• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج پیر نو ستمبر ہے۔ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو آصف علی زرداری سابق صدر ہوچکے ہوں گے۔ سابق صدر نے وقت رخصت زندگی کے تمام شعبوں کے افراد سے ملاقاتیں کیں۔ ایک ملاقات میں یہ خاکسار بھی تھا‘ باقی تمام ملاقاتیوں سے انہوں نے ہاتھ ملایا اور پتہ نہیں میرے ساتھ ”جپھی“ ڈال کر ملے۔ دراصل میرے اور ان کے درمیان ایک مسئلہ ہے وہ میرے ساتھ پنجابی بولتے ہیں اور میں انہیں جواب سندھی میں دیتا ہوں۔ کچھ لوگوں کو پچھلی تقریبات میں اس پر حیرت ہوئی تھی‘ سابق کابینہ کے ایک رکن تو بالکل ششدر رہ گئے تھے بلکہ میرے ساتھ ہمیشہ سرائیکی میں ہم کلام ہونے والے یوسف رضا گیلانی بھی ایک مرحلے پر حیران ہوگئے تھے۔ اس حیرت پر مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے کہہ دیا ”یہ حیرتوں کا جہان ہے…“ خیر آصف علی زرداری کی رخصتی بڑی ”پرنور“ ہوئی ہے‘ ان کے اعزاز میں ایک ضیافت وزیراعظم نواز شریف نے بھی دی۔ اس ضیافت میں پرانی محبتوں کو تازہ کیا گیا۔ آصف علی زرداری نے یہ کہہ کر کہ وہ پانچ سال بعد سیاست کریں گے‘ میاں صاحب کا حوصلہ بڑھایا۔ جواباً میاں صاحب نے بھی جدہ اور لندن کی محبتوں کو خوب اجاگر کیا اور وہ یہ بات بھول گئے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں انہوں نے اور ان کے برادر عزیز نے آصف علی زرداری کے بارے میں کیا کچھ کہا تھا۔ اس پوری ضیافت میں گھسیٹنے کی باتیں نہیں ہوئیں بلکہ سابق صدر کی جمہوریت کیلئے خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جاتا رہا۔ اس ضیافت کے بعد ایک ٹی وی چینل میاں برادران کی پرانی تقریروں کی ”خوبصورت جھلکیاں دکھاتا رہا۔ دونوں فریقین کی گفتگو نے عمران خان کی باتوں کو تقویت دی کہ دونوں آپس میں ملے ہوئے ہیں‘ دونوں نے باریاں لگا رکھی ہیں اور دونوں ”رل مل“ کر کھارہے ہیں۔ اگر ایک خاص زاویئے سے عمران خان کی باتوں کا جائزہ لیا جائے تو پھر یقین کرنے کو دل کرتا ہے مثلاً کرپشن‘ کرپشن کا واویلا ہوتا رہتا ہے مگر کرپٹ افراد کھلے عام پھر رہے ہیں۔ کچھ مہربانوں کے مقدمات ابھی بھی نیب میں ہیں‘ ان کے نام نہیں لئے جاسکتے کہ:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
سابق صدر آصف علی زرداری کے پانچ سالہ عہد صدارت کا احاطہ کیا جائے تو صاف پتہ چلے گا کہ انہوں نے مفاہمت کے نام پر بہت سے کمپرو مائز کئے‘ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جمہوریت ڈی ریل نہ ہوسکی۔ انہوں نے میڈیا کی بے جا تنقید کو بھی خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ آصف علی زرداری نے 1973ء کے آئین کی مکمل بحالی کو یقینی بنایا۔ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو وسائل کی تقسیم‘ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا معاہدہ‘ گوادر پورٹ پر پاک چائنا معاہدہ‘ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانا‘ سرکاری ملازمتیں فراہم کرنا‘ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 158 فیصد ریکارڈ اضافہ‘ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 75 لاکھ گھرانوں کی آبرو مندانہ مالی اعانت سمیت ان کے کئی یادگار کارنامے ہیں۔ انہی کارناموں کے باعث وہ عزت سے رخصت ہوئے۔ ان کی الوداعی تقریبات میں ”بینڈ باجے“ والے سب شامل تھے۔ انہوں نے بطور صدر اپنا آخری انٹرویو جیوکو دیا جس میں سب سے اہم بات یہ کی کہ وہ صدارت کے بعد وزیراعظم بننے کی کوشش نہیں کریں گے۔ ان کے اس قول کو اقوال زریں میں شامل کرنا چاہئے کہ انہوں نے ایک تیر سے دو شکار کئے ہیں۔ انہوں نے ایک طرف میاں صاحب کو تسلی دی ہے کہ آپ کو پریشان ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو پیغام دیا ہے کہ آپ پارٹی کے ساتھ جڑے رہیں‘ کوئی بھی وزیراعظم بن سکتا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ”وہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے‘ کراچی میں جو کچھ ہورہا ہے‘ وہ اب مزید نہیں چلے گا“۔ خدا کرے وزیراعظم صاحب کامیاب ہوجائیں۔ ویسے کراچی کی صورتحال بہت ابتر ہے۔ اس پر ہر پاکستانی دکھی ہے۔ پچھلے دنوں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے کراچی آپریشن کے تناظر میں بہت شاندار کالم لکھا تھا۔ کراچی کو بھتہ مافیا اور طالبان نے زیادہ خراب کیا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ چند سال پیشتر الطاف حسین چلا چلا کر کہتے رہے کہ طالبان کراچی میں وارد ہورہے ہیں‘ کراچی کا امن خطرے میں ہے لیکن ان کی ان باتوں پر کسی نے توجہ ہی نہ دی‘ اگر اس وقت طالبان کا راستہ روک لیا جاتا تو آج یہ صورتحال درپیش نہ آتی کہ کراچی میں آپریشن کرنا پڑتا۔کراچی کے بارے میں سب سے حیران کن خبر اس وقت سامنے آئی جب اٹارنی جنرل آف پاکستان منیر اے ملک نے سپریم کورٹ میں یہ رپورٹ جمع کرائی کہ کراچی میں ”مہاجر ریپبلکن آرمی“ موجود ہے۔ اس رپورٹ سے حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا اور دوسرے دن ہی چوہدری نثار علی خان کو وضاحتیں کرنا پڑیں۔ اب جب کراچی کی صورتحال پر وزیراعظم نواز شریف نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا ہے اور سب کا یہ موٴقف ہے کہ کراچی کو فوج کے حوالے نہ کیا جائے بلکہ رینجرز کے ذریعے ہی آپریشن کیا جائے۔ ٹھیک ہے یہ تمام اسٹیک ہولڈرز کا فیصلہ ہے۔ ویسے بھی فوج افغان بارڈر پر دہشت گردی کیخلاف جنگ میں مصروف ہے۔ بھارت کے ساتھ لمبی سرحد پر آئے روز کوئی نہ کوئی ٹینشن پیدا ہوجاتی ہے‘ شام کے اثرات بھی پتہ نہیں کیا مرتب ہوتے ہیں‘ فوج نہ سہی رینجرز ہی سہی مگر حکومت وقت کو چاہئے کہ وہ ایک تو رینجرز کو فری ہینڈ دے‘ دوسرا اس کو جدید ساز و سامان سے لیس کرے کہ دہشت گردوں کے پاس بہت کچھ ہے۔ واقفان حال کا خیال ہے کہ آپریشن‘ آپریشن کا واویلا کرنے کے بعد اکثر دہشت گرد کراچی چھوڑ کر دوسری جگہوں پر منتقل ہوگئے ہیں ایک خاص تنظیم کے کئی افراد کولمبو کے ساحل پر دیکھے جارہے ہیں کچھ تنظیموں کے اراکین نے افغانستان‘ عراق اور شام کا رخ اختیار کرلیا ہے۔ غریب دہشت گرد ملک کے دیگر شہروں میں منتقل ہوگئے ہیں۔کراچی آپریشن کے دوران میڈیا کے حوالے سے بھی کوئی ضابطہ اخلاق بننا چاہئے خاص طور پر بریکنگ نیوز اور لائیو کوریج کا کوئی نہ کوئی سدباب کرنا پڑے گا ورنہ ”سکندر ڈرامے“ کی طرح بدنامی ہوگی۔ میڈیا کو آپریشن کے حوالے سے جتنی بھی تفصیلات جاری ہوں وہ سرکاری سطح پر ہی ہوں۔موجودہ حکومت کا سب سے اہم کارنامہ بجلی چوروں کیخلاف کارروائی ہے۔ یقیناً اس سے بہتری آئے گی۔ فیکٹریوں کے مالکان کیخلاف کارروائی ہورہی ہے چند دن پہلے (ن) لیگ کے تازہ ایم این اے عبیداللہ شادی خیل کا ایک رشتہ دار گل نواز بھی بجلی چوری میں پکڑا گیا تھا۔ اگر اس کیخلاف پوری کارروائی ہوگئی تو یہ بھی (ن) لیگ کی کامیابی ہوگی۔
حکومت نے ”کونسل آف یورپ کنونشن“ پر دستخط کردیئے ہیں‘ اس سے عافیہ صدیقی کی رہائی ممکن ہوسکے گی مگر یہ رہائی ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے بدلے میں نہیں ہونی چاہئے۔ اس سلسلے میں عوامی سطح پر تشویش پائی جارہی ہے کیونکہ شکیل آفریدی نے بددیانتی کرتے ہوئے پاکستانی قوم کو بدنام کیا‘ ان کے اس فعل سے پاکستان کے عزت و وقار پر حرف آیا‘ پاکستان کو دھچکا لگا‘ اس نے چند ڈالروں کے عوض ملکی عزت کو داؤ پر لگایا تھا۔ شکیل آفریدی کا ٹرائل پاکستانی کے قانون کے مطابق ہونا چاہئے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو اور بدنامی ہوگی۔ پاکستانی قوم ایک طرف بدامنی اور دہشت گردی کا سامنا کررہی ہے تو دوسری طرف مہنگائی نے اس کا برا حال کردیا ہے۔ (ن) لیگ کے نوے روزہ اقتدار میں مہنگائی میں کمی تو نہ ہوسکی البتہ اضافہ ضرور ہوگیا۔ مثلاً پٹرول 98 روپے سے ایک سو دس روپے پر پہنچ گیا۔ ابھی تازہ خبر یہ ہے کہ یکم اکتوبر سے پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ سی این جی اور آٹے کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوچکا ہے ڈالر کی قیمت 105 روپے ہے۔ عوام مہنگائی کو بہت محسوس کررہے ہیں گزشتہ روز میرے پاس چوہدری فرخ الطاف آئے تھے۔ فرخ الطاف سابق گورنر پنجاب مرحوم الطاف حسین کے فرزند ہیں اور دیہی سیاست کے ماہر ہیں ڈور ٹو ڈور مسائل ان سے بہتر شاید ہی کوئی دوسرا سیاست دان سمجھتا ہو‘ انہوں نے اپنی تمام گفتگو میں مسائل کا خلاصہ یہی بیان کیا کہ عام آدمی مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہے۔ ہر طرف مسائل کے پہاڑ ہیں ان مسائل کو دیکھ کر طاہر حنفی کا شعر یاد آجاتا ہے کہ:
جاگتے شہر میں آنکھوں کے بچھڑنے کا سبب
آئینہ ہے کہ بکھرنے کی صدا ہو جیسے
تازہ ترین