• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر دیدار دکھی کے دکھوں کی فہرست اس قدر لمبی تھی کہ وہ پروفیسر دیدار حسین کی بجائے پروفیسر دیدار دکھی کہلوانے میں آیا۔ عام طور پر لوگ سمجھتے تھے کہ پروفیسر دیدار حسین شاعر تھا۔ اور دکھی اسکا تخلص تھا مگر ایسا نہیں تھا۔ وہ کیمسٹری پڑھاتا تھا۔ اسے شعرو شاعری سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ علامہ اقبال کے سیاسی افکار کا شیدائی تھا۔ مگر ایک روز جب پروفیسر دیدار دکھی کو پتہ چلا کہ علامہ اقبال بنیادی طور پر شاعر تھے۔تب اسے بہت بڑا دھچکا لگا تھا اور وہ مایوس ہو گیا تھا۔ پروفیسر دیدار دکھی سمجھتا تھا کہ پاکستان کا قومی ترانہ فارسی میں لکھا ہوا ہے۔ وہ حیران ہوتا رہتا تھا کہ پاکستان کا قومی ترانہ پاکستان کی قومی زبان اردو میں کیوں نہیں ہے۔ فارسی میں کیوں ہے۔پروفیسر دیدار دکھی کے بارے میں یہ تمام باتیں میں اس لیے جانتا ہوں کہ ہم دونوں کالج میں ایک دوسرے کے کولیگ تھے۔ ایک ہی پڑوس اور ایک ہی بلڈنگ میں رہتے تھے۔ ہم دونوں نے پاکستان بنتے دیکھا تھا۔ ہم دونوں نے پاکستان ٹوٹتے دیکھا تھا، پاکستان کو ٹوٹتے ہوئے دیکھ کر پروفیسر دیدار دکھی اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا تھا، وہ میری طرح ڈھیٹ اور بے حس نہیں تھا، میں نے بھی انیس سو اکہتر میں پاکستان کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا تھا، مگر مجھے کچھ نہیں ہوا تھا۔میں کسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ چشم دید گواہ ہونے کے باوجود میں نے کچھ نہیں دیکھا تھا۔میں نے کسی ملک کو ٹوٹتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ تب میں کراچی میں تھا۔ ایک اینٹ بھی اپنی جگہ سے سرک کر، نیچے گر کر ٹوٹی نہیں تھی۔ مگر پروفیسر دیدار دکھی کا بہت کچھ گر کر چکنا چور ہو گیا تھا۔ برصغیر کی اب معدوم ہوتی ہوئی وہ نسل جس نے پاکستان بنتے ہوئے اور پاکستان ٹوٹتے ہوئے دیکھا تھا۔اس میں دو طرح کے لوگ تھے۔ایک وہ جو پاکستان کے ٹوٹ جانے کے بعداند رسے ٹوٹ گئے تھے۔اور دوسرے وہ جو بے حس تھے، ڈھیٹ تھےاور المناک واقعے کو سائیکل کی چین اتر جانے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔میرا تعلق اس غائب ہوتی ہوئی نسل کی دوسری قسم سے ہےجس نے پاکستان بنتے ہوئے اور ٹوٹتے ہوئے دیکھاتھامگر بقول ان کے انہوں نے کچھ نہیں دیکھا تھا۔جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ پہلے برصغیر کا بٹوارہ اور پھر پاکستان کے بٹوارے نے پروفیسر دیداردکھی جیسے حساس لوگوں کو اندر سے بانٹ دیا تھا۔ ہم ویسے کے ویسے تھے۔ برصغیر ٹوٹا، ہمیں کچھ نہیں ہوا۔ پاکستان ٹوٹا، ہمیں کچھ نہیں ہوا۔ اب جو چاہے ٹوٹے، ہمیں کچھ نہیں ہو گا، جو ہو گا، پروفیسر دیدار دکھی جیسے لوگوں کو ہو گا مگر وہ لوگ اس قدر ٹوٹ چکے ہیں کہ اب ٹوٹنے کیلئے ان کے پاس یادوں کے کھنڈر کے علاوہ کچھ نہیں ہے، ٹوٹ پھوٹ سے پروفیسر دیدار دکھی کے لامتناہی دکھوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ مختلف ذہنی کیفیت سے گزرتا رہتا تھا۔ اپنے ہی وطن میں خود کو اجنبی محسوس کرنے لگتا تھا۔ اور کبھی اپنا ہی وطن پروفیسر دیدار دکھی کو دیار غیر محسوس ہونے لگا تھا۔ ایک ایسی ذہنی کیفیت بھی اس پر حاوی ہو جاتی تھی جب وہ اپنے وطن میں خود کو بے وطن محسوس کرنے لگتا تھا۔ جن لوگوں نے پاکستان کا ٹوٹنا نہیں دیکھا تھا اور پاکستان کے ٹوٹ جانےکے برسوں بعد جنم لیا تھا، انہوں نے پاکستان کے ٹوٹنے پر کتابیں لکھیں۔ پاکستان کے ٹوٹنے پر لیکچر دیئے۔ نئی نسلیں ان کی لکھی ہوئی کتابوں پر یقین کرتی تھیں، اور پروفیسر دیدار دکھی کی باتوں پر ہنستی اور اس کا مذاق اڑاتی تھیں۔ اسے خبطی سمجھتی تھیں، پروفیسر دیدار دکھی نئی نسلوں کو حتی الامکان سمجھانے کی کوشش کرتا تھا کہ وہ پاکستان کے ٹوٹنے کا چشم دید گواہ ہے۔ جو حقائق وہ ان کے گوش گزار کر رہا ہے، وہ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں، سنے سنائے نہیں۔ نوجوان ڈیسک بجاتے، تالیاں بجاتے۔پروفیسردیدار دکھی اگر وضاحت کی کوشش کرتا تو نوجوان انگلیاں منہ میں ڈال کر سیٹیاں بجاتے۔پروفیسر دیدار دکھی کو ایک دکھ یہ بھی تھا کہ پاکستان کے ٹوٹ جانے کے بعد بچے کھچے مغربی پاکستان کے نام سے لفظ ’’مغربی‘‘ حذف کرنے سے پہلے مغربی پاکستان میں از سر نو انتخابات کا انعقاد ہوتا۔ منتخب اسمبلی فیصلہ کرتی کہ مغربی پاکستان کے نام سے لفظ مغربی نکال کر الگ کر دیا جائے، یاکہ نہیں، کئی لوگوں کا خیال تھا کہ پروفیسر دیدار دکھی کیمسٹری کا پروفیسر نہیں بلکہ پاکستان اسٹڈیز کا پروفیسر تھا۔ اس تاثر کے پیچھے پروفیسر دیدار دکھی کی پاکستان اسٹڈیز کی کتابوں میں غیر معمولی دلچسپی تھی۔ پروفیسر دیدار دکھی کا کہنا تھا کہ پاکستان اسٹڈیز کی کتابوں میں غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے، بچوں سے دھوکہ کیا گیا ہے۔ پاکستان ٹوٹنے کی اصل وجہ اور ایک سے زیادہ اسباب طلبا سے چھپائے گئے ہیں۔

جنون میں آ کر پروفیسر نے مضامین داغنا شروع کر دیئے۔ ان ایام کے آس پاس پروفیسر دیدار دکھی کو کالج کا پرنسپل مقرر کرنے کی باتیں بازگشت کرنے لگی تھیں۔ اس سے پہلے کہ پروفیسر دیدار چارج سنبھالتا وہ اچانک غائب ہو گیا۔ کولیگ،دوست، احباب پریشان تھے کہ پروفیسر دیدار دکھی کہاں گم ہو گیا تھا۔پروفیسر دیدار دکھی ایک روز اچانک نمودار ہوا۔ ہم نے حیرت سے پوچھا، ’’پروفیسر دیدار دکھی اتنے روز تم کہاں غائب تھے ‘‘۔پروفیسر دیدار دکھی نے کہا ’’ میں تو یہیں تھا آپ لوگ کہاں تھے ؟ہم کولیگ آج تک سوچتے رہتے ہیں کہ غائب پروفیسر دیدار دکھی ہو گیا تھا، یا ہم سب غائب کر دیئے گئے تھے؟

تازہ ترین