشتہ پانچ سال عوامی حکومت کانام بدنام کرنے میں لگائے۔ اب کچھ ایسا ہی تاثر مسلم لیگ ن کی حکومت کے پہلے سو دنوں کی کارکردگی کے حوالے سے بھی جنم لے رہا ہے۔ اس لئے آئندہ سے عوامی حکومت کا ٹائٹل ن لیگ کیلئے بھی استعمال ہونا چاہئے۔ اس عوامی حکومت نے ان سو دنوں میں تین مرتبہ پٹرول کی قیمتیں بڑھائیں، جس کے بعد ہر چیز مہنگی ہوگئی،اس کا ثمر صرف عام لوگ ہی حاصل کر سکے ہیں خاص لوگوں کو اس سے قطعاً کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس عوامی حکومت نے ایسا انتظام کیا کہ ڈالر کی قیمت 95روپے سے بڑھ کر 104روپے ہوگئی ہے۔ اب اگر کسی عام آدمی کے پاس ایک ڈالر تھا تو اسے گھر بیٹھے بیٹھے سو دنوں میں 9روپے کا فائدہ ہوگیا ہے۔ اگر کسی غریب کے پاس ایک ڈالر نہیں تھا تو یہ اس کی بدقسمتی ، حکومت کیا کر سکتی ہے ۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہوگی تو پتہ چلے گا فی الحال اس کی قیمتوں میں حکومت مسلسل اضافہ کر رہی ہے اور بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کو آئی ایم ایف کے حکم پر ختم کیا جا رہاہے۔ جب ن لیگ نے عنان حکومت سنبھالی تو 20کلو آٹے کا ریٹ 670 روپے تھا جو ایک سو دنوں میں بڑھ کر 785روپے کا ہوگیا۔ اس طرح فی من 230روپے قیمت بڑھی ہے لیکن حکومت نے یہ سب کچھ نیک نیتی سے کیا ہے اور اس کا فائدہ عوام کو پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ آیئے آپ کو تفصیلات سے آگاہ کریں۔
پیپلز پارٹی نے پانچ برسوں میں گندم کے نرخ 625روپے فی من سے بڑھا کر 1200روپے تک کیا تھا اب موجودہ حکومت نے گندم کی فی من قیمت 1330 روپے کی ہے جو آخر کار 1400روپے من ملے گی اور آٹا جو تین مہینے پہلے 30روپے کلو تھا وہ 40روپے کلو ہوگیا ہے اور آئندہ چند مہینوں میں یہ پچاس روپے کلوتک بکے گا کیونکہ یہ ابھی سے عام مارکیٹ میں 45روپے کلو بکنا شروع ہو گیا ہے۔ آٹے کی قیمت بڑھانے کے لئے ایک منظم سازش کے تحت پلان تیار کیا گیا جس میں مبینہ طور پر فلور ملز ایسوسی ایشن نے اپوزیشن لیڈر سے دوستی نبھاتے ہوئے سستی گندم لے کر ذخیرہ کیا۔ یہ گندم1150روپے فی من خریدی گئی اور ان عناصر نے گندم کو1450روپے اور 1500سو روپے فی من بیچنے کی منصوبہ بندی کی۔ حکومت نے رمضان المبارک میں تو فلور ملز کو سستا آٹا فراہم کرنے کے لئے گندم فراہم کی مگر عید کے بعد گندم کی یہ سپلائی اسی منصوبہ کے تحت بند کر دی گئی اور ملک میں گندم کا مصنوعی بحران پیدا کر دیا گیا حالانکہ اس وقت بھی حکومت پنجاب کے پاس آئندہ سیزن شروع ہونے تک کی ضرورت کے لئے 40 لاکھ ٹن گندم نہ صرف موجود ہے بلکہ اضافی 5سے 7لاکھ ٹن گندم بھی ہے۔ صوبہ سندھ کے پاس 10لاکھ ٹن ، خیبرپختونخوا کے پاس 6ہزار ٹن اور پاسکو کے پاس 22 لاکھ ٹن جبکہ اوپن مارکیٹ میں دس لاکھ ٹن کے قریب گندم موجود ہے۔ اس وجہ سے ملک میں پورا سال گندم کا بحران نہیں ہو سکتا تھا مگر 1998ء کی طرح ایک سازش کے تحت یہ سب کچھ وزارت خوراک کے سامنے ہو رہا ہے اور بعض شہروں میں مبینہ طور پر فلور ملز ایسوسی ایشن کے چند افراد ذخیرہ اندوز ہیں۔ اس وقت رحیم یار خان کی چند ملوں کے پاس 55لاکھ، ملتان کی دو ملوں کے پاس 6لاکھ ، بہاولپور کی تین ملوں کے پاس 10لاکھ اور لاہور، گوجرانوالہ اور گجرات کی چند ملوں کے پاس 15لاکھ سے زائد گندم کی بوریاں ہیں۔ حکومت نے گندم فی من جو ریٹ 1330روپے مقرر کیاہے اس سے فی بوری ان کا منافع 750روپے ہوگیا ہے جس سے عوام خود انداز کر سکتے ہیں کہ ان ذخیرہ اندوزوں نے کتنے کروڑوں روپے کا منافع ان دو مہینوں میں کمالیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک کے مطابق چند سال پہلے پاکستان میں ہر شخص سالانہ 124کلو گرام گندم استعمال کرتا تھا ۔ اس کی مقدار اب سالانہ 140کلو گرام کے قریب ہو گئی ہے۔ اس طرح اب اسے مہنگا آٹا خریدنے کے ساتھ ساتھ زیادہ آٹا خریدنا پڑے گا اور اس کا سالانہ بجٹ بہت زیادہ متاثر ہوگا۔صوبائی وزیر بلال یٰسین نے اعلان کیا ہے کہ دو روپے کی روٹی سے حکومت کو بہت نقصان ہوا ہے اب روٹی6روپے کی ہوگی۔ دوسری طرف حکومت پنجاب کے وزیر رانا ثناء اللہ نے ایک پریس کانفرنس میں بڑے فخریہ انداز میں یہ کہا کہ حکومت نے گندم کی جو قیمت بڑھائی ہے اس سے اسٹاک میں موجود گندم سے حکومت کو 13ارب روپے منافع ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ اب حکومت آٹے پر صرف 18ارب روپے کی سبسڈی دے گی، بعض ایسی معلومات بھی ملی ہیں کہ حکومت پنجاب نے اپنے پانچ سالہ دور میں آٹے پر سبسڈی کو یکسر ختم کرنے کاپلان بنایا ہے۔ اس وقت حکومت 28ارب کی سبسڈی دے رہی ہے موقف یہ اختیار کیا گیا ہے کہ یہ سبسڈی پوش علاقوں میں اور مہنگے ہوٹلوں میں بھی دی جارہی ہے اس لئے اسے ختم کر کے ” ٹارگٹڈ سبسڈی“ دی جائے گی۔ پہلے برس میں جنرل سبسڈی کی مد میں 20ارب جبکہ ٹارگٹڈ میں 8ارب روپے رکھے جائیں گے اور اسی طرح ہر سال یہ سبسڈی کم کرتے کرتے ختم کر دی جائے گی اور پنجاب کے ایک کروڑ 56لاکھ غریب افراد جن کا ڈیٹا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں درج ہے صرف انہیں سبسڈی فراہم کی جائے گی ۔ محکمہ فوڈ پنجاب کے اس پلان سے چیف سیکرٹری نے مکمل اتفاق کیا ہے۔ ایک طرف ن لیگ کی عوامی حکومت یہ پروگرام بنارہی ہے جبکہ دوسری طرف بھارت کی جمہوری حکومت عام لوگوں کو 3روپے فی کلو گندم فراہم کرنے کے لئے اربوں روپے سبسڈی دے گی۔ پنجاب کے بجٹ میں اس سال 28ارب روپے ، آٹا سستا رکھنے کی مد میں رکھا گیا ہے جبکہ صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ نے اعلان کیا ہے کہ آٹے کی مد میں 18ارب روپے سبسڈی دی جائے گی۔ اب گندم مہنگی کرنے کی مد میں پنجاب حکومت کو جو13 سے 14ارب روپے حاصل ہوں گے اور ان 28ارب میں سے 18ارب کی سبسڈی کے نکال کر باقی جو دس ارب ہوں گے ان کو ملا کو کل جو 24ارب روپے کے قریب ہونگے جن سے عوام کو ریلیف دیا جا سکتا تھا کیا وہ لوٹ مار میں ختم کر دیئے جائیں گے؟ اس لئے وزیراعلیٰ پنجاب کو آٹے کے معاملے میں بڑی سنجیدگی اور دانشمندی سے ڈیل کرنا چاہئے۔ نہیں تو 1998ء کی طرح آٹے کا شدید بحران پیدا ہوگا انہیں اپنے اردگرد لوگوں پر بھی نظر رکھنی چاہئے جو بعض حکومت مخالف سازشی لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور وزیراعلیٰ سے جس طرح سستی روٹی کا فیصلہ کرایا گیاتھا آج گندم مہنگی کرا کے غریب آدمی کے منہ سے نوالہ چھیننے کی سازش میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف یہ پیغام پہنچا رہے ہیں کہ ہم نے حکومت سے گندم کی قیمت میں اضافہ کراکے اپنا مشن مکمل کر لیا ہے۔ یہ لوگ وزیراعلیٰ کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ہم نے اربوں روپے کی بچت کر لی ہے۔ یہ بچت حکومت کو بہت مہنگی پڑ سکتی ہے۔
تازہ ترین