• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر آپ نے پاسٹرناک کے ناول ’ڈاکٹر ژواگو‘ پر شہرت یافتہ ڈائریکٹر ڈیوڈ لین کی فلم دیکھ رکھی ہے تو آپ کو وہ منظر یاد ہو گا جس میں پہلی عالمی جنگ کا آغاز دکھایا گیا ہے۔ لام بندی کی قطار میں کھڑا ایک سرگرم کمیونسٹ انقلابی خود کلامی کر رہا ہے کہ ”میرے ہم وطن جنگ جیتنے کے لئے فوج میں بھرتی ہو رہے ہیں جب کہ میرا کام اپنے ملک کی شکست کو یقینی بنانا ہے“ کیوں ؟ اس لئے کہ روسی نظام کے اس نظریاتی مخالف کو توقع تھی کہ جنگ میں شکست کے بعد حکومت اس قدر کمزور ہو جائے گی کہ ریاست پر قبضہ کرنا ممکن ہو جائے گا۔ قومی سلامتی کے بارے میں9ستمبر کو اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس کا اعلامیہ پڑھنے کے بعد میں اس سوچ میں ہوں کہ یہ مسودہ دیکھ کر بورس پاسٹرناک کے کمیونسٹ کردار ’پاشا‘ کے اتباع میں کس کس نے زیر لب اپنے ہی ملک کی شکست سے پیمان وفا باندھا ہو گا۔
کل جماعتی کانفرنس سے برآمد ہونے والی دستاویز میں بزعم خود پارسائی کے عناصر دیکھیں تو یہ مزاحیہ ادب ہے اور اجتماعی خود فریبی کے گمبھیر زاویئے سے دیکھیں تو یہ ایک عظیم المیے کا ابتدائی متن ہے۔ قومی سلامتی حکمت عملی کے اس خاکے میں ملک کے آئین، جمہوری حکمرانی اور شہریوں کی حفاظت کے ضمن میں ریاستی عزم کا سرے سے کوئی ذکر نہیں۔ طالبان کی اصطلاح ہی غائب ہے اور ڈرون حملوں کی شدومد سے مزاحمت کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اگر قومی سلامتی کی حکمت عملی کا مقصد دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے ریاستی عزم کا اظہار تھا تو اس دستاویز کا بنیادی تاثر اس عزم کی یکسر عدم موجودگی ہے۔ دہشت گردی کی مذمت کرنے کے بجائے پاکستانی شہریوں اور فوجی جوانوں کی جانوں کو افغانستان میں نیٹو کی کارروائیوں کا ردعمل قرار دیا گیا ہے۔ گویا ہماری مسجدوں ، گلی کوچوں اور فوجی چوکیوں پر مارے جانے والے سب کے سب پاکستانی ویسٹ پوائنٹ کے گریجویٹ تھے۔ اس قرارداد میں تاریخی حقائق کا ایسا مسئلہ پیش کیا گیا ہے کہ اسے سنجیدہ دستاویز قرار دینا مشکل ہے۔ القاعدہ کی بنیاد 1989ء میں پشاور میں رکھی گئی تھی۔ فروری 1998ء میں القاعدہ نے جہاد کا جو فتویٰ جاری کیا اس پر کم از کم ایک پاکستانی مذہبی رہنما کے دستخط شامل تھے۔ اسامہ بن لادن سمیت القاعدہ کے درجنوں اہم رہنما پاکستان سے گرفتار ہوئے ہیں یا مارے گئے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان میں دہشت گردی کو افغانستان پر غیر ملکی حملے کا ردعمل قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایسی سادہ لوحی ہے جسے شکست خوردگی ہی کہا جا سکتا ہے۔
ریاست دیر تک اپنی عملداری کا موٴثر اظہار کرنے میں ناکام رہے تو غیر محسوس طور پر وہ نکتہ قریب آپہنچتا ہے جہاں ریاست کی حقیقی قوت نافذہ بھی مخدوش ہو جاتی ہے۔ گوریلا گروپ مذاکرات اور لڑائی کی دو طرفہ حکمت عملی سے ریاست کو اسی مقام کی طرف لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ کیا ایسا تو نہیں کہ ہماری ریاست دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی اہلیت بھی کھو بیٹھی ہے۔ دہشت گردی کو عالمی تناظر سے الگ کر کے دیکھنا درست نہیں۔ عالمی جہاد کی تحریک میں پاکستان ، سینٹرل ایشیاء، یورپ اور بہت سے عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے بنیاد پرست گروہ شامل ہیں۔ اس کے ردعمل میں بھی بہت سی علاقائی اور عالمی طاقتیں ملوث ہو چکی ہیں۔ پاکستان بین الاقوامی حقائق سے الگ رہتے ہوئے اس خطرے کا موٴثر مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ ہمیں طالبان کی صورت میں ایک مربوط سیاسی نظریئے کا نہیں، ایک ذہنی کیفیت کا سامنا ہے۔ طالبان کے معاشی نظریات اور سماجی رویّے ایسے ناقابل عمل ہیں کہ ان کے ساتھ کسی قومی ریاست کا نباہ ممکن نہیں۔
