• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کھلا دنگا ہے

حکومت کو اگرمیڈیا پر قدغن لگانے کا فوبیا ہے تو وہ اس طرح اپنی ساکھ کو کمزور اور اپوزیشن کو موثر بنانے کی فاش غلطی کر رہی ہے۔ میڈیا الیکٹرانک یا پرنٹ نہیں ہوتا وہ ایک اکائی ہے جسے صحافت کہتے ہیں، پھیکا کالا قانون سراپا کالک ہے جس کی آبیاری جبر کرتا ہے، ہمیں حیرت ناک افسوس اور ترس آتا ہے حکومتِ وقت پر کہ وہ پیکا کی آڑ میں برسرپیکار ہونے کی خواہاں کیوںہے، میڈیا حکومت اور اپوزیشن دونوں کی زبان ہوتا اور اپنی مانیٹرنگ کرتا رہتا ہے، وہ اگرغلط اور بےبنیاد خبریں چھاپ کر، دکھا کر قوم کی نظروں میں مقام رکھتا ہے تو اس پر ’’فیک نیوز‘‘کی تہمت دھرنا پوری قوم کے ذوق اور دانش کی توہین ہے، جب ’’وہ‘‘ حکومت میں نہیں تھے، اِس رسوائے زمانہ قانون کو دشنام دیتے تھے اور اب اس کے حق میں، ہماری فقط تجویز ہے کہ حکومت میڈیا کی ایک گرینڈ میٹنگ بلائے، کہنہ مشق صحافیوں، دانشوروں اور مالکان کو اعتماد میں لے اور یہ نہ بھولے کہ میڈیا کی زبان بندی سے کاروبارِ حکومت میں سخت مندی پیدا ہو سکتی ہے، اِس وقت ہر خاص و عام کو ریاست، حکومت اور پاکستان کے دوستوں دشمنوں بارے ٹھیک معلومات فراہم کرنے کا واحد ذریعہ یہی میڈیا ہے، اس کا گلا گھونٹا تو کسی کو بھی وہ آکسیجن مہیا نہ ہوگی۔ ہمیں یقین ہے کہ وزیراعظم ہمارے مشورے کو نظر انداز نہیں کریں گے۔ میڈیا کو پاکستان کی ریاست کا ستون سمجھیں گے، اس کے مسائل حل کریں گے تاکہ مقامی میڈیا عالمی برق رفتار میڈیا سے پیچھے نہ رہے، ہر شعبے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں جن سے انفرادی طور پر خود میڈیا نمٹ سکتا ہے لیکن یہاں کسی نے ان کے کان میں پیکا جیسا کالا کیڑا چھوڑ دیا ہے کہ وہ صاحبانِ لسان و قلم کو سزا دینے کے درپے ہو گئے ہیں، یہ ان کے کسی بدخواہ گروہ نے اڑائی ہے کہ حکومت کے خلاف ہر خبر فیک ہوتی ہے اور وہ جو خود میڈیا کی پیداوار ہیں، اگر اپنے محسن کی زبان کاٹنے کا تہیہ کر لیں گے تو میڈیا کی زبان دو دھاری تلوار ہے، اس کا اظہار حسان بن ثابتؓ نے ان الفاظ میں کیا تھا ’’لسانی صارم‘‘ (میری زبان دو دھاری تلوار ہے) اور اس زمانے میں شاعری ہی میڈیا تھا جیسا کہ عرب کہتے تھے ’’الشعر دیوان العرب‘‘۔

