• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنی موجودہ حکومت کے 90دن گزرنے کے بعد وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کراچی تشریف لائے اور شہر کی غیرمستحکم صورتحال پر غور و خوص کیلئے انہوں نے کراچی کی تمام متعلقہ سیاسی، سماجی اور مذہبی پارٹیوں کے عہدیداران سے گورنر ہاوٴس میں طویل ملاقات کرکے ان سب کے خیالات تفصیل سے سنے، جنہوں نے کراچی کی مخدوش صورتحال جس میں دہشت گردی ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان ، معصوم جانوں کا ضیاع رکوانے کے لئے کراچی میں لا اینڈ آرڈر اور امن بحال کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ 1992ء کی طرز کا آپریشن ہوگا یا پولیس اور رینجرز کے ذریعے ہوگا ۔
آپریشن سے پہلے راقم کراچی کی صورتحال پر گزشتہ 5سال کی کارکردگی کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہے جس سے کراچی کا باشندہ اس سے آگاہ ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی، پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کی ناکامی کی کھلی داستانوں کی طرح عیاں ہے۔ جس میں وفاقی حکومت اور سندھ کی صوبائی حکومت جس میں کراچی میں بسنے والوں کی تمام نمائندہ سیاسی جماعتیں ایم کیو ایم ، اے این پی ، مسلم لیگ (فنکشنل ) اور پی پی پی اتحادی تھیں اور سب کے مشترکہ مطالبات تھے کہ کراچی میں ہر صورت میں امن قائم ہو مگر حقیقت اس سے بالکل برعکس تھی۔ تمام جماعتوں کے عہدیداران درپردہ اپنے اپنے علاقوں میں بدامنی پھیلانے میں پیش پیش تھے۔ پی پی پی کی طرف سے امن کمیٹی سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کی پشت پناہی میں متعارف کرائی گئی جس نے دیگر تمام پارٹیوں کو پیچھے چھوڑ دیا اور اس کے بعد تو مذہبی اور چھوٹی موٹی لسانی تنظیمیں اور بیروزگار نوجوانوں کے گروہ بھی اپنے اپنے علاقوں میں کھلم کھلا بھتہ وصول کرنے کے لئے میدان میں اتر گئے۔ اس وجہ سے پولیس رینجرز دنوں ہی درپردہ خاموش بیٹھ گئے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جب بھی کوئی دہشت گرد پکڑا جاتا تھا تو اوپر سے فونوں کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو جاتیں اور وہ چند ہی دنوں میں رہا کر دیا جاتا تھا۔
اس کی وجہ اس کے درپردہ حکومتی اتحادی تھے، پولیس کی ناکامی ، رینجرز کی مایوسی سے فائدہ اٹھا کر جرائم کم ہونے کے بجائے اب دن دہاڑے عوام کی موجودگی میں ہونے لگے۔ تاجر اور صنعت کار ان کے نشانے پر تھے۔ وہ سب سہمے اپنی عزت ، دولت اور گھر والوں کی سلامتی خریدنے کے لئے مجبور ہو چکے ہیں۔ پولیس تھانے خود دہشت گردوں سے محفوظ نہ تھے ۔ پورا کراچی ان کے ہاتھوں بری طرح یرغمال بنا ہوا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سب اتحادی اس پر قابو نہیں پا سکے تو مسلم لیگ (ن) جس کی صوبہ سندھ میں حکومت بھی نہیں ہے محض وفا کے نام پر اسی پولیس اور اسی رینجرز سے کیسے دہشت گردی ، بھتہ خوری ، اغواء ، لوٹ مار جو اس صوبے میں کامیاب کاروبار بن چکا ہے، کیسے ختم کر سکے گی۔ ابھی میاں نواز شریف صاحب کی میٹنگیں اور آپریشن کی باتیں ختم بھی نہیں ہوئی تھیں کہ اسی دن ہمارے ایڈیشنل آئی جی پولیس نے یہ انکشاف کر کے کہ 2کروڑ کی آبادی میں 10پندرہ افراد کا قتل کوئی خاص بات نہیں۔ کراچی والوں کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا اور بقول شخصِ آگ پر تیل ڈال کر اپنی ذمہ داری سے ہاتھ اٹھا لیا اور 25ہزار کی نفری کا بھی گلہ کیا کہ کراچی میں 109پولیس اہلکار بھی مارے گئے۔ بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ پولیس اہلکاروں کا کام ہی عوام کی حفاظت کرنا ہے۔ اس میں اگر ان کی موت ہو جائے تو 2048معصوم شہریوں کی موت کا نوحہ کون کرے۔ پولیس کے لواحقین کو 10سے 15لاکھ روپے فی کس اور متبادل نوکریاں بھی مل جاتی ہیں ۔ ان معصوم ٹیکس اور بھتہ دینے والوں کی موت پر تو کوئی آنسو بہانے اور روپیہ پیسہ تو دور کی بات ان کے عزیز و اقارب خود پولیس اور رینجرز کے ہاتھوں الگ خوار ہوتے ہیں۔ اگر نواز شریف صاحب واقعی پائیدار امن چاہتے ہیں تو جس طرح اس ضمنی الیکشن میں فوج نے غیر جانبدار رہتے ہوئے 95فیصد شفاف الیکشن کروا دیئے تھے اسی فوج کو دوبارہ آزمایا جا سکتا ہے مگر اس میں مکمل غیر جانبداری ضروری ہے۔ گزشتہ 5سالوں میں بقول شیخ رشید فوج ستو پی کر تماشا دیکھ رہی ہے اس کو ٹاسک دے کراور بے شک پولیس اور رینجرز کو ساتھ ملا کر ایک مرتبہ بھرپور آپریشن کرایا جائے چونکہ تمام سیاسی پارٹیاں وزیراعظم نواز شریف صاحب کی میٹنگ میں بے نقاب ہو چکی ہیں اور فوج اور وفاق اُمید کا آخری درجہ رکھتی ہے فوری طورپر عملدرآمد کر کے ماضی میں سوات اور اس کے ملحقہ علاقوں کو دہشت گردی سے پاک کرنے کا ریکارڈ سامنے رکھ کر فوری عملدرآمد کرنے سے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے۔ پاک فوج نے ماضی میں کئی مرتبہ سیلاب زدہ علاقوں میں کافی نیک نامی کمائی ہے اگر فوج نے صرف ناجائز اسلحہ برآمد کر کے دہشت گردوں کو بے نقاب کیا تو اس سے کراچی کے شہریوں کی امیدیں بر آئیں گی۔ ملک کی70فیصد یرغمال معیشت پھر سے بحال ہو سکے گی۔ تاجر ، صنعت کار، وکلاء حتیٰ کہ ایک عام آدمی بھی سکون کی نیند سو سکے گا۔ اب مسلم لیگ (ن) اور صدر ممنون حسین دونوں آخری امیدوں کے آخری چراغ باقی ہیں۔ اگر خدانخواستہ یہ بھی ناکام ہو گئے تو پھر آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالرز کا قرضہ اشک بلبل ثابت ہوگا۔ 10گنا بھی قرضہ ہماری معیشت کو سہارا نہیں دے سکے گا اور خود وزیراعظم صاحب کا کراچی میں ہر صورت میں امن کا خواب صرف خواب ہی رہ جائے گا۔ اٹھئے اور حتمی فیصلہ کر کے کراچی کو پھر سے روشنیوں اور امن کا شہر بنا دیجئے۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ (آمین)
تازہ ترین