روس کے خلاف کشمکش میں ہماری ریاست اور امریکہ نے کھلے بندوں افغان مزاحمت کاروں کا ساتھ دیا۔اس کے باوجود 89ء سے 94ء تک پاکستانی ریاست افغان مسلح گروہوں سے اپنی بات منوانے میں ناکام رہی۔ گزشتہ دس برس میں افغان مزاحمت کی زمینی نوعیت کے پیش نظر پاکستان کی ریاست کو اب وہ ٹوٹا پھوٹا اخلاقی دباؤ بھی حاصل نہیں۔ امریکی انخلا کے بعد پاکستان کے لئے افغان مزاحمتی گروہوں پر موٴثر رسوخ کے امکانات معدوم ہیں۔ ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ امکان یہ ہے کہ مختلف جہادی گروہوں میں موجود فکری یکسوئی اور تنظیمی ربط ضبط کے باعث پاکستان زیادہ شدید خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے۔ کل جماعتی کانفرنس نے اس ممکنہ صورتحال میں پاکستان کو مضبوط کرنے کے بجائے اس کی عالمی تنہائی کو بڑھانے کا کام کیا ہے۔ نظریاتی کشمکش میں شخصی تعلقات اور انفرادی رسوخ غیر اہم ہوتے ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اگر قاضی حسین احمد اور جنرل جاوید ناصر، گلبدین حکمت یار اور برہان الدین ربانی سے اپنی بات منوانے میں ناکام رہے تھے، اگرملا عمر کے سامنے جنرل محمود احمد بے بس تھے تو طالبان کے ساتھ ثالثی کے ہم عصر دعویداروں کو بھی بھنڈی کا سالن کھانے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔
معاشرے میں اختلافات کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں۔ پہلی صورت میں اختلاف کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً ثقافتی، مذہبی، نسلی یا لسانی اختلاف۔ اس نوع کے اختلاف کو برداشت نہ کیا جائے تو معاشرے میں انتشار پھیل جاتا ہے۔ ان اختلافات سے نمٹنے کے لئے معاشرے میں تکثیریت کو فروغ دینا پڑتا ہے۔ اختلاف کی دوسری صورت مختلف گروہوں میں معاشی اور سیاسی مفادات کا ٹکراؤ ہے مثلاً صنعتی اور زرعی طبقات یا تنخواہیہ طبقے اور تجارت پیشہ گروہوں کے تحفظات۔ سیاست کا بنیادی منصب ان متنوع تحفظات کے مابین مکالمے کی مدد سے ایسا سمجھوتہ تلاش کرنا ہے جس میں جملہ طبقات کے مفادات کا زیادہ سے زیادہ تحفظ ہو سکے۔
اختلاف کی تیسری صورت وہ تصادم ہے جو طرز زندگی اور اجتماعی مقاصد کے حوالے سے وجودی قطبیت سے جنم لیتا ہے۔ زارروس اور کمیونسٹوں کے درمیان مفاہمت کی کوششیں بالآخر کمیونسٹوں کی کامیابی پر منتج ہوئیں۔ چین میں ماؤزے تنگ نے اپنے مخالفین کے ساتھ درجنوں معاہدے کئے۔ ان میں سے ہر معاہدہ ایک ایسی حکمت عملی کا حصہ تھا جس کا حتمی نتیجہ کومن تانگ کی شکست کی صورت میں برآمد ہوا۔ ایران میں شاہ کے خلاف جدوجہد میں تودہ پارٹی اور مذہبی عناصر میں اتحاد بالآخر مذہبی انتہا پسندی کی کامیابی پر منتج ہوا۔ 1938ء میں معاہدہ میونخ کے بعد چیمبرلین نے اپنے زمانے کے لئے امن کی ضمانت حاصل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ 1939ء میں مولوٹوف، ربن ٹراپ معاہدے کے بعد روس کو صرف دو برس کی مہلت مل سکی۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کو ایسی ہی وجودی کشمکش کا سامنا ہے اور ہم اس خطرے کی حقیقی نوعیت سے خوفزدہ ہیں یا اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔
پاکستان کی ریاستی اور تمدنی قوتوں میں نقب زنی کی جا چکی ہے۔ 1971ء کے المیے میں مشرقی پاکستان کے چیف سیکریٹری شفیع الاعظم کا کردار ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ ہمیں جاننا چاہئے کہ آج کے پاکستان میں ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر حملے کی تاویلات کون پیش کر رہا ہے۔ جہاں تک مکالمے کو موقع دینے کا تعلق ہے تو2003ء سے ہم مذاکرات ہی کو موقع دیتے آ رہے ہیں۔ طالبان اور انتہا پسندوں سے کئے گئے ہر معاہدے کا انجام ایک جیسا تھا۔ دہشت گردی مزید مضبوط ہوئی اور پاکستانی ریاست پر بدعہدی کا الزام دھرا گیا۔ ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ہم نے اب تک دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن سیاسی، قومی اور ریاستی ردعمل کو موقع نہیں دیا۔ نومنتخب حکومت کے لئے ریاستی عملداری قائم کرنے کا اچھا موقع بظاہر ضائع کر دیا گیا ہے۔ طالبان کے ساتھ مفاہمانہ گرمجوشی کی مدت چھ ماہ سے زیادہ نہیں۔ 2014ء کے موسم بہار میں ایک نیا منظر سامنے آئے گا۔
تقسیم ہند کی اکھاڑ پچھاڑ میں فریقین نے ایک دوسرے کی ہزاروں عورتیں اغوا کر لی تھیں۔ فسادات کی آگ ٹھنڈی ہونے کے بعد ان معصوم عورتوں کی بازیابی کا مرحلہ آیا تو کئی جاں گسل کہانیاں سامنے آئیں۔ اردو کے شاعر مختار صدیقی نے اس المیے پر ”باز یافتہ“ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں امید کا زاویہ آپ کو مبارک، ہماری کیفیت کی ترجمانی اس نظم کے آخری بند میں ملاحظہ فرمائیے
طوفان میں جو ناؤ کھو گئی تھی
پھر آن لگی ہے اس کنارے
یوں تو ہے خدا کا شکر واجب
لیکن کسے ناخدا پکارے؟
تازہ ترین