• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1960 کے بعدپیدا ہونےاورپروان چڑھنے والی نسلوں کو میری آج کی باتیں جھوٹی، مضحکہ خیز اور بناوٹی محسوس ہوں گی۔ میری کسی بات کا آپ کو یقین نہیں آئے گا۔ میری ہر بات آپ کو جھوٹ کا پلندہ محسوس ہو گی۔ مگر کیا کیا جائے کہ ایسا سب کچھ تھا، جو میں آ پ کو آج بتانے جارہا ہوں۔ میری عمر کے چند لوگ ابھی حیات ہیں۔ آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں۔ ان سے تصدیق کرسکتے ہیں۔ پھر بھی یقین نہ آئے تو آپ انٹرنیٹ پر بکھرے ہوئے معلومات کے جنگل سے بہت کچھ ڈھونڈ سکتے ہیں۔ کرسی کے لیے چھینا جھپٹی روز اول سے پاکستان کے نصیب میں لکھ دی گئی تھی۔

لہٰذا انیس سو سینتالیس سے لے کر دو ہزار بائیس تک پاکستانی سیاستدان کرسی کے حصول کے لیے مرتے رہے ہیں اور مارتے رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو چور اُچکا کہنا ان کی سیاسی عادت ہوچکی ہے۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں کرسی کے حصول کے لیے کرتے ہیں۔ پھر کرسی چاہے صدر مملکت کی ہو، وزیر اعظم کی کرسی ہو، وزیراعلیٰ کی کرسی ہو، مرکزی یا صوبائی وزارت کی کرسی ہو، ایم پی اےیا ایم این اے کی کرسی کیوں نہ ہو۔ کرسی حاصل کرنے کے لیے سیاستدان تمام حدود پار کر جاتے ہیں۔ کوڑی کے بھائو بکنے کےلیے تیار ہو جاتے ہیں۔ وہ کبھی پاکستان اور پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام نہیں کرتے۔ عوام بیروزگار رہیں، تعلیم و تربیت سے محروم رہیں، طبی سہولتوں کو ترستے رہیں، سیاستدانوں کو قطعی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ لوگ لاقانونیت، بدامنی اور دہشت گردی کا شکار ہوتے رہیں، سیاستدانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اس نوعیت کے بدتر سیاسی رویّوں سے جو کچھ کسی ملک کے ساتھ ہوسکتا ہے، پاکستان کے ساتھ ہوتا رہا ہےاور ہورہا ہے۔ انیس سو ساٹھ کے بعد پیدا ہونے والی نسلیں انہی حالات میں پل کر جواں اور اب بڑھاپے کی دہلیز پر ہاتھ میں بجھی ہوئی لالٹین پکڑے کھڑی ہیں۔ لالٹین بجھی ہوئی اس لیے ہے کہ لالٹین میں مٹی کا تیل نہیں ہے۔ اللہ سائیں کو پیاری ہو جانے والی نسلیں مٹی کے تیل کو گاسلیٹ کہتی تھیں۔

دو ٹکے میں لیٹر بھر بوتل مل جاتی تھی۔ آج میں نئی نسلوں سے گزرے ہوئے زمانوں کے قصے شیئر کر وں گا۔تب آگ جلانے اور کھانا پکانے کے لیے شہروں کے کچن میں کوئلے جلائے جاتے تھے۔ سردیوں میں ہاتھ سینکنے کیلئے انگیٹھیوں میں کوئلے جلائے جاتے تھے۔ استری کرنے کیلئے استریوں میں دہکتے ہوئے انگارے ڈالے جاتے تھے۔ کوئلے جلانے کیلئےرواج تھا کہ کوئلوں پر گاسلیٹ یعنی مٹی کا تیل چھڑکا جاتا تھا اور پھر کوئلوں کو دیا سلائی دکھائی جاتی تھی۔ کوئلے جل اٹھتے تھے۔ دیہات میں تب لکڑیاں جلائی جاتی تھیں۔ اب بھی دیہات میں لکڑیاں جلائی جاتی ہیں۔ صدیوں سے وقت اُن کے لیے تھما ہوا ہے۔

