• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغان طالبان کے امیر ملااختر منصور کا امریکی ڈرون حملے میں مارا جانا تاحال ایک مشکوک معاملہ ہے۔ امریکہ کو یقین ہے کہ بلوچستان کے علاقہ احمدوال میں جس گاڑی کو نشانہ بنایا گیا اس میں مارا جانے والادوسرا شخص ملامنصور تھا جبکہ تباہ شدہ گاڑی سے جو جلی ہوئی لاشیں ملیں ان میں سے ایک یعنی ڈرائیور اعظم کی شناخت ہوگئی ہے اور لواحقین نے اسکی لاش وصول بھی کر لی ہے لیکن دوسرے آدمی کی گاڑی کے اندر کی تصویر ملا منصور سے کافی حد تک مشابہت رکھتی ہے لیکن جائے وقوعہ سے ملنے والا پاسپورٹ کسی اور شخص کا ہے۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ شخص ملامنصور ہوتا تو اسے حلیے میں اتنی بڑی تبدیلی اور محافظوں کے بغیرتنہا سفر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اسی بنا پر پاکستان نے ملامنصور کی موت کی تصدیق نہیں کی اور ملا کے قریبی طالبان ذرائع نے بھی اس کی سختی سے تردید کی ہے تاہم امریکہ کابل حکومت اور افغان انٹیلی جنس پورے وثوق سے ملا کی ہلاکت کے دعوے پر قائم ہیں اور خوشی کا اظہار کررہے ہیں کہ افغان امن میں حائل بہت بڑی رکاوٹ دور ہوگئی۔ یہ بھی اطلاع آئی ہے کہ ملامنصور کے جانشین کے نام پر غور کیلئے طالبان قیاد ت کا اجلاس شروع ہوگیا ہے۔ ایسے معاملات میں عموماً امریکی دعوئوں کو ہی حرف آخر سمجھا جاتا ہے اسلئے ساری دنیا فرض کر رہی ہے کہ ملامنصور اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اگر ایسا ہے تو دنیا کو یہ بھی باور کرلینا چاہئے کہ جس طرح اسامہ بن لادن اور ملاعمر کی موت سے افغان مسئلہ حل نہیں ہوا۔ اسی طرح ملامنصور کی موت بھی افغانستان میں امن کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ پاکستان چین امریکہ اور افغان حکومت کی کوششوں سے افغانستان کیلئے جس مفاہمتی عمل کا آغاز ہوا تھا، ملامنصور کی موت اس کیلئے بہت بڑا دھچکا ثابت ہوگی۔ یہ درست ہے کہ جس طرح ملامنصور امریکی شرائط پر افغانستان میں امن کے حامی نہیں تھے اسی طرح امریکہ بھی طالبان کی شرائط پر افغان امن میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا لیکن ملامنصور تو شاید پھر بھی اپنے موقف میں کسی قدر لچک پیدا کرلیتے مگر ان کا جو بھی جانشین ہوگا وہ ایسا نہیں کرے گا اسی لئے بعض مبصرین نے اگرملامنصور کے قتل کو افغان مفاہمتی عمل کا قتل قرار دیا ہے تو یہ اتنا غلط بھی نہیں۔ معاملے کا دوسرا اور سب سے سنگین پہلو پاکستان سے متعلق ہے جوپہلے سے بگڑتے ہوئے پاک امریکہ تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا کرسکتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ انہوں نے ڈرون حملے کے بارے میں پاک افغان قیادت کو پیشگی بتا دیا تھا مگر وزیراعظم نوازشریف نے اتوار کو لندن میں میڈیا سے گفتگو میں بتایا ہے کہ انہیں یہ اطلاع حملے کے بعد دی گئی۔ حالانکہ بین الاقوامی قانون کے تحت اطلاع پہلے دینی چاہئے تھی۔یہی نہیں بلکہ امریکہ نے بلوچستان کے اندر ڈرون حملہ کرکے پاکستان کی ملکی خودمختاری کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔پاکستان نے اس اشتعال انگیزی پر امریکہ سے شدید احتجاج کیا ہے۔ امریکہ ایک طرف افغانستان میں مفاہمتی عمل کیلئے پاکستان سے فعال کردار کی توقع رکھتا ہے تو دوسری طرف اس کی سرزمین پر ڈرون حملے کرکے خود ہی اس عمل میں رکاوٹ بھی ڈال رہا ہے۔ امریکہ کی یہ دوغلی پالیسی اس خطے کے امن کیلئے کسی پہلوسے بھی سودمند نہیں کہی جا سکتی۔ اول تو افغان طالبان پر پاکستان کا کوئی کنٹرول نہیں، دوسرا، اس طرح کے اقدامات سے امریکہ طالبان کو سمجھانے بجھانے کے معاملے میں پاکستان کیلئے مشکلات میں مزید اضافہ کررہا ہے۔ اس سے افغان مزاحمتی عمل جو بڑی مشکل سے آگے بڑھا تھا سرے سے تعطل کا شکار ہو جائے گا۔ پاکستان نے افغانستان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حملے کی بڑی سزا بھگتی ہے۔ اس کے ساٹھ ہزار سے زائد شہری اور فوجی جوان افغانستان سے آنے والی دہشت گردی کی جنگ میں شہید ہوگئے۔ ایک ارب ڈالر سے زیادہ مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا لیکن اسی پر بس نہیں، امریکہ پاکستان کی سرزمین کے اندر مسلسل ڈرون حملے کرکے دونوں ملکوں کے تعلقات میں مسلسل بگاڑ پیدا کررہا ہے۔ یہ طرزعمل جتنی جلد ختم ہو، خطے اور عالمی امن کیلئے اتنا ہی بہتر ہوگا۔
تازہ ترین