• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد کرنے کیلئے 2 سزا یافتہ ملزمان کے بلیک وارنٹ جاری کئے گئے جس میں جی ایچ کیو حملے میں ملوث سزائے موت پانے والے ڈاکٹر عثمان بھی شامل تھے جن کے بارے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے پنجاب حکومت کو دھمکیاں دیں کہ اگر ڈاکٹر عثمان کو پھانسی دی گئی تو اعلیٰ حکومتی شخصیات کو نشانہ بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی یورپی یونین کی نائب صدر ایشٹن جن سے میں گزشتہ دور حکومت میں یورپی یونین میں مارکیٹ رسائی کیلئے کئی ملاقاتیں کرچکا ہوں نے اپنے پالیسی بیان میں کہا کہ پھانسی ایک ظالمانہ اور غیر انسانی سزا ہے جس سے جرائم کو روکنے میں مدد نہیں ملتی، اس لئے یورپی یونین کے قوانین کے تحت پھانسی کی سزا پر عملدرآمد روکا جائے۔ اس کے فوراً بعد یورپی یونین میں انسانی حقوق کی کمیٹی کی سربراہ اینا گومز نے بھی حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ جیلوں میں سزائے موت کے منتظر قیدیوں کو پھانسی دینے پر عملدرآمد معطل کرے۔ صدر زرداری نے 2008ء میں سزائے موت پر عملدرآمد کو 30 جون 2013ء تک روکنے کا اعلان کیا تھا جس کی میعاد ختم ہوچکی تھی۔ پاکستان کے نئے وزیراعظم میاں نواز شریف نے اس کی مدت میں توسیع نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکومت تمام سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی کی سزا دے گی جس کے ردعمل کے طور پر پاکستان میں یورپی یونین کے سفیر لارس ویگے مارک نے یورپی یونین کی پاکستان کو جنوری 2014ء سے جی ایس پی پلس کی مراعات جس کے تحت پاکستان یورپی یونین کو بغیر کسٹم ڈیوٹی اپنی اشیاء ایکسپورٹ کر سکے گا،کو پاکستان میں پھانسی کی سزا پر عملدرآمد روکنے سے مشروط کردیا۔ اس سلسلے میں، میں نے کراچی میں چین کے نئے قونصل جنرل کے اعزاز میں منعقدہ ایک عشایئے کے دوران وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ سے کہا کہ وہ فوری طور پر صدر پاکستان سے بات کریں کیونکہ پی پی دور حکومت میں ہم نے یورپی یونین سے بغیر کسٹم ڈیوٹی مارکیٹ رسائی کیلئے کافی جدوجہد کی تھی اور اب جبکہ چند ماہ بعد یورپی یونین اپنے نظرثانی شدہ جی ایس پی پلس کا درجہ پاکستان کو دینے پر رضامند ہے، پاکستان میں پھانسی کی سزا جو یورپی یونین کے قوانین کے خلاف ہے، دینے کی وجہ سے یورپی یونین کو بغیر کسٹم ڈیوٹی اربوں ڈالر کی ہماری اضافی ایکسپورٹ کی سہولت چھینی جاسکتی تھی۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ملک کے کئی ایکسپورٹرز نے مجھ سے رابطہ کرکے اعلیٰ حکومتی شخصیات سے اس مسئلے پر بات کرنے کو کہا۔ اتفاق سے پنجاب کے نئے گورنر چوہدری محمد سرور جو میرے بیٹے کی شادی میں شرکت کیلئے خصوصی طور پر کراچی آئے ہوئے تھے اور رات کو میرے بھائی اشتیاق بیگ کی جانب سے اپنے اعزاز میں دیئے گئے عشایئے میں موجود تھے، سے میں نے فیڈریشن کے صدر زبیر ملک، نائب صدر اظہر سعید بٹ اور گل احمد کے چیئرمین بشیر علی محمد کے ہمراہ اس سلسلے میں ملاقات کی اور ان سے پھانسی کی سزا پر عملدرآمد جس میں صرف ایک دن باقی رہ گیا تھا روکنے کیلئے فوری طور پر وزیراعظم پاکستان سے بات کرنے کو کہا۔ چوہدری محمد سرور جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ یورپ میں گزارا ہے اور وہ یورپی قوانین سے بخوبی آگاہ ہیں کو میں نے چینی قونصل جنرل کے عشایئے میں شریک برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر جون ٹک نوٹ کا میرے ذریعے دیا جانے والا پیغام بھی پہنچایا جس میں انہوں نے پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد کی صورت میں پاکستان کو یورپی یونین کی جانب سے دی جانے والی بغیر کسٹم ڈیوٹی ایکسپورٹ جس کیلئے یورپین پارلیمنٹ میں جلد ہی ووٹنگ ہونے والی ہے کی مراعات روکنے کے بارے میں لکھا تھا جس کے بعد گورنر پنجاب نے بزنس کمیونٹی کے خدشات ہنگامی بنیادوں پر وزیراعظم تک پہنچائے اور وزیراعظم نے صدر پاکستان سے اس اہم مسئلے پر ملاقات کرکے وزارت خارجہ کی سمری پر پھانسی کی سزا پر عملدرآمد روکنے احکامات جاری کئے۔ مجھے خوشی ہے کہ میری کوششوں سے بروقت ایک درست فیصلہ کیا گیا۔
