• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں برطانیہ میں مقیم میرے دوست آئی سرجن شعیب چوہدری نے مغربی اخبارات میں شائع ہونے والی ایک خبر مجھے ای میل کی۔ خبر کی سرخی تھی کہ ”چلی میں عدلیہ نے فوجی آمر جنرل پنوشے کے دور حکومت میں اپنے کردار پر معافی مانگ لی“۔ ساتھ ہی تحریر تھا کہ ”بیگ صاحب! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر ہمارے ملک میں بھی ایسا ممکن ہو تو مارشل لا کا راستہ ہمیشہ کیلئے روکا جاسکتا ہے“۔ ڈاکٹر صاحب کی بات میں بہت وزن تھا، جب میں خبر کی گہرائی میں گیا تو مجھے چلی اور پاکستان کی تاریخ میں مماثلت نظر آئی جو میرے اس موضوع پر کالم تحریر کرنے کا سبب بنی۔
گزشتہ دنوں چلی میں فوجی بغاوت کی 40 ویں برسی کے موقع پر چلی کی عدلیہ کے ججوں نے جنرل پنوشے کی آمریت کے مظالم میں برابر کے شریک ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”جنرل پنوشے کے دور میں اُس وقت کے ججوں نے شہریوں کے بنیادی حقوق کے محافظ ہونے کا اپنا اصل کردار ادا نہیں کیا اور وہ ریاستی بدسلوکی کے دوران شہریوں کے تحفظ میں ناکام رہی لیکن اب متاثرین اور معاشرے سے معافی مانگنے کا وقت آگیا ہے“۔ واضح ہو کہ 1973ء میں دوتہائی اکثریت سے منتخب ہونے والے صدر سلواڈو آندرے نے جنرل پنوشے پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں فوج کا سربراہ مقرر کیا مگر تقرری کے چند ماہ بعد ہی جنرل پنوشے نے صدر آندرے کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ صدارتی محل پر فوج کشی کے دوران صدر آندرے مردہ حالت میں پائے گئے۔ ان کی بیوہ کے مطابق صدر کو بغاوت کرنے والوں نے قتل کیا جبکہ اقتدار پر قبضہ کرنے والی فوج کے مطابق صدر آندرے نے خود کشی کی تھی۔ بعد میں یہ انکشاف ہوا کہ منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے امریکی سی آئی اے نے کروڑوں ڈالر جنرل پنوشے کو مہیا کئے تھے کیونکہ امریکہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ لاطینی امریکہ میں کوئی سوشلسٹ جمہوری حکومت منتخب ہو۔ فوجی بغاوت کی کامیابی کے بعد جنرل پنوشے نے صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی سوشلسٹ جماعت کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی اور ملک میں سنسر شپ نافذ کردی گئی جس کے نتیجے میں چلی کا دانشور طبقہ ملک چھوڑ کر چلا گیا۔ اقتدار پر قابض ہونے کے بعد جنرل پنوشے نے آئین میں ترمیم کیا اور صدارتی ریفرنڈم کرواکے خود کو مزید 8 برس کیلئے صدر منتخب کرالیا۔ جنرل پنوشے کے دور اقتدار میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں اور 3 ہزار سے زائد سیاسی کارکن لاپتہ ہوگئے جن کا آج تک سراغ نہ لگایا جاسکا۔ جنرل پنوشے کی آمریت 1990ء تک قائم رہی، اس دوران جنرل پنوشے پر سیاسی مخالفین کو قتل کرنے اور کروڑوں ڈالر کے گھپلے کے الزامات لگتے رہے۔
جنرل پنوشے نے 90 سال کی عمر میں 2006ء میں وفات پائی۔ مسلح افواج جو پہلے ہی جنرل پنوشے کے کارناموں سے لاتعلقی کا اعلان کر چکی تھی نے سرکاری طور پر سوگ منانے سے انکار کردیا جبکہ آخری رسومات میں شریک ایک سابق کمانڈر انچیف جنرل کارلوس کے پوتے نے جنرل پنوشے کے کفن پر تھوک کر اس سے اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ سابق فوجی آمر کی وصیت تھی کہ اُسے مقبرے میں دفن کیا جائے لیکن جنرل پنوشے کی لاش جلا کر اس کی راکھ ورثا کے حوالے کردی گئی۔ جنرل پنوشے جب تک زندہ رہا چلی کی عدلیہ کی ہمت نہ ہو سکی کہ وہ اُسے قانون کے کٹہرے میں لاسکے۔ ایک موقع پر سنتیاگو کی ایک عدالت نے جنرل پنوشے پر مقدمہ چلانے کی اجازت دی مگر مارچ 2005ء میں ایک اعلیٰ عدالت نے ماتحت عدالت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ”جنرل پنوشے پر آئین کو پامال کرنے اور سیاسی کارکنوں کے قتل کے مقدمات نہیں چلائے جا سکتے کیونکہ جنرل پنوشے کو استثنیٰ حاصل ہے“۔
