• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کی حکومت نے وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں جہاں معیشت کے میدان میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں وہیں یہ امید بھی پیدا ہو گئی ہے کہ پاکستان انہی کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں پولیو کے مرض کو بھی ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں جاری حکومتی کوششوں کے اعتراف کے لیے مائیکروسوفٹ کے بانی اور 'بل اینڈ ملنڈ ا گیٹس فائونڈیشن ' کے شریک چیئرمین بل گیٹس نے پاکستان کا خصوصی دورہ کیا۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں پولیو کے خاتمے سے متعلق ان کے عزم کو مثالی قرار دیتے ہوئے کورونا کی وبا کے خلاف پاکستان کے اقدامات کو سراہا۔اس موقع پر بل گیٹس کی خدمات کے اعتراف میں انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے ہلالِ پاکستان کے اعزاز سے بھی نواز ا گیا۔واضح رہے کہ پاکستان گزشتہ 25 برس سے پولیو کےخاتمے کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس جنگ کا سب سے بڑا ہتھیا ر پولیو ویکسین ہے جو بل گیٹس فائونڈیشن کی طرف سے فراہم کی جاتی ہے۔ اس طویل عرصے میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ بل گیٹس خود پاکستان آئے۔ وزیر اعظم سے ملاقات کے علاوہ انہوں نے انسدادِ پولیو پروگرام کا دورہ کیا اور انسداد پولیو پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر شہزاد بیگ نے انہیں پولیو اور کورونا کی روک تھام سے متعلق اقدامات سے آگاہ کیا۔اس موقع پر بل گیٹس نے پاکستان کے پولیو ورکرز، ہیلتھ ورکرز اور والدین کے تعاون کو بھی سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک سال سے پولیو فری ہے۔ انہوں نےاس بات کی بھی یقین دہانی کروائی کہ پاکستان کے ساتھ پولیو پروگرام میں تعاون جاری رکھا جائے گا۔ بل گیٹس کی وزیراعظم عمران خان سےدیگر موضوعات پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی اور امید کی جا رہی ہے کہ پولیو کے خاتمے میں تعاون کی طرح بل گیٹس پاکستان کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے بھی بھرپور تعاون فراہم کریں گے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں پاکستان اور افغانستان ہی صرف دو ایسے ممالک ہیں جہاں پولیو وائرس بچوں کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔تحریک انصاف کی حکومت نے طویل عرصے سے بے قابو اس مرض پر قابو پانے کے لیے جو موثر اقدامات کئے ہیں۔ ان کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان بھر میں گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے کے لیے دو لاکھ 85 ہزار پولیو ورکرز فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں چلنے والی انسداد پولیو مہم کی مانیٹرنگ کے لیے دنیا کا سب سے بڑا سرویلنس نیٹ ورک قائم کیا گیا ہے۔ اس نیٹ ورک کے ذریعے کوالٹی ڈیٹا اکٹھا کرکے اس کا بروقت تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ جدید ترین لیبارٹریز کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم کیا گیا ہے جسے وبائی امراض اور صحت عامہ کےبہترین ماہرین کی زیر نگرانی چلایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1994 میں جب پہلی مرتبہ پولیو سے متاثرہ بچوں کا ڈیٹا اکھٹا کرنا شروع کیا گیا تھا تو ایک سال میں 22 ہزار پولیو کیس رپورٹ ہوئے تھے جبکہ گزشتہ سال جنوری میں یہ تعداد کم ہوتے ہوتے صفر پر آ گئی ہے۔یاد رہے کہ پاکستان میں پولیو کے آخری کیس کی تصدیق گزشتہ سال 27 جنوری کو اس وقت ہوئی تھی جب بلوچستان کے شہر قلعہ عبداللہ سے تعلق رکھنے والے ایک بچے کے جسم سے حاصل کیے گئے نمونوں میں پولیو کے جراثیم پائے گئے تھے۔تاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ اس کیس کے بعد سے پاکستان میں کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا۔ یہ بات اس لیے بھی بہت خوش آئندہے کہ پاکستان 'پولیو فری ' ہونے کا اعزاز حاصل کرنے کے مزید قریب ہو گیا ہے کیونکہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے معیار کے مطابق کسی ملک میں اگر لگاتار تین سال تک کوئی پولیو کیس رپورٹ نہ ہوتو اسے پولیو سے پاک ملک قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح جہاں پاکستان کو ایک وبائی مرض سے نجات مل جائے گی وہیں پاکستان کے شہریوں کو بھی عالمی سطح پر بعض پابندیوں کا سامنا کرنے سے مستقل نجات مل جائے گی۔ ان تمام تر اچھی باتوں کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ اگرچہ گزشتہ ایک سال کے دوران ملک بھر میں پولیو کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا لیکن اب بھی مختلف علاقوں کے پانی کے نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کے شواہدپائے گئے ہیں۔اس حوالے سے خیبر پختونخوا کے دو اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں قابل ذکر ہیں۔ اس لیے انسدادِ پولیو پروگرام کی زیادہ توجہ اب خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع پر ہے تاکہ وہاں کے ماحول میں موجود پولیو وائرس سے بچوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔حکومت، عالمی اداروں اور پولیو ورکرز کی انتھک محنت کے باوجود ماحولیاتی نمونوں سے پولیو وائرس کا ملنا اچھی خبر نہیں اور اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان سے یہ بیماری ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئی۔ ا ن حالات میں جہاں ملک کے اندر انسدادِ پولیو کی سرگرمیوں کو پوری تندہی سے جاری رکھنے کی ضرورت ہے وہیں افغانستان سے اس وائرس کی پاکستان منتقلی پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حال ہی میں افغانستان میں ملنے والے پولیو وائرس کی جینیاتی رپورٹ نے اس کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ثابت کیا ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پولیو وائرس کی دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان نقل و حرکت موجود ہے۔ان شواہد سے اس بات کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے کہ اگر پاکستان کو پولیو سے پاک کرنا ہے تو پاکستان کے ساتھ تعاون کرنےوالے عالمی اداروں کو افغانستان میں بھی اس مرض پر قابو پانے کے لیے زیادہ سے زیادہ وسائل مختص کرنے چاہئیں تاکہ دونو ں ملکوں کے بچوں کو اپاہج بنانے والے اس وائرس کا مستقل خاتمہ کر کے پوری دنیا کو پولیو فری بنایا جا سکے۔

تازہ ترین