حال ہی میں اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں امریکی جاسوس اداروں کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیاں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ عاصمہ جہانگیر کو قتل کرانے کی سازش میں ملوث رہی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق عاصمہ کے قتل کا ایک منصوبہ مبینہ طور پر یہ بھی تھا کہ ان کو ان کے بھارت کے دورے کے موقع بھارت میں ہی قتل کرادیا جائے۔ اخبار ”واشنگٹن پوسٹ“ نے اپنی ”رازوں سے بھرے بستے ٹائپ ایسی رپورٹ میں امریکی حکام کے حوالے سے ان کا ایک تبصرہ بھی شائع کیا ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اپنی راہ سے ایسے لوگوں کو جسمانی طور پر ہٹاتی رہی ہے جن کو وہ اپنا دشمن تصور کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے اس کا سبب ماضی قریب میں پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بڑھتی ہوئی ماورائے عدالت ہلاکتوں پر ان کی سخت تشویش کو بھی بتایا ہے کیونکہ پاکستان میں کئی لوگوں کو دہشت گردی کے ذریعے ماورائے عدالت ہلاک کئے جانے کا سراغ اسٹیبلشمنٹ کے دروازوں تک جاتا ہے۔عاصمہ جہانگیر کو مبینہ طورپر قتل کرانے کے منصوبوں پر ہوسکتا ہے امریکی حکام کو حیرت ہو اور یہ بھی کوئی راز ہو لیکن پاکستان میں ان جیسے لوگوں کے خلاف ریاستی اور غیر ریاستی ، دیکھی اور اَن دیکھی قوتوں کی طرف سے قتل کے منصوبے اور کوششیں انتہائی تشویش اور صدمے کی بات تو ہے لیکن خود عاصمہ اور پاکستان کے لوگوں کیلئے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ عاصمہ گزشتہ سال جون میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ان کو قتل کرنے کے مبینہ منصوبوں کو پریس کانفرنس کر کے بتاتی رہیں لیکن تب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اس کی تردید کی تھی۔ اب ایک بار پھر عاصمہ جہانگیر نے اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونیوالے ایسے انکشاف کے بعد حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس سازش کی تحقیقات کی جائے لیکن کسی کے تلوں میں اتنا تیل کہاں کہ وہ قتل کے منصوبے کی مبینہ سازش کی اعلیٰ عدالتی تحقیقات کا حکم دے سکے۔ کیا اس مبینہ سازش کے انکشاف کے بعد اس پر بھی کوئی ازخود نوٹس جاری ہو سکے گا؟
حسین حقانی کے خلاف ایک منصور اعجاز کے برطانوی اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون پر تو نوٹس لیا گیا تھا اور ملک کی ایک طاقتور ایجنسی کے اس وقت کے سربراہ منصور اعجاز سے تحقیقات کرنے خود لندن گئے تھے۔ موجودہ وزیر اعظم نے بھی حسین حقانی کے خلاف بنفس نفیس سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی۔ عاصمہ جہانگیر حسین حقانی کی وکیل تھیں کیونکہ وہ اپنے والد ملک جیلانی کی طرح بچپن سے ہی گرے اور پچھڑے ہوئے لوگوں کے دفاع میں آگے آتی رہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ موجودہ وزیر اعظم نے ملک میں گزشتہ انتخابات کے دوران بطور نگران وزیر اعظم عاصمہ جہانگیر کا بھی ایک نام تجویز کیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ قتل کی اس مبینہ سازش کے خلاف کوئی حکم جاری کرتے ہیں کہ نہیں۔ عاصمہ کے مطالبے کو سنجیدگی سے فوری طور پر لئے جانے کی اشد ضرورت ہے اس سے قبل کہ بہت دیر ہوجائے۔ اس سے قبل اس ملک میں پرویز مشرف کے دنوں میں سابق وزیر اعظم اور پی پی پی کے سربراہ، اپنے قتل کی سازش کا انکشاف کرتی رہیں، اپنے ممکنہ قاتلوں کے نام بھی لیتی رہیں لیکن ان کی بات کو ظاہر ہے نہ آمر نے سنجیدگی سے لیا اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ نے، اور اپنے قتل کی سازشوں کا انکشاف کرنیوالی بے نظیر آخر قتل ہو ہی گئیں۔ ایسی ہلاکتوں اور خونی ڈراموں کے کوریو گرافر اور ڈائریکٹروں کا کمال ہنر، فن قتل تو دیکھیں کہ بے نظیر بھٹو کو بھی اسی کمپنی باغ میں قتل کیا گیا جس میں پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قتل کیا گیا تھا۔ دونوں وزرائے اعظم کے قاتل آج تک نامعلوم ہیں۔ بقول اقوام متحدہ تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ کے اقوام متحدہ اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیش کار بھی نہ ڈھونڈ سکے کہ بینظیر بھٹو کو مشرف نے قتل کرایا، اسٹیبلشمنٹ نے، خفیہ ایجنسیوں نے یا طالبان اور القاعدہ نے یا ایم کیو ایم نے یا آصف علی زرداری نے، کوئی نہیں جانتا کہ خون خاک نشیناں تھا جو رزق خاک ہوا۔ تخت پر بیٹھنے کی تیسری باری کا خواب لے کر آنے والی اس ملکہ کو پاکستان کے خاک نشینان اپنا لیڈر مان بیٹھے تھے۔ غلط یا صحیح پاکستان کے اکثر عوام کے دلوں کی اس ملکہ کو تبھی تو سندھ کے لوگ شہید رانی کہتے ہیں۔ وہ رانی جس کے راجہ نے پانچ سالوں میں ساری کہانی ہی بدل دی ہے۔ باری باری اک واری شریف تو درجھے زرداری۔ وہ ریاستیں اور حکومتیں جو انسانی حقوق کا احترام نہیں کرتیں وہ انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کو اپنی آنکھوں کا کانٹا سمجھتی ہیں۔ ایسی ریاستیں اور حکومتیں ایسے لوگوں کو راہ سے ہٹانے کی سازشوں میں ہمہ تن مصروف ہوتی ہیں۔ عاصمہ کوئی پارٹی نہیں وہ انسانی حقوق کی ایک سرگرم ایکٹوٹسٹ ہیں۔ اسی لئے ہر دور حکومت کا ٹرائیکا یا اسکوائر انکے خلاف ہوتے ہیں۔دائیں بازو کی اب غیرت مند بریگیڈ بعض جماعتیں اور دہشت گرد ٹولے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ان کی جان کے درپے رہے ہیں۔
وہ بہت نڈر ہیں جنہوں نے اپنی کمسنی میں عاصمہ جیلانی بنام ریاست ذوالفقار علی بھٹو کی ایمرجنسی کیخلاف اور انسانی بنیادی حقوق کے حق میں پٹیشن داخل کی تھی جسے عاصمہ جیلانی لینڈڈمارک کیس کہا جاتا ہے۔ اس کیس کے فیصلے میں ججوں نے یحییٰ خان اور اس کے تمام ٹولے کو صرف تب غاصب قرار دیا تھا جب یحییٰ خان سمیت وہ غاصب ٹولہ اقتدار میں نہیں رہا تھا۔