اگر آپ تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو دنیا کے اکثر فوجی حکمرانوں کے اقدامات میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔ چلی کے سابق فوجی حکمران جنرل پنوشے اور پاکستان کے سابق فوجی حکمراں جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو ان دونوں میں کئی باتیں مشترک نظر آتی ہیں۔ دونوں جنرلوں کو دوسرے سینئر جنرلوں پر فوقیت دے کر فوج کا سربراہ مقرر کیا گیا، دونوں نے اپنے محسنوں کا صلہ بغاوت کی شکل میں دیا، دونوں کے اقتدار میں ہزاروں افراد لاپتہ ہوئے اور دونوں نے ہی عدلیہ سے اپنے غیر آئینی اقدامات کو نظریہ ضرورت کے تحت آئینی قرار دلوایا۔ جنرل ضیاء الحق کی کہانی بھی کچھ اس سے مختلف نہیں جنہیں ذوالفقار علی بھٹو نے کئی سینئر جنرلوں پر ترجیح دے کر آرمی چیف مقرر کیا تھا جو کچھ عرصے بعد بھٹو کا تختہ الٹ کر خود صدر بن گئے اور عدلیہ سے اپنے اقدامات کو نظریہ ضرورت کے تحت آئینی قرار دلوایا۔ سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی جن سے میرے قریبی تعلقات ہیں نے مجھے بتایا کہ ”جنرل پرویز مشرف نے جب 12 اکتوبر 1999ء کو منتخب جمہوری حکومت پر شب خون مارا اور اقتدار پر قابض ہونے کے بعد اُن سے ملاقات کی تو انہیں کہا کہ انہوں نے فوجی بغاوت جیسا اقدام انتہائی مجبوری کے تحت اٹھایا ہے مگر میں آپ کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ میری حکومت عدالتی کارروائیوں میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی“تاہم کچھ عرصے بعد جب جنرل پرویز مشرف کے اقدام کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر ہوئی تو جنرل مشرف نے جسٹس سعید الزماں صدیقی اور دیگر جج صاحبان پر پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کیلئے دباؤ ڈالا جسے چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی اور دیگر جج صاحبان نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ بعد میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے چیف جسٹس نے جنرل مشرف کے غیر آئینی اقدامات کو آئینی قرار دیتے ہوئے نظریہٴ ضرورت کے تحت انہیں 3 سال کیلئے تحفظ فراہم کیا اور ساتھ ہی آئین میں ترمیم کا حق بھی دے دیا۔
چلی کی عدالت نے فوجی بغاوت میں آمر جنرل پنوشے کا ساتھ دینے کا اعتراف کرکے ایک نئی روایت قائم کی ہے جو اُن ممالک کیلئے مشعل راہ ہے جہاں فوجی بغاوت میں عدالتوں نے آمروں کا ساتھ دیا۔ کیا ایسا پاکستان میں بھی ممکن ہے کیونکہ ماضی میں پاکستان کی عدالتیں بھی نظریہٴ ضرورت کے تحت آمروں کے غیر آئینی اقدامات کو تحفظ فراہم کرتی رہیں تاہم ماضی کے برعکس پاکستان کی موجودہ عدلیہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی قیادت میں جتنی متحرک آج ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ جنرل مشرف کی مثال ہمارے سامنے ہے جو آج کل 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی لگانے اور ججوں کو نظر بند کرنے کے غیر آئینی اقدامات کیخلاف مقدمات کا سامنا کررہے ہیں، اگر چیف جسٹس کی سربراہی میں موجودہ عدلیہ سابق ڈکٹیٹر کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو تاریخ انہیں ایسے عادل کے طور پر یاد رکھے گی جس نے پاکستان میں آمریت کا خاتمہ کیا ہو۔ ہمیں نبی کریمﷺ کا یہ فرمان نہیں بھولنا چاہئے کہ ”وہ قومیں برباد ہوجاتی ہیں جو کمزوروں کو سزائیں سناتی ہیں اور طاقتوروں کو معاف کردیتی ہیں“۔
تازہ ترین