• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کی حکومت جس کے پاس ایٹم بم ہیں، مضبوط فوج ہے، انٹیلی جنس نیٹ ورک ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں مگر حکومت نے دہشت گردوں کو بات چیت کی دعوت دی ہے۔ حکومت کا فیصلہ سننے کے بعد مجھ جیسے کم فہم، بونگے، اَن پڑھ، کھڑوس اور کھوسٹ لوگ سکتے میں آگئے ہیں۔ سکتے میں آنے کے بعد وہ کبڑے ہوگئے ہیں۔ اٹھارہ کروڑ لوگوں کی جمہوری حکومت نے ہمیں کبڑا کیوں کردیا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے آپ کے پاس ایک عدد بھینس ہونی چاہئے۔ کیا آپ کے پاس بھینس ہے؟ اگر آپ کے پاس بھینس نہیں ہے تو پھر آپ جمہوری حکومت کے فیصلے کی دانائی کبھی نہیں سمجھ سکتے لہٰذا پہلے جاکر ایک بھینس خریدیئے اور پھر سرکار کے فیصلے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کیجئے۔ یہ قصہ پڑھ کر خواہ مخواہ اپنا قیمتی وقت ضائع مت کیجئے۔ یاد رہے کہ وقت آپ کے پاس قوم کی امانت ہے۔ میرے وہ مہربان جن کے پاس بھینس نہیں ہے وہ آج کا قصہ پڑھ کر قوم کی امانت میں خیانت نہ کریں۔ آپ گول گپے کھایئے اور بھول جایئے کہ اٹھارہ کروڑ عوام کی حکومت جس کا دعویٰ ہے کہ کوئی میلی آنکھ سے پاکستان کی طرف دیکھ نہیں سکتا، اس حکومت نے دہشت گردوں سے افہام تفہیم اور صلح صفائی کا ارادہ کرلیا ہے۔
ملک میں بے شمار کبڑے دیکھ کر حکومت کے تھنک ٹینک کے ممبران حیران کم اور پریشان زیادہ ہوگئے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اچانک اتنی بڑی تعداد میں کبڑے اور کبڑیاں ملک میں کہاں سے آگئے ہیں؟ وہ اگر باہر سے نہیں آئے ہیں اور نسلی پاکستانی ہیں، تو پھر وہ کبڑے کیوں ہوگئے ہیں؟ کہیں انہوں نے ملک کی فلاح و بہبود کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر تو نہیں اٹھا لیا ہے! قوم کو ایسا کرنا نہیں چاہئے۔ قوم کو اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہئے۔ پائے، مغز اور کٹاکٹ کھا کر جان بنانی چاہئے۔ یہ شوبھا نہیں دیتا کہ اتنی بڑی تعداد میں کبڑے ملک میں چلتے پھرتے نظر آئیں۔ اگر کبھی نیشنل جیوگرافک ٹیلی ویژن والوں کی نظر ہمارے کبڑوں پر پڑ گئی تو وہ ہمارے کبڑوں پر ایک عدد تحقیقی ڈاکیومنٹری بنانے میں دیر نہیں کریں گے اور ہمارے کبڑے ہونے کے راز سے پردہ اٹھا دیں گے، اس سے ملک کی ساکھ متاثر ہوگی۔ اٹھارہ کروڑ کی حکومت، جس کا دعویٰ ہے کہ کوئی میلی آنکھ سے پاکستان کی طرف نہیں دیکھ سکتا، اس حکومت کے دامن پر داغ لگ جائے گا۔
ایک کبڑے نے تھنک ٹینک کے ایک تھنکر سے پوچھا ”سر، آپ کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ کوئی بھی میلی آنکھ سے پاکستان کی طرف نہیں دیکھ سکتا، پھر آپ دہشت گردوں سے مذاکرات کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ کیا انہوں نے میلی آنکھ سے پاکستان کی طرف نہیں دیکھا ہے؟“
”انہوں نے میلی آنکھ دھوکر، صاف کرنے کے بعد آنکھ میں سرمہ لگا کر پاکستان کی طرف دیکھا ہے“ تھنکر نے کہا۔ ” یہی وجہ ہے کہ ہم نے طالبان سے بات چیت کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔ اگران کی آنکھ میلی ہوتی تو ہم کبھی بھی ان سے گفت و شنید کا ارادہ نہیں کرتے، تم میری بات سمجھ رہے ہونا کبڑے“۔