لیکن عاصمہ آج تک سول چاہے غیر سول غاصبوں اور انسانی حقوق کا احترام نہ کرنے والوں کے خلاف للکار بن کر کھڑی ہوئی ہیں۔ پھر وہ امانت مسیح اورسلامت مسیح ہوں کہ آسیہ بی بی، لال مسجد کی طالبات ہوں کہ اکبر بگٹی اور سیکڑوں بلوچ، سندھ میں وڈیروں کی نجی میں قید ہاری ہوں یا ہاریانیاں، سندھ کی زبرستی تبدیلی مذہب کی شکار لڑکیاں ہوں کہ دیگر مذہبی اقلیتوں کے لوگ، ونی اور کاروکاری کی شکار عورتیں ہوں کہ مشرف دور میں نظربند جج ہوں کہ قدغن تلے آئی ہوئی عدلیہ اور میڈیا۔ کراچی میں تین فوجی آپریشن ہوں مختاراں مائی اور اس جیسی دیگر خواتین کہ چاہے ان دنوں خود سابق آمر پرویز مشرف کو مقدمات کی جالوں میں گھسیٹے جانے پر ان کے ڈیو پروسس کے حق کا مسئلہ ہو جہاں جہاں انسانی حقوق کی خلاف وزری ہے وہاں عاصمہ اٹھ کے آئی ہیں۔ وہ ایجنسیوں کے پے رول پر نہیں بلکہ ایجنسیوں کی ہٹ لسٹ پر رہتی ہیں۔
بے نظیر بھٹو کو قتل کر کے اس ملک نے خود کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ تصور کیجئے اگر بے نظیر بھٹو قتل نہ ہوتیں تو آصف زرداری دبئی میں اپنے بچوں ساتھ رہ رہے ہوتے۔ اٹھارہویں ترمیم اور ان کا جمہوریت کو اپنا کاندھا دینے یا صوبہ پختونخوا کا محض نام تبدیل کئے جانے پر تیرے جانے کے بعد تیری یاد آئی ٹائپ تعریفوں کے ڈونگروں کا برسایا جانا اپنی جگہ لیکن اگر ملک کو ناقابل تلافی نقصان کا اندازہ لگانا ہے تو سندھ میں جا کر دیکھیں۔ برسبیل تذکرہ صرف تعلیم اور تعلیمی اداروں کی جو تباہی ہوئی ہے کا اندازہ گزشتہ دنوں ایک سندھی ٹی وی چینل پر پیش کردہ رپورٹ دیکھ کر ہوتا ہے جو زرداری کی باقیات وائس چانسلرکے ہاتھوں سندھ یونیورسٹی کی تباہی ہوئی ہے اس کا خمیازہ سندھ نسلوں تک بھگتے گا۔ دوسرے سندھ کی زمینیں مال غنیمت کے طور لٹی اور بٹی ہیں، نوکریاں پیسوں پر بکی ہیں لیکن یہاں تو باری باری اور اقتدار کی میوزیکل چیئر لگی ہوئی ہے۔کہتے ہیں کہ ان کے دور میں سیاسی قیدی نہیں تھے۔ یہ گمشدہ بلوچ اور سندھی قوم پرست کون ہیں؟ عاصمہ نے گمشدہ لوگوں کی پٹیشن داخل کی۔ عاصمہ حسین حقانی کے دفاع کی وکیل ہیں۔ حسین حقانی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے راندہ درگاہ۔اب اسٹیبلشمنٹ عاصمہ کے درپے ہے۔ عاصمہ کو ریاستی اداروں اور اسٹیبلشمنٹ نے ایسا برتا ہے جیسا وہ ان کے والد کے دوست شیخ مجیب الرحمن کو برتتی تھی، خیر بخش مری ، عطاء اللہ مینگل ، بزنجو ، بگٹی اور جی ایم سید کو برتتی تھی۔ اب کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔ وہ بھی جو بے نظیر بھٹو اور عاصمہ کو قتل کرنے کی سازشوں میں ملوث بتائے جاتے ہیں ان سے تو حکومت نے مذاکرات کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔
عاصمہ پر ایک قاتلانہ حملہ ڈیرہ موڑ کشمور کے نزدیک اس وقت بھی ہوا جب وہ اکبر بگٹی کی دعوت پر بلوچستان کی صورتحال پر اپنا فیکٹ فائنڈنگ مشن لیکر ڈیرہ بگٹی جارہی تھیں مگر عاصمہ باز نہیں آئیں۔
بس جانوروں کے حقوق اور ان سے محبت کرنے والوں سے معذرت کے ساتھ بقول فیض:
ہے اہل دل کیلئے اب یہ نظم بست کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد