• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب آپ درست ہی کہہ رہے ہوں گے کہ ’’تیاری مکمل ہے‘‘، ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن آپ کی صبر طلب عاشقی تین سال سے تمنا کی بےتابی پر غالب ہی رہی، یوں ہوا یہ کہ حکومتی زلف سر ہوتی گئی اور آپ سکون سے ’جیتے رہے‘ اس زلف کے سر ہونے تک!

پہلے تو یہی ماننے پر مجبور رہے کہ آپ ’نامکمل‘ ٹھہرے، تیاری تو مکمل ہوگی۔ چلیے مان لیا اور یقین بھی کرلیا کہ ’’تیاری مکمل ہے‘‘ لیکن مبہم تیاریاں بھی مدہم روشنیوں کی طرح خطرناک ہوتی ہیں، راستہ عام شاہراہ کا سا ناہموار یا موٹر وے سا ہموار مگر اپنی فرنٹ بتی بجھی بجھی سی ہو تو حادثے کا خدشہ تو رہتا ہے، بےشک منزل بھی بےتابی سے منتظر ہی کیوں نہ ہو! اجی یہ احسن اقبال ہیں جنہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جلد ہی پیش کر دی جائے گی۔ ’ہماری تیاری مکمل ہے‘ 4مارچ کو اس موقع پر ایک طرف بلاول بھٹو اپنے کامیاب لانگ مارچ میں جلوہ افروز ملتان سے وسطی پنجاب کی جانب رواں دواں تھے ( واضح رہے کہ کامیاب کہا، نتیجہ خیز نہیں) اور دوسری طرف احسن اقبال کہہ رہے تھے کہ اگلے 48نہیں تو 72گھنٹوں میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہو جائے گی۔ بہرحال بلاول نے مارچ کے دوران شادیانے بجائے کہ عدم اعتماد میں ساری اپوزیشن کا اکٹھا ہونا جیالوں اور جمہوری فکر کی فتح ہے۔ یہ بات تو درست ہے کہ پنجاب میں نون لیگ جب چاہتی حکومت گرا سکتی تھی۔ کیوں نہ گرائی اِس کا جواب بھی احسن اقبال کے دو جملوں سے نکلتا ہے:

(1) ہمیں صرف ضرورت ہے کہ ریاستی ڈھانچہ غیر جانبدار رہے۔

(2) لوگوں کو اگرفون کالز نہ آئیں تو حمایت ہمارے ساتھ رہے گی۔

لیکن نہ ہٹانے کی کچھ اہم وجوہات اور بھی تھیں، (ا) آٹے میں نمک کےبرابر قاف لیگ کے سر پر وزارتِ اعلیٰ کی پگ سجانا نظریہ ضرورت تو ہو سکتا ہے جمہوری روش نہیں۔ (ب) اگر نون لیگ پنجاب میں ایسے پٹ جاتی جیسے سینیٹ میں اپوزیشن چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد لانے میں ’’نادانستہ‘‘ پٹ گئی تھی تو نون لیگ کے ہاتھ بھی کیا آتا؟ نون لیگ کو اپنا قائد جیل سے باہر حسین وادیوں اور برطانوی ہواؤں میں چاہیے تھا، خیر، وہ بھی تو ایک ڈیل تھی!

