• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ ، ہر ملک، ہر قوم کا ہمسایہ ہے، کوئی ریاست جغرافیائی طور پر امریکہ سے خواہ کتنی بھی دوری پر ہو وہ اپنے فوجی پڑائو، بحری بیڑے، ہوائی اڈے، سی آئی اے کی تنصیبات کے ساتھ خود چل کرہر ایک کے ہمسایہ میں آن اترتا ہے۔ آپ ہمسایہ کی خبرگیری نہ کریں مگر اس کی خبر تو رکھنا ہی پڑتی ہے‘ وہ ہمسایہ دوست ہو‘ بھائی ‘ حاسد یا دشمن اس پر نگاہ رکھنا ضروری ہے اور پھر امریکہ سا ہمسایہ جو کو ّے کی طرح آنکھ بچا کے بچے کے ہاتھ سے روٹی کا ٹکڑا تک اچک لے‘ دوستی او ر بھائی چارہ امریکہ کے خمیر میں ہے نہ ضمیر میں‘ وہ فقط دشمن ہے یا آقا۔ دنیا کا کوئی ملک حلیف یا حریف‘ اس کی سیاست‘ رجحانات اور آنے والی امریکی قیادت سے بے نیاز نہیں رہ سکتا ‘اس لئے کہ ’’اکلوتی سپر پاور‘‘ کے اقدامات اور فیصلے‘ تھوڑے یا زیادہ مگر ہر کسی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ امریکہ اپنے 700(سات سو) ہوائی‘ بحری اڈے اور 150 بلین ڈالر سالانہ خرچ کر کے‘ ہرملک و قوم پر اثر انداز ہونے کی ہمہ وقت کوشش میں رہتا ہے۔ ہر چار سال بعد ہونے والے امریکی انتخاب وہاں کا سب سے بڑا اور اہم واقعہ ہے جس کو پوری دنیا توجہ اور دلچسپی سے دیکھتی ہے۔ رواں برس امریکہ میں انتخابات کا سال ہے‘ یہ الیکشن ہر چار برس بعد ’’لیپ‘‘ کے سال میں منعقد ہوتا ہے یعنی وہ سال جس میں فروری 29دنوں کا ہو جاتا ہے۔ الیکشن کے انعقاد میں ابھی 168دن باقی ہیں‘ پارٹیوں کی طرف سے صدارتی امیدواروں کی نامزدگی کا مقابلہ آخری مرحلے میں ہے۔ دونوں پارٹیاں اپنے اپنے امیدواروں کا قطعی اعلان جولائی میں منعقد ہونے والے قومی کنونشن میں کریں گی‘ پارٹی کی طرف سے نامزدگی جیتنے کا مقابلہ تقریباً ایک سال سے جاری ہے…!
امریکہ کی آبادی 32 کروڑ افراد پر مشتمل ہے‘ جس میں تقریباً سولہ کروڑ رجسٹرڈ ووٹر ز ہیں‘ عموماً امریکی شہری اپنا ووٹ رجسٹر کرواتے وقت پارٹی کے ساتھ وابستگی بھی ظاہر کرتے ہیں۔ سولہ کروڑ کل ووٹرز میں سے آٹھ کروڑ نے اپنی وابستگی ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ ظاہر کی ہے اور ساڑھے پانچ کروڑ نے ریپبلکن پارٹی کے ساتھ۔ دونوں پارٹیوں کے مستقل انتخابی نشان ہیں جو بالترتیب ’’گدھا ‘‘اور ’’ہاتھی ‘‘ہیں۔ ڈھائی کروڑ ووٹرز نے اپنی وابستگی ظاہر نہیں کی۔ ووٹروز کی یہ وابستگی ان کے عارضی رجحان کو ظاہر کرتی ہے مگر یہ وفاداری کی حد تک نہیں ہوتی‘ سوائے عہدیدار اور سرگرم کارکنوں کے باقی ووٹر امیدوار کی شخصیت‘ مباحثوں میں کارکردگی اور آئندہ چار سالوں کیلئے پارٹی کی طرف سے دیئے گئے پروگرام کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں‘ ووٹرز کے رجحانات کا اتار چڑھائو صدارتی امیدواروں کے آخری مباحثے تک جاری رہتا ہے۔ ملک میں دو پارٹی جمہوری نظام رائج ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان پارٹیوں کے علاوہ کوئی امیدوار نہیں ہو سکتا۔ کئی دفعہ صدارتی منصب کیلئے آزاد امیدواروں نے کوشش کی لیکن انہیں امریکی عوام کی طرف سے پذیرائی نہ مل سکی‘ البتہ سینیٹ اور کانگریس میں آزاد امیدوار کامیاب ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک ’’برنی سینڈر‘‘ بھی ہیں جو آج کل ڈیموکریٹ کے پلیٹ فارم سے ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں پارٹی نامزدگی کیلئے امیدوار ہیں۔ برنی سینڈر آزاد حیثیت میں سینٹ کے ممبر بنتے رہے ہیں‘ انہوں نے ڈیمو کریٹک پارٹی کا امیدوار بننے کیلئے پارٹی کی مرکزی کونسل سے باقاعدہ منظوری حاصل کر کے پارٹی میں شامل ہوئے اور صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں شریک ہو گئے۔ سیاست کے سینئر کھلاڑی ’’سینڈر‘ ‘ کو کیمونسٹ یا کم از کم سوشلسٹ قرار دیتے ہیں مگر وہ خود کو ’’سوشل ڈیموکریٹ‘‘ ظاہر کرتے ہیں۔ پارٹی میں نووارد ہونے کے باوجود نوجوانوں کی طرف سے انہیں کافی حمایت ملی ہے۔ ڈیمو کریٹ پارٹی میں نامزدگی حاصل کرنے کی دوڑ میں چھ لوگ شامل ہوئے تھے مگر چار امیدوار جلد ہی بھاری پتھر چوم کر واپس ہو لئے مگر نووارد ’’برنی سینڈر‘‘ اب تک میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ ایک موقع پر تو یوں لگ رہا تھا کہ وہ اس دوڑ میں ہیلری کلنٹن کو پیچھے چھوڑ جائیں گے لیکن پھر نیویارک کی ریاست اور ’’سپر ڈیلیگیٹ‘‘ نے ہیلری کلنٹن کو سہارا دیا‘ اب وہ اپنی پارٹی کی طرف سے نامزدگی کے قریب پہنچ چکی ہیں۔