اگر کبڑے سمجھدار ہوتے تو پھر وہ کبڑے نہیں ہوتے۔ آپ سمجھدار ہوتے ہیں یا کبڑے ہوتے ہیں۔ آپ ایک ہی وقت میں کبڑے اور سمجھدار نہیں ہوسکتے۔ آصف زرداری صاحب جب سمجھدار نہیں تھے تب ان کی اہلیہ وفات پاگئیں اوروہ ملک کے صدر بن بیٹھے اور کبڑے نہیں رہے۔ یہ راز کی باتیں ہیں۔ اس طرح کی باتیں تب سمجھ میں آتی ہیں جب آپ کے پاس ایک عدد بھینس ہوتی ہے چونکہ آپ کے پاس بھینس نہیں ہے اس لئے آپ کبھی نہیں سمجھ سکتے کہ اٹھارہ کروڑ کی طاقتور حکومت نے دہشت گردوں کے آگے گھٹنے کیوں ٹیک دیئے ہیں! آپ جانتے ہیں کہ کچھ لوگ بھینس کے آگے بین کیوں بجاتے ہیں؟ وہ بھینس کے آگے گٹار کیوں نہیں بجاتے؟ ان دو سوالوں کے جواب میں آپ کو بتا دیتا ہوں، وہ اس لئے کہ میرے پاس کبھی ایک عدد بھینس تھی۔ جب آپ بھینس کے آگے بین بجاتے ہیں تب بھینس زیادہ دودھ دیتی ہے۔ مگر یاد رہے کہ لالچ میں آکر زیادہ دیر تک بھینس کے آگے بین بجانے سے ایک کالا ناگ کہیں سے نکل آتا ہے اور پھن پھیلا کر آپ کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے۔ جب آپ بھینس کے آگے گٹار بجاتے ہیں تب بھینس کا خوفناک بھینسا بپھر کر دوڑتا ہوا آتا ہے اور آپ کو سینگوں پر اٹھا لیتا ہے۔ اس لئے زندگی میں بھول کر بھی بھینس کے آگے گٹار بجانے کی غلطی مت کیجئے گا۔ ہمارے بزرگ جو کہہ گئے ہیں، اسی پر عمل کیجئے گا یعنی آپ بھینس کے آگے بین بجایئے گا اور کوئی ساز بجانے کی کوشش سے گریز کیجئے گا۔ لامحالہ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں ایک بھینس کی نفسیات کے بارے میں اس قدر کیسے جانتا ہوں! کیا میں گوالا تھا کہ میرے پاس ایک عدد بھینس تھی! یہ درست ہے کہ گوالیار سے آنے کے بعد میں نے ایک بھینس خریدی تھی لیکن میں گوالا نہیں تھا۔ نہ ہی مجھے دودھ بیچنے کا شوق تھا۔ مجھے دودھ پینے کا شوق تھا۔ میں پہلوان تھا۔ گوالیار میں سرکاری پہلوان تھا۔ پاکستان آنے کے بعد میں نے اپنا شوق جاری رکھا، دودھ پیتا رہا، اچھے اچھے پہلوانوں کو چت کرتا رہا۔ آخرکار بڑھاپے نے مجھے چت کردیا۔ میں نے پہلوانی چھوڑ دی، مگر دودھ پیتا رہا۔
مگر ایک روز مجھے بڑے ہی عبرت ناک تجربے سے گزرنا پڑا۔ وہ واردات میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ ایک مشٹنڈا لاٹھی تھامے میرے پاس آیا اور کہنے لگا ”یہ بھینس میری ہے“۔
”پاگل ہوگئے ہو کیا“ میں نے اسے بڑھاپے کی بے اثر ڈانٹ پلانتے ہوئے کہا ”یہ بھینس میری ہے“۔
مشٹنڈے نے پوچھا ”بڑے میاں، تیرے پاس لاٹھی ہے؟“ میں نے نفی میں سر کو جنبش دیتے ہوئے کہا ”میرے پاس لاٹھی نہیں ہے“۔ مشٹنڈے نے کہا ” تو پھر میں یہ بھینس لے جاتا ہوں“۔
میں نے غصے سے کہا ”کیسے لے جاؤ گے!“
مشٹنڈے نے مسکراتے ہوئے کہا ”سنا نہیں ہے تو نے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس“۔
اب آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ اٹھارہ کروڑ لوگوں پر راج کرنے والی حکومت نے دہشت گردوں کو بات چیت کی دعوت کیوں دی ہے۔
تازہ ترین