کراچی کا سب سے زیادہ، بلکہ تن تنہا پُررونق اور باغ و بہار علاقہ ہوا کرتا تھا صدر۔ صاف ستھرا، چمکتا، جگمگاتا ہوا علاقہ۔ کھلی کھلی، روشن، دلفریب دکانیں، کپڑے، برانڈڈ ریڈی میڈ لباس، جوتے، کراکری، کاسمیٹک، کتابیں، الیکٹرانکس، کھیل کے سامان کی دکانیں، قطار در قطار صدر کی سجاوٹ بنی ہوئی تھیں۔ شام ہوتے ہی کرسچن، پارسی، ہندو، مسلمان فیملیز صدر کا رخ کرتی تھیں۔ ایلفنسٹن اسٹریٹ جسکو اب زیب النسا اسٹریٹ اور وکٹوریہ روڈ، جس کا نیا نام عبداللہ ہارون روڈ ہے اور دیگر روڈ راستوں پر بنی ہوئی عالیشان عمارتوں کے شروع میں، اعلیٰ معیار کے ریسٹورنٹ کھلے ہوئے ہوتےتھے۔ کچھ نام تو اب بھی میرے لیے ناقابل فراموش ہیں، جیسا کہ، انڈیا کافی ہائوس، فریڈرکس کیفے ٹیریا، زیلنس کافی ہائوس، کیفے جارج، پرشین ریسٹورنٹ اور بوہری بازار کے شروع ہوتے ہی، جہانگیر پارک کے عین سامنے بومن ایرانی ریسٹورنٹ۔ بوہری مٹھائی اور سموسوں کے علاوہ صدر کی دو بیکریاں بہت مشہور تھیں، ایک آدم سومار بیکری، اور دوسری پیریرا بیکری۔ ٹرام نے صدر، کینٹ، کیماڑی، چاکیواڑہ سے لے کر سولجر بازار تک کراچی کو جوڑ کر رکھا تھا۔ افسوس کہ نئی نسلوں نےکراچی کی وہ شان و شوکت نہیں دیکھی۔

تب لائل پور کا نام کسی نے فیصل آباد نہیں رکھاتھا۔ لائل پور کا کپڑا دنیا بھر میں ایکسپورٹ ہوتا تھا۔ معیار اتنا لاجواب کہ یورپ میں یورپین کپڑے کو پاکستانی کپڑے نے پیچھے چھوڑ دیا تھا لائل پور کا اونی کپڑا خاص طور سوٹنگ بیرون ملک مارکیٹوں پر چھایا ہوا ہوتا تھا۔ مانگ اس قدر زیادہ ہوتی تھی کہ دن رات کی پروڈکشن کے باوجود لارنس پور کے مالکان مانگ پوری نہیں کرسکتے تھے۔ ایسی ہی شہرت بنوں اور ہرنائی کےگرم کپڑے کی بھی ہوتی۔ بنوں اور ہرنائی ملز کے گرم کپڑے سے خاص طور پر کوٹ اور اوور کوٹ بنائے جاتے تھے جو منفی درجہ حرارت کے ممالک میں استعمال ہوتے تھے۔ آپ بنوں ہرنائی جاکر معلوم کریں کہ اب وہاں کیا ہورہا ہے۔

سیالکوٹ سے کھیلوں کا سامان دھڑا دھڑا ایکسپورٹ ہوتا تھا۔ بین الاقوامی بیوپار کی وجہ سے پاکستانی بینکوں میں غیر ملکی کرنسی کی ریل پیل ہوتی تھی۔ اسی سطح کا بین الاقوامی بیوپار وزیر آباد سے ہوتا تھا۔ اعلیٰ معیار کے سرجری کے اوزار اور دیگر سامان جہاز بھر بھر کر بیرون ملک بھیجا جاتا تھا۔ میں آپ کو یہ قصے اس دور کے چشم دید گواہ کے طور سنا رہا ہوں۔

یقین کریں، 1960 تک پاکستان نے بہت اچھا دور دیکھا تھا۔ جس پر آپ جتنا فخر کریں کم ہے۔ جب یورپ میں ٹیلیفون بوتھ نصب کئے جارہے تھے تب ہم کراچی میں دائرے کی طرح گول ٹیلیفون بوتھ سے ٹیلیفون کیا کرتے تھے۔ ایسے آٹھ دس Cylindrical فون بوتھ صدر کراچی میں لگائے گئے تھے۔ ایسا دور ہم نے دیکھا تھا۔ تب ڈالر کی قیمت ڈیڑھ یا دو روپے تھی۔ اور بکرے کا گوشت ایک روپے پچیس پیسے فی کلو ملتا تھا۔ تب ہم کلو کو سیر کہا کرتے تھے۔ اب آپ یہ مت پوچھئے گا کہ ایسا دور کب آیا تھا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین