• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نوازشریف کا کراچی امن مشن جس کا مقصد کئی دہائیوں سے کراچی میں جاری بدامنی، خونریزی، بھتہ خوری اور ہر قسم کی دہشت گردی کو ختم کرنا ہے‘ یقیناً ایک مثبت پیشرفت ہے‘ حالانکہ اس دوران کچھ وفاقی وزراء اور حکام اور ساتھ ہی اسلام آباد کے میڈیا کی طرف سے کچھ ایسی بچگانہ باتیں کی گئیں جن کے نتیجے میں یہ سارا عمل سبوتاژ بھی ہوسکتا تھا مگر خوش قسمتی سے وزیراعظم نے اس منفی عمل کا بھی فوری تدارک کیا اور صورتحال خراب ہونے سے بچ گئی‘ ابتدائی طور پر کچھ وفاقی وزراء اور خاص طور پے وزیر داخلہ کے بیانات سے کچھ ایسا لگ رہا تھا کہ مرکز سندھ حکومت کو Dictate کررہا ہے اور یہ ساری ذمہ داری پنجاب کے میڈیا کو دے دی گئی ہے‘ کراچی میں وزیراعظم نے اعلیٰ حکام سے‘ سندھ حکومت سے‘ میڈیا سے اور متعلقہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے کئی اجلاس کئے۔ اس کے بعد اطلاعات کے مطابق سندھ کے ”خاموش“ اور Depressed وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کی رضا مندی سے فیصلہ کیا گیا کہ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن یا ایکشن کی قیادت رینجرز کرے گی اور سندھ پولیس اس کی مدد کرے گی‘ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ فی الحال سندھ کی خود مختاری کو کسی حد تک گزند نہیں پہنچی ہے۔ مجموعی طور پر کم و بیش اس آپریشن کی باگ ڈور سندھ کے وزیراعلیٰ کے ہاتھوں میں ہی دی گئی ہے‘ اس کے باوجود سندھ کے کئی حلقوں میں اب بھی کسی حد تک شکوک ہیں کہ شاید کسی وقت معاملہ سندھ حکومت کے ہاتھ سے نکل جائے اور آخرکار مرکز سندھ میں گورنر Role نافذ کرے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ خود سندھ کے لوگ متعدد وجوہ کی بنا پر سندھ کی موجودہ پی پی حکومت اور خاص طور پر وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی نہیں چاہیں گے کہ سندھ کے عوام کی طرف سے منتخب کی گئی کیسی بھی لولی لنگڑی حکومت کو ہٹانے کے لئے مرکز اپنی من مانی کرے۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا سندھ کے اندر منفی ردعمل ہوسکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم نے منگل اور بدھ کو ہونے والے اجلاسوں کو انتہائی ذہانت سے کنڈکٹ کیا مگر سندھ کے وہ عناصر جو ماضی میں ہونے والے ایسے آپریشن کا تجربہ اور معلومات رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ بات نوٹ کی کہ جس طرح ان اجلاسوں میں ہونے والی کارروائی اور وزیر داخلہ کی طرف سے آپریشن کی تفصیلات کو ٹی وی چینلز کے ذریعے ظاہر کیا گیا وہ یقیناً ایک Strategic Blunder ہے۔ جمعرات کو جب میں نے یہ کالم لکھا تو سارا دن میں اسی سلسلے میں اس صورتحال سے تعلق رکھنے والے متعدد حکام اور عناصر سے گفتگو کرتا رہا۔ ان کا خیال ہے کہ آپریشن کی تفصیلات ظاہر کرنے کے بعد اب اکثر دہشت گرد اور بڑے کرمنلز شہر سے غائب ہوچکے ہیں شاید کئی ملک سے باہر بھی جاچکے ہیں۔ اب شاید رینجرز وغیرہ کو کوئی Wanted دہشت گرد اور بڑا مجرم ہاتھ نہ لگے۔ ایسی صورتحال میں شاید خانہ پری کی خاطر کچھ لوگوں کو پکڑ کے نظربند کرکے بعد میں شاید کچھ ثابت نہ ہونے پر ان کو چھوڑنا پڑے۔ اس سلسلے میں مختلف حلقوں سے بات چیت کے دوران مجھے ماضی کا ایک دلچسپ قصہ سنایا گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ 1992ء میں وزیراعظم نواز شریف نے کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا‘ بعد میں جب 1994ء میں پی پی کی حکومت آئی تو سندھ کے اس وقت کے وزیراعلیٰ سید عبداللہ شاہ کی رائے تھی کہ فوج کو خواہ مخواہ پھنسایا گیا ہے‘ یہ کام پولیس بخوبی کرسکتی ہے لہٰذا سب سے پہلے انہوں نے سندھ میں اپنے مشیروں، کچن کابینہ کے ممبران اور اپنے اعتماد والے اعلیٰ حکام سے اس سلسلے میں مشورے کئے‘ بعد میں انہوں نے وزیراعظم بے نظیر بھٹو سے ملاقات کرکے ان کے سامنے اپنا یہ پلان پیش کیا جسے وزیراعظم صاحبہ نے او کے کیا اور طے کیا گیا کہ سندھ حکومت سندھ پولیس کے ذریعے آپریشن کرے گی اور اس سلسلے میں پاکستان کے اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ جنرل نصیراللہ بابر ان کی معاونت کریں گے‘ مجھے بتایا گیا حالانکہ طے ہوچکا تھا کہ آپریشن فلاں تاریخ سے سندھ پولیس کرے گی مگر حکمت عملی کے طور پر ایسا کوئی اعلان کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا‘ فقط یہ اعلان کیا گیا کہ فلاں تاریخ کو سندھ کے وزیراعلیٰ ٹی وی اور ریڈیو پر خطاب کے دوران دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے بارے میں اہم اعلان کریں گے۔ ساتھ ہی جرائم پیشہ عناصر کو مغالطے میں رکھنے کے لئے اسی دن سندھ حکومت کی طرف سے ایک پریس ریلیز جاری کرکے عندیہ دیا گیا کہ حکومت کراچی میں فوجی آپریشن میں Extension کرنے پر غور کررہی ہے‘ مگر اس دن عبداللہ شاہ نے ریڈیو اور ٹی وی پر صوبے کی عوام کو خطاب کرکے فوجی آپریشن بند کرنے اور آپریشن پولیس کے ذریعے کرنے کا اعلان کیا یہ دہشت گردوں کے لئے سرپرائز تھا اوروہ اس کے لئے تیار نہ تھے‘بعد میں اس آپریشن کے نتیجے میں اکثر رائے بڑی مثبت رہیں کہ اس آپریشن میں دہشت گردی کی جڑیں کافی حد تک کاٹ دی گئی تھیں۔ واضح رہے کہ جب وزیراعظم نواز شریف نے کراچی میں دہشت گردی وغیرہ کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے کے سلسلے میں مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے کئے تو ابتدائی طور پر متحدہ قومی موومنٹ نے انتہائی زور دار انداز میں موٴقف رکھا کہ یہ آپریشن فوج سے کرایا جائے اور اس کیلئے کراچی فوج کے حوالے کیا جائے‘ بعد میں دوسری جماعت اے این پی نے بھی کسی حد تک اس مطالبے کی حمایت کی مگر باقی دیگر سب سیاسی و مذہبی جماعتوں اور شاید سارے سول اور عسکری اداروں نے سختی سے اس تجویز کی مخالفت کی اور اس بات پر غور کیا گیا کہ آپریشن پولیس یا رینجرز کے ذریعے کیا جائے‘ اتنی جماعتوں کے اس موقف کے بعد ایم کیو ایم اور اے این پی کو بھی اپنے موقف کو نرم کرنا پڑا اور وہ بھی آپریشن رینجرز سے کرانے کے لئے راضی ہوگئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتدا میں جب ایم کیو ایم نے اور جزوی طور پر اے این پی نے کراچی میں آپریشن فوج کے ذریعے کرنے کا زور دار موٴقف آگے رکھا تو اس کے لئے ان کے پاس جواز ہوگا‘ ان کی اپنی assensment کی ایماندارانہ تقاضا ہوگی کہ آپریشن فوج سے ہی کرایا جائے‘ اس سلسلے میں ضروری نہیں کہ ان کے کوئی منفی عزائم ہوں مگر جب اس کے ردعمل میں ملک بھر کی سیاسی جماعتوں اور شاید اکثر عکسری اداروں کی طرف سے بھی کراچی میں فوجی آپریشن کی تجویز کو سختی سے رد کیا گیا تو ملک بھر سے کئی نئی آراء بھی سامنے آئیں‘ کچھ ایسے بھی اندیشے تھے کہ اگر کراچی میں فوج کے ذریعے آپریشن کرایا جاتا تو یہ بعد میں شاید نہ فقط فوج مگر خود ملک کے لئے بھی ایک بین الاقوامی Trap ثابت ہوسکتا تھا‘ ہوسکتا ہے کہ جب ایم کیو ایم اور اے این پی اس مطالبے سے ہٹ گئیں تو بعد میں ان کے علم میں بھی ایسی کوئی بات آئی ہو‘ کیوں کہ کوئی بھی پارٹی ملک کی سا لمیت کو نقصان پہنچانے کے لئے تیار نہیں ہوسکتی۔ فی الحال یہ غیر تصدیق شدہ آراء ہیں‘ ہوسکتا ہے کہ وقت آنے پر اس سلسلے میں بھی حقائق سامنے آئیں‘ کچھ لوگ افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوجوں کی واپسی کے بعد امریکہ کے لئے کراچی پورٹ کی اہمیت بڑھ جانے والے امکانات کی روشنی میں ان اندیشوں کا جائزہ لے رہے ہیں‘ کراچی میں امریکہ کی دلچسپی کے بارے میں بھی مجھے جمعرات کو سندھ کے سابق وزیراعلیٰ سید عبداللہ شاہ کے کچھ قریبی ساتھیوں نے ایک اور حیرت انگیز انکشاف کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک دن گورنر ہاؤس میں امن و امان کے بارے میں میٹنگ تھی‘ اس وقت سندھ کے گورنر کمال اظفر تھے۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ سید عبداللہ شاہ سندھ کے اس وقت کے ہوم سیکریٹری جو شاید اس وقت شاہد حامد تھے اور کچھ دیگر حکام بھی اجلاس میں موجود تھے گورنر کو بتایا گیا کہ امریکہ سے آئی نائب وزیر خارجہ رابن رافیل کراچی آئی ہوئی ہیں اور وہ ان سے Courtesy Call پر ملنا چاہتی ہیں‘ گورنر نے بھی انکار نہیں کیا‘ رافیل جب وہاں پہنچیں تو وزیراعلیٰ اور دیگر حکام بھی وہاں موجود تھے۔ گورنر کے ساتھ رابن رافیل کی ملاقات کے دوران اچانک سید عبداللہ شاہ نے ہلکے پھلکے انداز میں رافیل سے شکایت کی کہ کراچی میں ہم دہشت گردوں کا گھیراؤ کرتے ہیں تو ان کو آپ کے ملک کا ویزا مل جاتا ہے اور وہ دہشت گرد بچ کر آپ کے ملک میں جاکر پناہ لیتے ہیں‘ یہ سن کے رابن رافیل آگ بگولا ہوگئیں اور کہا کہ آپ پاکستانی اکثر باتیں غیر ذمہ داری سے کرتے ہیں‘ آپ کے پاس اس کا ثبوت ہے؟ شاہ صاحب اس سوال کے لئے تیار نہ تھے‘ اسی دوران وہاں موجود سندھ کے ہوم سیکریٹری اپنی سیٹ سے اٹھے اور وزیراعلیٰ کے پاس پہنچ کر ان کو فائل دی اور کہا کہ اسے پڑھیں فائل کھول کر عبداللہ شاہ فارم میں آگئے اور انہوں نے اس فائل سے ان سارے دہشت گردوں کی تفصیلات ان کو بتانا شروع کردیں کہ کون دہشت گرد کے خلاف کون سی ایف آئی آر کس تاریخ کو داخل کی گئی اور کس تاریخ کو اسے امریکی ویزا ملا اور وہ ملک سے کھسک گیا‘ یہ ملاقات یہیں ختم ہوئی اور رابن رافیل خاص طور پر ہوم سیکریٹری کے پاس آئیں اور زور دار انداز میں ان سے ہینڈ شیک کیا اور ان کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ ”آپ تو بڑے Competent ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ رافیل کے جانے کے بعد سید عبداللہ شاہ ہوم سیکریٹری کے پاس آئے اور کہا کہ رافیل تو آپ کو ایک طرح کی دھمکی دے گئی ہیں‘ کچھ ہی دنوں کے بعد مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد پی پی حکومت ختم ہوگئی اور ہوم سیکریٹری کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے ایم ڈی بنائے گئے‘ ان دنوں ایک دن وہ گھر سے کے ای ایس سی کے دفتر آرہے تھے تو مسلح دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے اس کا کام تمام کردیا‘ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اب جب آپریشن شروع ہوا ہے تو رینجرز کی ذمہ داری بنتی ہے کہ کم سے کم شاہد حامداور مقتول صحافی ولی خان بابر کے قاتلوں کی شناخت ہی کی جائے‘ لوگ کہتے ہیں کہ سب کو پتہ ہے کہ ان کے قاتل کون ہیں۔ ”پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے‘ باغ سارا جانے ہے“۔ بہرحال آپریشن کراچی میں شروع ہوچکا ہے ‘ نہ فقط کراچی مگر سندھ اور پاکستان بھر سے لوگ آپریشن کا جائزہ لے رہے ہیں‘دیکھیں آگے آگے ہوتا ہے کیا۔
تازہ ترین