• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے سب سے بڑے ضمنی الیکشن آئے اور بخیر و خوبی گزر بھی گئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے جیالے خاموش ہی نہیں پریشان و پشیمان دکھائی دیئے۔ ایک وہ مئی کے الیکشن کا زمانہ تھاجس میں تحریک انصاف کے جیالے ہر محفل میں شمشیر بکف نظر آتے تھے۔ ان کو اپنے مسیحا عمران خان پر یقین کامل تھا اور اپنے متبرک رہنما کے خلاف معمولی سے اعتراض پر بھی ان پر ہذیانی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب تحریک انصاف کے پارٹی الیکشنوں سے پہلے عمران خان کا بگولا آندھی کی طرح نظر آتا تھا پھر جس طرح سے ملکی الیکشن کیلئے (بقول ان کے) ٹکٹوں کی بندر بانٹ ہوئی اس سے تارکین وطن میں تحریک انصاف کے بہت سے دیوانے سکتے میں رہ گئے۔
یہاں ہم ان دیوانے پرندوں کی بات نہیں کر رہے جن کا معمول فیس بک اور ٹوئیٹر پر معزز ترین لوگوں کے خلاف دشنام طرازی تھا بلکہ ہم ان سنجیدہ صاحب ثروت پروانوں کی بات کر رہے ہیں جو تن من دھن سے عمران خان کی پارٹی کو ساتویں آسمان پر لے جانے کیلئے ہردم بیتاب رہتے تھے۔ انہوں نے پارٹی کیلئے لاکھوں ڈالر ہی جمع نہیں کئے بلکہ وہ پارٹی کے اسلام آباد دفتر کے پورے اخراجات امریکہ سے جمع کرکے بھیجتے تھے۔ شاید یورپ اور دوسرے ملکوں کے تارکین وطن دوسرے شہروں کے دفاتر کے اخراجات بھی برداشت کرتے ہوں گے لیکن ہمیں اس کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ تحریک انصاف کے ان جنونی جیالوں کو یقین تھا کہ اب انصاف کا سورج پاکستان میں طلوع ہو چکا ہے۔ لیکن جب آنکھ کھلی اور سحر ٹوٹا تو اس کا اندازہ اس ای میل سے لگائیے (اس کی کاپی ہمارے پاس محفوظ ہے) جو عمران خان کے ایک سیاسی عاشق نے لکھ کر سیکڑوں لوگوں کو روانہ کی۔ ای میل کے الفاظ میں ”پارٹی پر بدعنوانی، مفاد پرستی، اقربا پروری، مالی غبن اور زمینوں کی ڈیلوں میں ہیرا پھیری معمول کا حصہ ہے۔ پارٹی کے اندر انتخابات میں رقوم کے لین دین کے علاوہ ٹکٹوں کی تقسیم میں چمچہ نوازی عام تھی۔ پارٹی ٹکٹ جعلی ڈگری والوں اور بینک قرضوں کے نادہندگان کو بھی دیئے گئے۔مثال کے طور پر پارٹی لیڈر شپ ایک خاتون کو گوناگوں عہدوں کیلئے بڑھاوا دیتی رہی جبکہ ان کو علم تھا کہ ان کی ڈگری جعلی ہے۔ اب جب عدالت نے ان کی ڈگری کو جعلی قرار دے دیا ہے تو پارٹی محض تمسخر کا نشانہ بن کر رہ گئی ہے“۔اس کے علاوہ ای میل میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے تارکین وطن جو الیکشن کے دوران انصاف فلائٹ پر پاکستان پہنچے تھے عام کارکنوں کی باتیں سن کر سکتے میں رہ گئے تھے۔ انہوں نے جو خود بھی دیکھا وہ بھی کافی تشویشناک تھا۔ اب حال یہ ہے کہ باوثوق ذرائع کے مطابق امریکہ سے ایک بہت بڑے ڈونر اور منتظم نے عمران خان کو شکایت بھرے ای میل لکھے اور ان کومذکورہ خاتون کو نامزد کرنے سے روکنے کی کوشش کی ان کو عمران خان نے بقلم خود لکھا کہ وہ ان کو نہ کبھی ای میل لکھیں اور نہ ہی پی ٹی آئی سے کوئی تعلق واسطہ رکھیں۔جب وہ خاتون جعلی ڈگری کی بنا پر انتخابا ت کے لئے نااہل قرار دے دی گئیں تو اسی جیالے نے عمران خان کو اپنی نصیحت یاد دلائی جس کا انہیں کوئی جواب نہیں ملا۔ تحریک انصاف کے تارکین وطن جیالوں کو شکایت بھی یہی ہے کہ کوئی ان کی بات سننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ جب تک وہ چندے جمع کرتے رہیں تو وہ اچھے سمجھے جاتے ہیں اوراگر وہ پارٹی اخراجات میں شفافیت کا تقاضا کریں تو ولن قرار دے کر باہر پھینک دیئے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف خود شفافیت کا مظاہرہ نہیں کر سکتی تو وہ ملک میں صاف شفاف نظام کیسے نافذ کر سکتی ہے۔ امریکہ کے تحریک انصاف کے جیالوں میں فوزیہ قصوری کے ساتھ ہونے والے سلوک کو بھی بہت ناروا سمجھا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے عام جیالے کی نظر میں فوزیہ قصوری نے پارٹی کیلئے جو کچھ کیا وہ بے مثال تھا۔تارکین وطن پی ٹی آئی کے دلبرداشتہ منتظمین نے یہ بھی اعتراض کیا کہ خیبرپختونخوا کی اسمبلی کی ایک اہم شخصیت کے حلقے کیلئے پانچ ارب مختص کئے گئے جبکہ پارٹی پالیسی اس طرح کے فنڈ دینے کے واضح طور پر خلاف ہے۔ اسی طرح ایک ایم پی اے کو نو کروڑ روپے اسپتالوں میں افطاری ڈنر فراہم کرنے کیلئے دیئے گئے حالانکہ ان کی شہرت انتہائی داغدار ہے۔ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویزخٹک کا حوالہ دیکر کہا گیا ہے کہ انہوں نے خود تسلیم کیا ہے کہ پارٹی میں خوردبرد ہوئی ہے۔ اس سارے پس منظر میں تارکین وطن پی ٹی آئی کے بڑے ڈونر اور آرگنائزر یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ پارٹی فنڈ کے استعمال کی شفافیت ثابت کرنے کیلئے ایک کمیشن بنایا جائے۔ خدا معلوم اس میں سے کتنے اعتراضات درست ہیں اور کتنے نہیں لیکن ہماری اطلاع کے مطابق اب پی ٹی آئی کا امریکہ چیپٹر اسلام آباد دفتر کے اخراجات ادا نہیں کر رہا ہے۔ عمران خان کے دیرینہ رفقائے کار بھی واضح طور پر کہتے ہیں کہ جب تک پارٹی فنڈز کے معاملے میں شفافیت ثابت نہیں کرتی امریکہ یا کینیڈا میں اس کیلئے بڑی فنڈ ریزنگ ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔اب ان کے سابقہ عاشقان یہ کہتے ضرور سنائی دیتے ہیں کہ عمران خان خود ایماندار ہیں لیکن ان کے اردگرد کے لوگ شفاف نہیں ہیں۔ اب یہ بھی تسلیم کیا جا رہا ہے کہ عمران خان میں قائدانہ صلاحیتیں ناپید ہیں جس کی وجہ سے وہ غلط لوگوں کے نرغے میں پھنس گئے ہیں۔
اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب کسی مسیحا کے متلاشی رہتے ہیں اور اگر ہم کسی کو مسیحا سمجھ لیں تو اس پر اندھا اعتقاد کر لیتے ہیں۔ ایسا اندھا اعتقاد بڑے بڑے مسیحاوٴں کو مدہوش کر دیتا ہے اور وہ طاقت کے نشے میں چور ہو جاتے ہیں۔ عمران خان بھی کوئی ماورائی شخصیت تو ہیں نہیں۔ آخر کار وہ بھی عام انسان ہیں اور محدود صلاحیتوں کے مالک۔ان کے پاس تو ملکی سدھار کے لئے بھی نہ کوئی پروگرام تھا اور نہ ہے۔ وہ خیبرپختونخوا میں نوّے دن کیا نوّے مہینوں میں کرپشن ختم نہیں کر سکتے جو ان کا بڑا نعرہ تھا۔اب اگر ایسے مسیحا کی آنکھیں سیاسی طاقت کے نشے سے بند ہونے لگیں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟بنیادی مسئلہ تو ہمارے اپنے اندھے اعتقاد کا ہے۔
تازہ ترین