• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی ایجنڈے اور امریکی سفارش پر آئی ایم ایف نے5ستمبر2013ء کوپاکستان کو6.7ارب ڈالر کاقرضہ دینے کی منظوری دی ہے۔اس قرضے کی شرائط کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے،31دسمبر2013ء سے پہلے گیس کے نرخوں میں زبردست اضافہ ہوگا جبکہ اگلے سال بجلی کے نرخوں میں ایک مرتبہ پھر اضافہ کیاجائے گا۔ان شرائط کی وجہ سے صنعتوں کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا، افراط زرہدف سے زیادہ اور شرح نمو موجودہ مالی سال کے بجٹ اہداف سے کم رہے گی۔حکومت نج کاری کے نام پر قومی اثاثے غیر ملکیوں کے ہاتھ بھی فروخت کرے گی جوکہ نوآبادیاتی نظام کی ایک نئی شکل میں واپسی کے مترادف ہوگا۔اس امر میں کسی پاکستانی کوقطعی شبہ نہیں ہوناچاہئے کہ آئی ایم ایف کا یہ تین سالہ پروگرام پاکستان کے نقطہ نظر سے ایک مرتبہ پھر ناکامی سے دوچار ہوگا اور اس میں30جون2016ء تک طے شدہ بیشتر اہداف حاصل نہیں ہوسکیں گے۔یہ قرضہ چونکہ امریکی سفارش پردیا جارہا ہے اس لئے پاکستان کودہشت گردی کی جنگ میں”مزید اور کرو“کے امریکی مطالبات پر بھی آخرکار عمل کرنا ہی ہوگا جس سے قومی سلامتی کودرپیش خطرات میں اضافہ ہو گا۔ یہی نہیں،صرف ایک برس میں اس جنگ سے پاکستانی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کا حجم اگلے 3برسوں میں پاکستان کوآئی ایم ایف سے ملنے والے قرضے کے حجم سے کئی گنا زیادہ ہوگا۔وزیراعظم نواز شریف کے حالیہ دورہ چین میں اس ملک سے معاشی تعلقات بڑھانے خصوصاً خنجراب سے گوادر تک تجارتی راہداری کے جس طویل المدتی منصوبے پر مفاہمت ہوئی ہے اس کی پیشرفت میں اس قرضے سے رکاوٹ پڑے گی۔امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت کوپاکستان کے زمینی راستے سے افغانستان کو تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال وسط ایشیائی ریاستوں تک راہداری مل جائے ۔پاکستان بھارت کو اپنا بڑا تجارتی پارٹنر بنانے، بھارت کو نہایت پسندیدہ ملک کادرجہ دینے اور بھارت کوزمینی راستے سے افغانستان تک رسائی دینے کے لئے جواقدامات اٹھا رہا ہے وہ امریکی ایجنڈے کا ہی حصہ ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے امریکہ یورپی یونین اور ان کے اتحادی” نئی سلک روٹ“ کے منصوبوں کوآگے بڑھانے میں سرگرم ہیں۔
اس منصوبے کے تحت جنوبی ایشیاء (بھارت) کو براستہ پاکستان وافغانستان زمینی راستے سے وسط ایشیاء کی ریاستوں تک تجارتی راہداری فراہم کرنا اور ان ملکوں کے درمیان ریل، شاہراہیں اور ترکمانستان، افغانستان پاکستان اور بھارت گیس پائپ لائن بنانا بھی شامل ہیں۔ امریکہ دراصل افغانستان کوجنوبی ایشیا ، وسط ایشیاء، یوریشیا اور مشرق وسطیٰ کے درمیان زمینی راستے سے پل بنانے اور چین کوضمنی حیثیت( سائڈلائن) کرنے پر عمل پیرا ہے جبکہ چین کا نیو سلک روڈ کا اپنا خواب ہے۔چین دراصل یورپ اور ایشیاء کے ملکوں بشمول روس بذریعہ ریل تجارتی راہداریاں بنانا اور ایشیاء ویورپ کے درمیان شاہراہ بنانے کا عزم رکھتا ہے۔پاکستان اور چین نے کئی دہائیاں پہلے شاہراہ ریشم( سلک روڈ) بنا کر پرانی سلک روڈ کی بحالی کا آغاز کیاتھا۔ نواز شریف نے چین سے گوادر تک جس تجارتی راہداری کے ضمن میں مفاہمت کی ہے وہ بھی اسی منصوبے کی کڑی ہے۔ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کوبھی چین تک وسعت دینے کی گنجائش ہے گوادر پورٹ کا انتظام چینی کمپنی کے حوالے کرنا بھی ایک اہم قدم ہوسکتا ہے بشرطیکہ اس معاہدے کا دائرہ کار بڑھایا جائے۔
ہم نے اپنی کتاب پاکستان اور امریکہ۔دہشت گردی، سیاست و معیشت“ میں اور انہی کالموں میں گزشتہ 12 برسوں میں لکھا ہے کہ دہشت گردی کی جنگ کے امریکی مقاصد میں وسط ایشیائی ریاستوں کے تیل اور گیس کے ذخائر اور ان کی ترسیل کے راستے پر اپنا تسلط قائم کرنا، پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا اور اس کی معیشت کوکمزور کرنا پاکستان کا جغرافیائی نقشہ تبدیل کرنا، بلوچستان کی علیحدگی کی راہ ہموار کرنا اور خطے میں بھارت کی بالادستی قائم کرناشامل ہیں۔آئی ایم ایف سے پاکستان کونیا قرضہ دلوانے کے بعد امریکہ ان مذموم مقاصد کے حصول کے لئے پاکستان کے گرد اپنا گھیرا مزید تنگ کرتا چلا جائے گا۔یہ بھی نظر آرہا ہے کہ امریکی دباوٴ پر ایران پاکستان گیس پائپ لائن پروجیکٹ حقیقت کاروپ نہیں دھارے گا۔
ہمارے تخمینے کے مطابق امریکہ نے اتحادی امدادی فنڈ کی مد میں پاکستان کو تقریباً چھ ارب ڈالر ادا کرنے ہیں اور اگر یہ رقم مل جاتی توپرانے قرضے کی ادائیگی کے لئے پاکستان کوآئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔یہ بات بھی ہر محب وطن پاکستانی کے لئے چشم کشا ہونی چاہئے کہ آئی ایم ایف نے نومبر1980ء سے اکتوبر 2008ء تک کے28برسوں میں پاکستان کوصرف چھ ارب ڈالر کے قرضے دیئے جبکہ نومبر2008ء سے ستمبر2013ء کے پانچ برسوں میں پاکستان کے لئے تقریباً18ارب ڈالر کے قرضوں کی منظوری دی۔
یہ بات واضح ہے کہ یہ خصوصی مہربانی امریکی مقاصد کی تکمیل کے لئے کی گئی جس میں پاکستان کے اسٹیٹ اور نان اسٹیٹ ایکٹرز بھرپور تعاون کرتے رہے ہیں۔اس حقیقت کاادراک ضروری ہے کہ اگر قانون سازی کرکے ممبران پارلیمینٹ وصوبائی اسمبلیوں اور سول ملٹری بیوروکریسی کوپابند کردیا جائے کہ وہ چھ ہفتوں کے اندر بیرونی ملکوں کے بینکوں کے کھاتے پاکستان میں بینکوں میں منتقل کرالیں اور سمندر پار پاکستانیوں کو ایک سال یا اس سے زائد میعاد کے ڈپازٹس پر4.5فیصد سالانہ شرح منافع کی پیشکش کی جائے توپاکستان آئی ایم ایف کے قرضوں سے بے نیاز ہوسکتا ہے۔ آئی ایم ایف نے گزشتہ 25برسوں میں اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام کے تحت قرضے فراہم کئے ہیں اور موجودہ قرضہ بھی اسی پروگرام کے تحت ہے مگر موجودہ حکومت نہ یہ اصلاحات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور نہ آئی ایم ایف اس کے لئے اصرار کرے گا چنانچہ اب سے تین برس توکیا پانچ برس بعد بھی معیشت میں پائیدار بہتری نہیں آئے گی۔ آل پارٹیز کانفرنس کی9ستمبر کی متفقہ قرار داد پر عملدرآمد کے لئے یہ ناگریز ہے کہ پاکستان خود امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر مالی انحصار کم کرے مگر اس کانفرنس کے متفقہ اعلامیہ میں اس ضمن میں ایک لفظ بھی موجود نہیں ہے۔
تازہ ترین