٭٭٭٭

بلاول کو ہلکا نہ لیں

جس کی بہن چوٹ کھا کر بھی کنٹینر پر لوٹ آئی اس میں بھٹو کی اور آصفہ میں بےنظیر کی روح بھی ہو سکتی ہے، اس کے بلند آہنگ نعروں کو کسی نابالغ کا خیال نہ سمجھا جائے، وہ پڑھا لکھا بالغ نظر نوجوان سیاستدان ہے، ہم کیوں ایک منظم قوم نہیں بن سکے کہ نوجوانوں کو بڑا ہی نہیں ہونے دیتے، وہ قوم کے حق میں چیختے چنگھاڑتے ہیں تو شیر خوار سمجھ کر اس کے منہ میں فیڈر ٹھونس دیتے ہیں، کیا پتہ بلاول جو لشکرِ مظلوماں لے کر روانہ ہوا ہے وہ اس ملک میں حکمرانی کا قبلہ راست کردے، پاکستان پیپلز پارٹی کو کم از کم یہ کریڈٹ تو دینا چاہیے کہ پہلی مرتبہ یہ باور کرایا کہ اس ملک میں غریب بےدست و پا عوام بھی رہتے ہیں جن کی گردنوں پر پائوں رکھ کر ہی ہر حکمران قصرِ شاہی کے گنبد پر بیٹھا من مانی کرتا رہا، نوجوان قیادت کا ابھرنا اقبالؒ کی اس دعا کی قبولیت ثابت ہو کہ ’’جوانوں کو پیروں کا استاد کردے‘‘ اور یوں بھی ہے کہ ؎

پرانے جو بادہ کش ہیں اٹھتے جاتے ہیں

کہیں سے جوانوں کی کھیپ لا ساقی

جلد ہی بلاول جی ٹی روڈ پر ہوگا، آخر یہاں کوئی دیوارِ گریہ سے سر ٹکرانے والا تو منظر پر آیا، یہ دنیا ہے پیارے یہاں سعیٔ مسلسل سے کٹ سکتی ہیں زنجیریں۔

٭٭٭٭

حضرت شیخ کی محفل میں فقط ہنگامہ ہے

پشاور میں خون کی جو ہولی دہشت گردوں نے کھیلی یہ کہیں وہ تو نہیں جن کے ساتھ مذاکرات کے بعد حکومت کا سیز فائر معاہدہ ہوا تھا، بہرحال وہ جو مونچھوں پر خضاب لگا کر بےخبری کے عالم میں بھی داخلہ کے مدارالمہام ہیں ان کی نظر میں نظر نہیں ورنہ الرٹ جاری ہوتا، نام نہادعسکریت پسند مذہبی تنظیموں کو بیک قلم کالعدم کیوں قرار نہیں دیا جاتا، جڑیں کاٹنے سے تناور درخت ڈھیر ہو جاتے ہیں یہ تو چند پاپائیت زدہ ٹولے ہیں جو اس ملک کے معصوم نوجوانوں کی برین واشنگ کرکے انہیں خودکش بنا دیتے ہیں۔ ہم نہیں مانتے کہ افغانستان بچے ریکروٹ کیے جاتے ہیں، یہ اپنا ہی مال ہے اور اپنا ہی جال جو کمزور بچوں پر پھینکا جاتا ہے۔ بہرصورت ہمارے وزیروں کی اگر ایک تاریخ مرتب کی جائے تو ان میں وزارتی تزویر (دھوکہ دہی) کے حوالے سے چند تو بہت بلندی پر ہوں گے کیونکہ ان کا نکاح کسی نہ کسی وزارت سے رہتا ہے۔ وزارت اہم ہو یا لولی لنگڑی حضرت شیخ کو قبول ہوتی ہے، ویسے وہ کنوارے ہیں۔ الغرض پشاور میں نمازیوں کی شہادت پر وزارتِ داخلہ کو خون کے آنسو رونا چاہئیں بشرطیکہ اس کی آنکھوں میں کوئی آنسو ہو تو، شہداء بارے اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ ؎

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

٭٭٭٭

حکومت کے کنارے 57غازی شہید، جواب دہ کون؟

...oبلاول بھٹو: سلیکٹڈ عوامی طاقت دیکھ کر کانپ رہا ہے، اب وہ کانپیں نہ کانپیں مگر بلاول کے اندر عوام کے لیے خون اچھل رہا ہے۔ شاہ محمود نے جواباً کہا ہے کہ عمران کے خوف سے اپوزیشن متحد ہو رہی ہے، شاہ جی اگر یہ متحد ہو گئی تو، کیونکہ اتحاد کی کوشش کا ذکر تو آپ نے بھی کردیا۔

...oوزیراعظم: دہشت گرد کہاں سے آئے، تمام معلومات موجود ہیں، جس ہاتف غیبی نے یہ معلومات فراہم کیں انہوں نے کچھ دیر نہیں کردی، 57غازی شہید ہو گئے۔ ریاستِ مدینہ کے داعی اس کا جواب کیا دیں گے؟

٭٭٭٭

تازہ ترین