پاکستان میں تقریباً 8,000 سے زائد قیدیوں جن میں بڑی تعداد طالبان کی ہے کو پھانسی کی سزائیں سنائی جاچکی ہیں اور ان میں اکثریت کی اپیل کی مدت بھی ختم ہو چکی ہے۔ نومنتخب حکومت، طالبان سے مذاکرات کرنے جارہی ہے جو کہ تمام سیاسی جماعتوں کے مطابق ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کا واحد حل ہے لیکن اس موقع پر پھانسی کی سزاؤں پر عملدرآمد کرنے سے فریقین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے جس سے مذاکرات کا عمل بھی متاثر ہوگا۔ اس اہم موضوع پر کالم تحریر کرتے ہوئے یہ میرا اخلاقی فرض ہے کہ میں اپنے کالم میں اُن لوگوں کی رائے بھی شامل کروں جو پھانسی کی سزا کے حامی ہیں۔ اُن کے بقول اسلام میں جرم کو روکنے اور مجرموں میں خوف پیدا کرنے کیلئے سزائے موت ایک موثر سزا ہے اور وہ ممالک جہاں سزائے موت پر فوری عمل کیا جاتا ہے وہاں جرائم، دہشت گردی اور منشیات فروشی کی شرح انتہائی کم ہے۔ مثلاً چین، جاپان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ملائیشیا، سنگاپور اور ایران ایسے ممالک ہیں جہاں سزائے موت پر فوری عملدرآمد کیا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں جرائم کی شرح دوسرے ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ سزائے موت کے موجودہ طریقہ کار میں پھانسی، گیس چیمبر، کرنٹ، زہریلے انجکشن اور فائرنگ جیسے طریقے شامل ہیں جبکہ ماضی میں سزائے موت کے طریقہ کار موجودہ طریقہ کار سے انتہائی ظالمانہ تھے جن کی تفصیلات آپ Wikipedia سے حاصل کرسکتے ہیں۔
برطانیہ میں سزائے موت پر عملدرآمد 1707ء میں شروع کیا گیا تھا اور آخری پھانسی 1964ء میں دی گئی تھی تاہم یورپی یونین کے انسانی حقوق کے قوانین برطانیہ پر لاگو ہونے کے بعد 2004ء میں سزائے موت پر عملدرآمد مکمل طور پر روک دیا گیا۔ امریکہ میں پہلی سزائے موت 1608ء میں کیپٹن جارج کینڈل کو اسپین کی حکومت کیلئے جاسوسی کرنے پر دی گئی جبکہ 1991ء تک 15,269 مجرموں کو سزائے موت دی جاچکی تھی جن میں قتل اور عصمت دری کے واقعات میں ملوث38 مجرموں کو 26دسمبر1862ء کے روز ایک ساتھ دی جانے والی سزا بھی شامل ہے۔ اس وقت امریکہ کی 32 ریاستوں میں موت کی سزاؤں پر عملدرآمد کیا جارہا ہے جن میں ٹیکساس اور اوکلاہاما سرفہرست ہیں جہاں سب سے زیادہ موت کی سزائیں دی جاچکی ہیں تاہم امریکہ کی کچھ ریاستوں مثلاً مشی گن میں1846ء، نیویارک اور نیو جرسی میں 2007ء، ایلی نوائز میں 2011ء، کنٹی کٹ میں 2012ء اور میری لینڈ میں رواں سال موت کی سزائیں ختم کی جاچکی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں 2012ء میں 43 افراد کو سزائے موت دی گئی جبکہ امریکی فوجیوں کے قتل میں ملوث میجر ندال حسن کو بھی کچھ روز قبل سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔ ان حقائق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سزائے موت صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی دی جارہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پاکستان اپنی ایکسپورٹس اور معاشی ضروریات کیلئے ان ترقی یافتہ ممالک کا محتاج ہے جس کی وجہ سے ہم پر باآسانی دباؤ ڈالا جاسکتا ہے لہٰذا ہمیں پاکستان کو خودمختار ملک بنانے کیلئے معاشی طور پرجلد از جلد ترقی کرکے اپنے پیروں کھڑا ہونا پڑے گا تاکہ ہم ملکی مفاد کے فیصلے خود کرسکیں۔
تازہ ترین