دوسری طرف ریپبلکن پارٹی کی صورتحال اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے‘ جہاں سترہ لوگ امیدواروںکی دوڑ میں شامل ہوئے جن میں فلوریڈا کے سابق گورنر ’’جیب بش‘‘ بھی شامل تھے جو سابق صدر بش کے بیٹے اور جارج ڈبلیو بش کے بھائی ہیں لیکن پارٹی کے ووٹرز نے انہیں گھاس نہیں ڈالی۔ ایک‘ ایک کر کے سترہ میں سے سولہ امیدوار میدان چھوڑ گئے‘ اب ’’ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ ہی واحد امیدوار رہ گئے ہیں۔ پارٹی کے سینئر ’’ٹرمپ‘‘ کو ریپبلکن پارٹی کا ممبر ہی خیال نہیں کرتے‘ شروع میں اس دولت مند‘ احمق اور انتہا پسند کو کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا‘ اسے ایک محظوظ کرنیوالا (Entertainer) کردار خیال کرتے رہے لیکن یہ غیرسنجیدہ‘ انتہا پسند‘ مزاحیہ کردار پارٹی کیلئے ’’چھپکلی‘‘ کی شکل اختیار کر گیا‘ جب اس نے متعدد ریاستوں میں کامیابی حاصل کر کے دوسرے امیدواروں کو پیچھے چھوڑ دیا‘ اس کے حریف مایوس ہو کر ایک ‘ ایک کر کے میدان سے باہر ہوتے گئے۔ اب نگلنا مشکل اور اگلنا ناممکن ہو رہا ہے۔ اس وقت پارٹی میں کوئی حریف باقی نہیں بچا اور پارٹی کے بڑے پریشانی سے دیکھ رہے ہیں کہ یہ انتہا پسند ’’جوکر‘‘ اگر سچ مچ ایوان صدر تک پہنچ گیا تو دنیا اور ہمسایوں کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کی نوعیت کیا ہو جائے گی؟ بندر کے ہاتھ میں ماچس آ گئی تو کیا جنگل سلامت رہ سکے گا؟
امریکی جمہوریت زیادہ ہی آزاد اور عوامی ہے‘ یہاں کسی بھی عہدے کا امیدوار بننے کیلئے خواہ وہ عہدہ مقامی ہو‘ ریاستی یا مرکزی‘ حتیٰ کہ صدر‘ بننے کیلئے پارٹی کے لیڈروں کی خوشامد اور عہدیداروں کی ناز برداری کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی‘ سب کچھ براہ راست ووٹر کے ہاتھ میں ہے۔عام ووٹر ہی پارٹی کی طرف سے نامزدگی کا فیصلہ کرتے ہیں اور وہی اس کی کامیابی یا ناکامی پر مہر ثبت کرتے ہیں۔ صدارتی امیدوار کیلئے پارٹی کی طرف سے نامزدگی کا مرحلہ‘ صدارتی انتخاب لڑنے سے زیادہ طویل‘ مشکل اور محنت طلب ہے کیونکہ اس مرحلے کو امیدوار نے تنہا سر کرنا ہوتا ہے‘ اسے اپنی شخصیت‘ محنت‘ پروگرام کے ذریعے اپنے پارٹی ممبران کو اپنی طرف راغب کرنا اور مطمئن کرنا پڑتا ہے۔
اس مرحلے میں نائب صدارت کا کوئی امیدوار معاون بنتا ہے نہ ہی اس کا جیون ساتھی‘ جو کل ایوان صدر میں خاتون اول کہلاتے ہوئے بہت سے فیصلوں اور اختیارات میں حصہ دار بنے گی۔ امیدوار کو پچاس ریاستوں میں مارے مارے پھرنا ہے اور ہر ریاست میں ہونے والے پرائمری مقابلوں کو جیتنے کی کوشش کر نا ہے‘ پچا س ریاستوں میں تقریباً ساٹھ کنونشن یا اجلاس منعقد ہوتے ہیں جہاں پرائمری مقابلوں میں لاکھوں بلکہ کروڑوں ووٹرز اپنے حتمی امیدوار کا فیصلہ کرتے ہیں۔ پارٹی نامزدگی کے مقابلے شروع ہوئے تقریباً ایک برس ہو چکا ہے‘ پارٹی کے اندر یہ مقابلے ہنوز جاری ہیں۔ دنیا کے سب سے طاقتور اور بااختیار صدر کا انتخاب نومبر کے پہلے منگل کو ہوتا ہے بشرطیکہ یہ منگل یکم نومبر کو نہ آ جائے۔ اگر پہلا منگل یکم نومبر کو آ جائے تو پھر یہ انتخاب 8 نومبر کو ہوگا۔ جیسا کہ اس سال ہونے والا ہے۔ اب یہ بات تقریباً طے پا چکی ہے کہ ریپبلکن کی طرف سے مزاحیہ اداکار ’’ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ اور ڈیمو کریٹ کی طرف سے امریکی تاریخ کی پہلی خاتون امیدوار میدان میں اتریں گی۔
تازہ ترین