• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
69برس کی عمر کو پہنچنے والے اپنے دیس میں جب بھی کوئی حکومت آتی ہےتو تیز رفتارترقی اور ملک کو ایشین ٹائیگربنانے کے دعوے کرتی ہے، مجھ سمیت پوری قوم کا دل خوشی سے ناچنے لگتا ہے اور پھرجلد ہی یہ خوشی ایسے غم میں بدل جاتی ہے جس کا اظہار بھی حکمرانوں کےکانوں تک نہیں پہنچ پاتا۔ دنیا میں ملکوں کے ترقی کےلحاظ سے تین درجے ہیں ،Less developed countries, moderately developed countries and Highly developed countries.
ہم جیسے تیسرے درجے کے ملکوں میں سے چین وہ واحد ملک ہے جس نےانتہائی تیز رفتاری سےکم ترقی یافتہ ملکوں کی حد سےنکل کر ماڈریٹ اور اب اعلیٰ ترقی یافتہ صفوں کو چھونا شروع کر دیا ہے، اس ترقی کی صریحاً وجہ ان کی قیادت کی کمٹمنٹ اور جدید سائنسی علوم کا فروغ اور استعمال ہے۔ بھارت کے نوبل انعام یافتہ امریتاسین نےاپنی کتاب Contradictions of Indiaمیں کیا خوب فقرہ لکھا ہے کہ‘‘ بھارت ایک عجیب ملک ہے جو تعلیم کا انقلاب یعنی شرح خواندگی سو فی صد کئے بغیر سپرپاور بننے کے خواب دیکھتاہے’’۔امریتاسین کا مطلب واضح ہےکہ جدید سائنسی تعلیم کے بغیر ترقی ایک ادھوراخواب ہے۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہےکہ کوئی بھی ملک،جہاں پیسے کی ریل پیل ہو،فی کس آمدنی بےحساب ہو، بہترین زمینی انفراسٹرکچر اورخوشحالی بھی ہو، لیکن وہاں جدید سائنسی علوم اور تکنیکی ریسرچ نہ ہو، تو وہ محض امیرملک تو کہلاسکتاہے،ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل نہیں ہوسکتا،تیل اوردیگر قدرتی معدنیات سےمالامال سعودی عرب،بحرین،قطر،دبئی اور کچھ دیگرممالک اس کی واضح مثال ہیں۔چین کے بانی نے تویہاں تک کہاتھاکہ میں نے اس قوم کو اٹھایاہےجو افیون زدہ تھی،جس کے پاس کوئی نظریہ تھانہ کوئی منشور، بلکہ سرے سے ان پڑھ ،لیکن ہم تو اس شریعت کے ماننے والے ہیں جس میں اللہ پاک نےعلم کےشہر نبی آخرالزماں ﷺ پراپنی آخری کتاب اتارتے وقت پہلی آیت میں پڑھنے کا حکم دیا،پھررسول کریم ﷺ نے بھی اسی حکم کو نافذ کرنے کا سبق دیتےہوئےفرمایاکہ ‘‘علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جاناپڑے’’۔
آج ترقی یافتہ ملکوں کی کامیابی پر نظر ڈالیں تو واحد وجہ سائنسی علوم کی ترویج اورجدید تخلیقی کام ہی ان کا طرہ امتیاز ہیں۔ہمارے ہمسائےجمہوریت کےعلمبردارملک میں محض سیاست ہی فوکس نہیں بلکہ گزشتہ کئی برسوں سےآئی ٹی اور دیگرسائنسی علوم کےجدید رجحانات کے فروغ کیلئے کئی درجن اسٹیٹ آف دی آرٹ انسٹی ٹیوٹ قائم کئےگئے ہیں،وطن عزیز میں ڈکٹیٹر ہو یا وسیع وعریض ٹھنڈی عمارتوں کےامین ومکین جمہوریت کی لکیر پیٹنے والے منتخب نمائندے ،ہمیشہ عوام سےتخاطب میں شدت جذبات سے ترقی اورخوشحالی لانے کاجب بھی دعویٰ کرتے ہیں تو دل ودماغ بے اختیار تلخ زمینی حقائق سےکُل بُلا اٹھتے ہیں،حیرت ہوتی ہےکہ جہاں عالمی معیار کے جدید سائنسی علوم کی آگاہی ونئی تخلیقات کا ایک بھی انسٹیٹیوٹ نہ ہو،جہاں تیس سےچالیس فیصد سے زائد آبادی تعلیم کے نام سے ہی ناآشنا ہو، جہاں اسکول تعلیم کےحصول کی بنیادی سہولت کی بجائےاصطبل گاہ کا منظرہوں،جہاں سرکاری اسکولوں کو نجی شعبے کےحوالے کرکے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونافرائض کی ادائیگی سمجھاجاتاہو، جہاں اعلیٰ سائنسی علوم اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بناناتو کجا بنیادی معیارتعلیم کے درجوں سے واقفیت تک نہ ہو،جہاں موٹرویز،میٹروز اور روڈز کا جال بچھانا جدید درس گاہوں کی تعمیرسےبدرجہا ترجیح سمجھا جاتاہو،جہاں قابلیت کی بجائےطاقتوراور رسائی رکھنے والوں کےسپوت عوام کے ٹیکس پراسکالرشپس پر بیرون ملک جائیں اور واپس نہ آئیں،جہاں پاکستان کی کفالت کا واحد اہم شعبہ زراعت سیاست کی نذر ہو کر اپنی پیداواری صلاحیت سے محض دنیا کی کسی ایک الیکٹرانکس کمپنی کے برابر آمدنی کا ذریعہ بھی نہ بن سکے، جہاں کرپشن اور ٹیکس چوری کے بارےمیں پانامالیکس کی صورت میں آنیوالےحقائق پر متحد ہوکرمٹی ڈالنے کی حتٰی المقدور کوششیں کی جارہی ہوں، جہاں سچ کو سچ کہنادور کی بات ،حق کہناجان سے ہاتھ دھونے سےبھی مہنگاہو،، وہاں اعلیٰ تعلیم اور جدید سائنسی علوم کا حصول ملکی ترقی کا بنیادی جزو اوراس کیلئےوسائل کی فراہمی کیونکراور کیوں لازم و ضروری سمجھی جاسکتی ہے۔ایک یونیورسٹی کےسینئرپروفیسر کی آہ ہےکہ ‘‘ جو گن نہیں سکتے(مردم شماری) وہ اس قوم کی ترقی وخوشحالی اوران کی ضروریات پوری کرنے کی پلاننگ کیاکریں گے’’۔
تاریخ شاہدہےکہ مسلمانوں کی دنیا میں عروج کی حقیقت دراصل نالج بیسڈ ترقی کی عظیم مثال ہے،علاقوں کی فتوحات سےکہیں زیادہ مسلمان سائنسدانوں کی سینکڑوں برس پہلے جدید سائنسی علوم کی مدد سے تخلیقات، دور جدید کی ایجادات ،نئے علوم پرمبنی تحقیقی کتابیں اور سب سے بڑھ کرٹھوس اور مسلمہ نظریات پوری دنیا پر حکمرانی کاسبب رہے ہیں ۔یہ وہ دور تھاجب پوری دنیا ان علوم کو جاننے کیلئے عربی زبان سیکھتی تھی جس طرح آج ہم انگریزی زبان سیکھنے پرمجبور ہیں اور شاید مستقبل میں چینی زبان بھی،،جس کی وجہ چین کا جاہ وجلال نہیں ،سائنسی میدان میں اسکی ترقی ہوگی، کیونکہ جدید تکنیکی اشیا کا ماخذ اور استعمال محض چینی زبان سے ہی آشکار ہوسکے گا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی ایک اسلامی فلاحی ریاست کے خواب سے وجود میں آیا،لیکن ہردورمیں محض نعروں سے اسکو حقیقت کاروپ دینے کی ناکام کوشش کی جاتی رہی ،میری دانش میں اگر اسلام کو صحیح معنوں میں نافذ کرنا ہے تو بلاتفریق سب سے پہلے تعلیم کو خاص سے عام کرنا ہوگا اور ہر عام کو خاص تعلیم دینا ہوگی، تعلیم کوRevolutionary (انقلابی) نہ سہی کم ازکم Evolutionary (ارتقائی) ترجیح تو ہر صورت بنانا ہوگا، اپنا بیانیہ اور اعلانیہ بدلنے کیلئے اپنا میزانیہ تعلیم فوکسڈ (تعلیمی بجٹ چار سے چھ فیصد) کرنا ہوگا، ہمیں یقین ہونا چاہئے کہ قوموں کی بقا، ترقی اور دنیا پر حکمرانی کا واحد راستہ نالج بیسڈ تعلیم اور جدید انڈسٹری کا فروغ ہے، ترقی یافتہ قوموں نے سامان حرب، صنعتی مشینری، الیکٹرانکس اور میڈیسن کے شعبوں میں انقلابی اقدامات کے سوا کوئی دوسرا راستہ یا جواز تلاش نہیں کیا۔
قارئین آپ کی آگاہی کیلئے بتاتا چلوں کہ سائنسی ایجادات کیلئے ہاتھ، دل،دماغ اور ذہنی علمی تخلیقات کا بیک وقت زور آور استعمال لازم ہے، جیسے ہاتھ سے بنا ہینڈ فین، پھر ہاتھ اور دماغ مشین کے استعمال سے پنکھا، مزیدعقل وعلم کی مدد سے ائیرکولر اور پھر ہاتھ، دل دماغ اورعقل کیساتھ جدید سائنسی علوم کے استعمال سے ائیرکنڈیشنر، اسکے نئے ماڈلز اور دیگرجدید آلات وغیرہ۔ کوئی شک نہیں کہ ماضی کا ایک پرت ہماری خودداری اور قابلیت کا غماز بھی ہےجب ہم نے اسی زراعت کو اپنی ریڑھ کی ہڈی بناکر ایٹم بم بنانے کا تاج چھ بڑی قوموں کے درمیان ساتویں عظیم و طاقتور ملک کے طور پر ابھر کر اپنے سر پر سجایا تھا، میرے عزیز حکمرانو، امیر سے امیرتر ہونے کا پردہ آنکھوں سے ہٹائیں، ہماری قوم میں پوٹینشل ہے،اسکوجدید سائنسی تعلیمی انقلاب سےدنیا سے منوانے کا عزم و ارادہ کرلیں ،قوم کو باعلم اور باشعور بنادیں وہ اپنے روشن مستقبل کافیصلہ بھی کرلیں گے اور آنیوالے چیلنجز کا مقابلہ بھی۔



.
تازہ ترین