راقم نے وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے ابھی دورانِ صریر خامہ پوچھا کہ عدم اعتماد کا کیا ہوگا؟ ان کا کہنا تھا ’’لانگ مارچ و شارٹ مارچ ان سے نہیں ہونا، ان کو آج دعوت دی ہے آ جائیں میچ دیکھیں!‘‘ میں نے لانگ مارچ کا نہیں پوچھا، تحریک عدم اعتماد کے بارے میں فرمائیے، کہا ’’یہ شوشا ہے، ان سے نہیں لایا جائے گا!‘‘ مگر دوسری طرف حال ہی میں ن لیگ میں جانے والے سابق سیکرٹری جنرل احمد جواد پُرامید دکھائی دیے، انہوں نے مجھے بتایا 25حکومتی اراکین اور کچھ تحریکی قائدین کی دلربائی کا اختتام اور بےوفائی کا اصولی دور شروع ہو چکا، انہوں نے کہا جو سلسلہ مجھ سے شروع ہوا وہ آگے چل پڑا ہے۔ بطورِ خاص نور عالم خان کا نام لیا (یہ کبھی پی پی کے تھے، اب پی ٹی آئی سے بھی خفا مولانا کی زلف کے اسیر ہونے کے درپے ہیں) پھر دیوان عاشق بخاری اور یار محمد رند جیسے ممبرانِ اسمبلی اور ندیم افضل چن جیسے قائدین کا بھی نام لیا۔ ایسے ہی ایک سابق ایم این اے جو سابق ایم پی اے پنجاب بھی رہ چکے اور آج کل پی ٹی آئی میں ہیں انہوں نے مجھے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی لیکن دیارِ غیر میں مقیم حسین حقانی کہتے ہیں یہ بہت مشکل کام ہے کہ بےنظیر کے خلاف جب وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف اور آئی جے آئی سربراہ غلام مصطفیٰ جتوئی تحریک لائے تو عین کامیابی کی دہلیز پر پانسہ پلٹ گیا، باوجود اس کے کہ اسلم بیگ کی مدد حاصل تھی۔ حقانی اس وقت میاں نواز شریف کے ہم نوا تھے گویا ناکام رہنے والوں میں تھے سو ان کی بات کو نظرانداز کرنا مشکل ہے!

ماضی بتاتا ہے جب اکتوبر 1957میں اُس وقت صدر اسکندر مرزا اور وزیراعظم سہروردی کے درمیان اختلافات بڑھے تو انہیں عہدہ چھوڑنا پڑا، اسکندر مرزا نے چندریگر کو وزارتِ عظمی دے دی جو 55دن رہی اور تحریک عدم اعتماد آگئی۔ مطلب یہ کہ چشمِ سیاست نے دیکھا کہ چندریگر نے استعفیٰ دے دیا، جو عمران خان نہیں دینے والے۔ گو عدم اعتماد کیلئے اپوزیشن کو قومی اسمبلی میں 172ووٹ درکار ہیں، حکومی اتحادیوں سمیت 178پر کھڑی ہے جس میں پی ٹی آئی کے ذاتی 155ہیں اور اپوزیشن کے پاس بظاہر چند ووٹ۔ کوئی ادھر اُدھر ہوا تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ پر بھی دباؤ ہے کہ وہ اس حکومت کی حمایت نہ کرے مگر اس بات کو دلِ ناداں ماننے سے قاصر ہے۔

ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی حکومت پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کو تین دن بعد اور سات دن سے پہلے کارروائی میں لاتی ہے اور ازخود حکومت ہی اجلاس کا بائیکاٹ کر دیتی ہے تو کیا ہوگا؟ اس ضمن میں منحرف تحریکی ممبران کو اسمبلی جانا پڑے گا۔ وہ کھل کر سامنے آ جائیں گے، اب عمران خان بحیثیت چیئرمین الیکشن کمیشن میں ان کے خلاف جائیں گے۔ ممکن ہے کچھ نہ ہو جب نون لیگ یا دیگر انہیں اگلے الیکشن میں ٹکٹ کی گارنٹی دے چکے ہوں مگر وفاداری بدلنے کا داغ تو آئے گا۔ اور مجھے لگتا ہے کہ اپوزیشن کی ممکنہ کامیابی کی صورت میں خان استعفیٰ نہیں دیں گے، بائیکاٹ ہی کریں گے اور سڑکوں پر آجائیں گے۔ ’سڑک پر آنا‘ اور سڑکوں پر آنا گو مختلف ہے مگر پنجابی مقبول لیڈر کا سڑکوں پر آنا ’’حکومت لیوا‘‘ ہوتا ہے!

اگر یہ مرحلہ آجائے تو صدر کامیاب عدم اعتماد کی صورت میں ایک پارٹی کو دعوت دے گا کہ حکومت بنالو، وہ نہ بنائے، تو دوسری کو دعوت دی جائے گی، وہ بھی نہ بنا پائے تو صدر اسمبلی کو گھر بھجوا سکتا ہے۔ نتیجتاً پھر الیکشن مگر یاد رکھیے جب تک اسمبلی ہے، تو باوجود ان پیچیدگیوں کے باوجود صدر وزارتِ عظمیٰ کے اختیارات خان کو سونپے رکھیں گے تو احسن اقبال صاحب! پھر اس ’’ہماری تیاری مکمل ہے‘‘ کا کیا ہوگا؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین