• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سرد جنگ کا زمانہ پاکستانی سیاست کیلئے گرم ترین ثابت ہوا۔ اس دور میں نظریاتی کشمکش عروج پر رہی، جس سے حقیقی معنوں میں سیاست کے خدوخال و مقاصد واضح ہوئے۔ بعدازاں نظریات طاق نسیاں کے حوالے کر دیئے گئے اور اب سیاست تو ہے لیکن نظریات کے بغیر، بالکل ایسے جیسے جسم، روح کے بغیر ناکارہ و بے مقصد ہو کر رہ جاتا ہے۔ درحقیقت سرد جنگ کے زمانے میں سیاست کا بازو مروڑنے والے چاہتے ہی یہی تھے کہ پاکستان جو کہ ایک سیاسی تحریک کا ثمر ہے، یہاں سیاست کو ایسی آلائشوں سے آلودہ بنا دیا جائے کہ وہ پھر عوام کیلئے کارگر ثابت نہ ہو بلکہ بلائے جان بن جائے اور یوں وہ ادھر ادھر دیکھنے پر مجبور کر دیئے جائیں۔ یہ مقصد حاصل ہو چکا۔ اب جتنے الزامات سیاستدانوں پر لگتے ہیں شاید کسی اور کے کندھے اس طرح کے بوجھ سے آشنا ہو سکے ہوں۔ سیاستدان خود کو ان سازشوں سے کیوں نہ بچا سکے۔ آیا ان سے نبردآزما ملکی و غیر ملکی قوتیں تاب و تواں میں لازوال تھیں یا ان میں موجود کمزوریاں ایسی سازشوں کی تاب نہ لا سکیں، یہ موضوع طویل بحث کا متقاضی ہے۔ راقم کو یہ خیال گزشتہ روز پاکستان کوریا فرینڈشپ ایسوسی ایشن کی ایک پُروقار تقریب میں شرکت کے بعد آیا۔ تقریب سے ڈاکٹر شاہدہ وزارت، صوبائی وزیر جاوید ناگوری، اے این پی کے رہنما بشیر جان، پیپلز پارٹی کے لطیف مغل، معروف وکیل شمروز خان ایڈووکیٹ اور مختلف دانشوروں نے خطاب کیا۔ تقریب کے میزبانوں غلام ربانی اور جاوید انصاری کا یہ کمال اور پرخلوص رابطوں کا ماحصل تھا کہ چیدہ چیدہ کامریڈ ایک چھت تلے جمع تھے۔ چونکہ اب یہ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں اس لئے میزبانوں کی کوششیں ثمربار ثابت ہوئیں وگرنہ جب نظریاتی سیاست عروج پر تھی تو پاکستانی کامریڈوں کو ایک پنڈال میں جمع کرنا مینڈکوں کو تولنے جیسا تھا، جنہیں جب تولا جاتا ہے تو جیسے ہی انہیں ترازو میں رکھا جاتا ہے تو ایک ترازو سے کود جاتا ہے۔ جب اسے پکڑنے کے بعد واپس ترازو میں رکھنے کی کوشش کی جائے تو اس دوران دو اور کود چکے ہوتے ہیں۔ اب انہیں پکڑنے اور واپس ترازو میں لانے کیلئے پھر جو سلسلہ چل نکلتا ہے وہ کس قدر مشکل اور صبر آزما ہوتا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ طالب علم نے پاکستان کامریڈ لکھا، حالانکہ کامریڈ تو کامریڈ ہوتا ہے (آپ اسے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان کے اس تاریخی قول کے تناظر میں نہ دیکھیں کہ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے خواہ اصلی ہو یا جعلی!!) کامریڈ کے ساتھ ”پاکستانی“ کا سابقہ لگانے کی وجہٴ افتخار یہ ہے کہ ہمارے کامریڈ دنیا بھر کے کامریڈوں سے انفرادی خصوصیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے اپنی جماعتیں بھی بنائیں، دیگر ترقی پسند جماعتوں کا حصہ بھی بنے، لیکن لڑنے کی خو میں تغیر اس تغیر کا حصہ بن سکا جس تغیر کیلئے وہ انقلاب کی نوید سناتے تھے۔ بہرصورت ہمارے ہاں مارکزم، لینن ازم، ماؤ ازم سے لے کر افغانستان میں کامریڈوں پر لگنے والی آخری کاری ضرب کے دوران بھی ہمارے ہاں کے کامریڈ خلق اور پرچم پارٹی کی تفریق اور باہمی نظریاتی تضادات کے حوالے سے پاکستان میں دست و گریبان تھے۔ سامراج کمیونزم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کیلئے اپنے لاؤ لشکر سمیت خطے میں موجود تھا اور ہمارے ہاں کے کامریڈ کیفے ہاؤسز، ڈرائنگ روموں اور بار روموں میں باہم گتھم گتھا جام جم توڑ رہے تھے یعنی صورتحال وہی تھی کہ جب بغداد پر ہلاکو خان نے حملہ کیا تو وہاں کے علماء اس بحث میں شرابور تھے کہ کوّا حلال ہے کہ حرام!!؟
بلاشبہ سوشلزم ایک ایسا نظام مملکت ہے جو اگر سوویت یونین میں کامیاب سفر کے بعد بے راہ رو ہوا تو کئی دیگر ممالک میں کامیابی و ترقی کی علامت بھی بن چکا ہے۔ ہمارے ہاں مخمصہ رہا کہ ہمارے کامریڈ انقلاب درآمد کرنے کی جستجو میں رہے حالانکہ کم ال سنگ نے کیا خوب کہا ہے ”انقلاب نہ تو برآمد کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی درآمد، بلکہ یہ تو کسی ملک کے اپنے ہی لوگوں کی کوششوں کے ذریعے مخصوص حقائق کے باعث آتا ہے“۔
مذکورہ سطور محض ان خیالی کامریڈوں کی نذر ہیں جو چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرتے رہے وگرنہ کیا کیا تاریخ ساز جدوجہد کے حامل رہنما وصلِ یار کی خاطر شب ہجراں کے دکھ جھیلتے رہے۔ شاید کم کم ممالک میں ایسی مثالیں موجود ہوں۔ اس زمانے میں کیا شاہکار ادب تخلیق ہوا۔ علم و فضل کے بیش بہا چشموں سے ”طالبان“ کو فیض پاتے دیکھا گیا، جنہیں اگر بروئے کار آنے دے دیا جاتا تو شاید آج طالبان کی اصطلاح یوں وجہٴ تنازع نہ بنتی۔
یہ اسی دور کا فیض ہی ہے کہ فیض صاحب کی نظمیں آج ان کے لبوں سے بھی بوسہ زن ہیں جو بہتانوں کے فتوے صبح شام تقسیم کرنے پر مامور تھے۔ کہنا مقصود یہ ہے کہ ہمارے ہاں سوشلسٹ فلسفے اور ترقی پسند تحریک کی لاچاری کی ایک وجہ وہ سخت گیر تصورات بھی تھے جو ہمارے سماج سے کُل تضادات کے باوصف جنہیں بعض ”انقلابی“ پاکستانی معاشرے سے ہم آہنگ کرنے پر تیار نہ تھے حالانکہ خود سوشلسٹ ممالک نے اپنے حالات و سماج کے مطابق ایسے ممالک نے زندگی پر ہر زاویے سے نگاہ ڈالی اور اس کے ہر پہلو اور گوشے کو ٹٹولا پھر اپنی نظریاتی اساس پر قائم رہتے ہوئے ان کے سماجی عوامل کا لحاظ رکھا۔ سوویت یونین میں مساجد آباد تھیں۔ حضرت امام بخاری کے مقبرے کی شان و شوکت برقرار تھی لیکن ہمارے نام نہاد کمیونسٹوں کا پسندیدہ مشغلہ مذہب کو تختہ مشق بنانا تھا جس کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ اس سے ان رجعت پسند سامراجی آلہ کاروں کو کھل کر عوام و دین سے کھیلنے کا موقع ملا جو خود مذہب سے مخلص نہیں تھے، لیکن ایسے مذہب بیزار انداز کو وہ بڑے سلیقے سے رجعت نوازی کیلئے بروئے کار لائے تھے۔ سوشلزم مختلف ممالک میں اگر ایک دوسرے سے متصادم نہیں تھا تو تمام ممالک میں یکساں بھی نہیں تھا۔ جن ممالک نے اپنے ملک کے حالات و سوشلزم میں مطابقت پیدا کی وہ آج بھی سرمایہ دارانہ نظام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے ہیں۔ چین تو خیر اس حوالے سے لچک کی تصویر ہے لیکن شمالی کوریا نے جس طرح امریکہ اور اس کے حلیفوں کو نکیل ڈال رکھی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ شمالی کوریا آج عوامی اور دفاعی ترقی کے کمال پر ہے۔ 9 ستمبر 1948ء کو وجود میں آنے والی ڈیمو کریٹک پیپلز ری پبلک آف کوریا کو اس کے بانی کم ال سنگ نے ”جوچے“ کا تاریخ ساز فلسفہ دیا۔ کم ال سنگ کے مطابق ”جوچے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص اپنے ملک میں انقلاب اور تعمیر کے متعلق ایک مالکانہ رویہ اختیار کرے“۔ ان کے ہاں سوشلزم کو تہذیب و ثقافت پر بھی محیط کر دیا گیا ہے۔ کوریائی قیادت نے عوام کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے اور وہ خوشحالی کی راہ پر بہت آگے ہیں۔ کم ال سنگ نے کہا تھا کہ ”دراصل (پہلے) سات سالہ منصوبے پر1961ء سے 1967ء تک عملدرآمد کیا جانا تھا لیکن سامراجیوں کے پیدا کردہ بحران کی وجہ سے ہم نے اس کو دس سال میں پایہٴ تکمیل تک پہنچایا لیکن ہماری قومی معیشت نے انتہائی تیز رفتاری سے ترقی کی“۔ یہ تو جاپان سے آزادی پانے اور بعدازاں سامراجی ہتھکنڈوں سے نبردآزما ہونے کے ابتدائی سال تھے۔ آج کا سوشلسٹ کوریا سائنس و ٹیکنالوجی کے علاوہ زراعت کے شعبے میں ایک جہاں کو حیران کرنے کا باعث ہے۔ کم ال سنگ کی موت کے بعد کامریڈ کم جونگ ال پارٹی کے دائمی جنرل سیکرٹری بنائے گئے ہیں۔ ان قائدین سے کوریائی عوام کی عقیدت دنیا بھر میں ضرب المثل ہے۔ اس کی وجہ ان کا عوام کیلئے خود کو وقف کر دینا ہی ہے۔ مجھے جناب بشیر جان نے دورہٴ کوریا کی روداد سناتے ہوئے بتایا کہ وہاں کے ایک مچھلی گھر میں امریکہ کا ماڈل نصب ہے، جسے ہر آنے والا بچہ بندوق کے ذریعے نشانہ بناتا ہے، جب تک گولی جو کہ مصنوعی ہوتی ہے نشانے پر نہ لگے وہ بچہ فائرنگ کرتا رہتا ہے۔ دشمن کیخلاف ذہن سازی کی اس مثال کا بھی ثانی نہیں۔
شمالی کوریا میں تمام تر توجہ تعلیم پر مرکوز ہے۔ بچوں کی تربیت اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ بڑے ہو کر نہ صرف یہ کہ اپنے اور اپنے ملک کیلئے کارآمد شہری ثابت ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنے قائدین سے ایک دیوتا کی طرح عقیدت کرنے لگتے ہیں۔ بلاشبہ یہ مقام ملک و عوام کی سچی خدمت سے ہی مل پاتا ہے۔
تازہ ترین