• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسے جیتنا ہی تھا، اس لئے نہیں کہ وہ قاتل ہے بلکہ اس لئے کہ وہ زور و زر کا مالک ہے۔ دوسرے کو ہارنا ہی تھا اس لئے نہیں کہ اس کا بیٹا قتل ہوا، اس لئے بھی نہیں کہ قوم کی اکثریت اس کے ساتھ تھی، اس لئے بھی نہیں کہ اسے ناانصافی کا ڈر تھا بلکہ اس لئے کہ اسے غیر قانونی انداز میں دولت کمانے کی عادت تھی۔ اسی لئے تو وہ لاش کا سوداگر بن گیا، سوداگر کچھ بھی کرسکتا ہے، اسے صرف منافع چاہئے خواہ منافع کی قیمت کچھ بھی ہو۔
چند ہفتے پیشتر خاکسار نے ”جنگ“ کے صفحات پر لکھا تھا کہ جب سے دنیا بنی ہے زور اور زر حکومت کررہے ہیں۔ زور والا زر چھین لیتا ہے اور صاحب زر، زور خرید لیتا ہے۔ جب کسی کے پاس زر اور زور دونوں ہی ہوں تو پھر کسے مجال کہ سامنے آئے۔
شاہ زیب قتل کیس میں ایسا ہی ہوا۔ دولت اور طاقت کے زور پر پوری قوم کے ساتھ مذاق ہوگیا۔ میں اسے مذاق کیوں کہہ رہا ہوں، اس لئے کہ جب شاہ زیب کے طاقتور قاتل ہاتھ نہیں آرہے تھے تو پوری قوم نے پہلے پہل سوشل میڈیا پر آواز اٹھائی پھر سول سوسائٹی اور میڈیا ہمنوا بن گیا۔ قوم کی آواز اتنی طاقتور تھی کہ دولت ہارتی ہوئی محسوس ہونے لگی مگر آج ”سوداگری“ کے بعد قوم کی طاقتور آواز نحیف ہوگئی ہے آج معاشرہ قاتل کو نہیں مقتول کے ورثا کو قوم کا مجرم سمجھتا ہے کیونکہ جو کام معاشرے کا تھا اس نے خوب کیا، عدالتوں نے بھی بلاخوف و خطر قاتلوں کو سزائیں سنائیں مگر جب مقتول کا باپ ہی ”سوداگر“ بن جائے تو کوئی کیا کرسکتا ہے۔
چوبیس اور پچیس دسمبر 2012ء کی درمیانی شب شاہ زیب نے اپنی بہن کی خاطر جان قربان کی، اس نے غیرت مند ہونے کا ثبوت دیا مگر افسوس معافی نامے پر اس بہن کے دستخط بھی موجود ہیں، وہ باپ جو انصاف کیلئے اپیلیں کرتا تھا جو میڈیا کے سامنے آ آ کر بلند بانگ دعوے کرتا تھا کہ میں آخر وقت تک پیچھا کروں گا، اس نے ”سوداگری“ کا مظاہرہ کیا اور وہ سارے کے سارے دعوے بھول گیا، ان پر مٹی ڈال گیا۔ اسے دعوؤں سے نہیں کسی اور سے پیار تھا جس کی خاطر اس نے بیٹے کی لاش پر ”سوداگری“ کی۔ معافی نامے پر اس کے دستخط چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ لوگو! آئندہ کسی کیلئے آواز نہ اٹھانا اس لئے کہ جس کیلئے آواز اٹھاؤ گے وہ بک جائے گا۔ اس کے دستخط یہ پیغام بھی دے رہے ہیں کہ انسان دولت کے حصول میں اندھا ہوجاتا ہے وہ دولت کو ہر چیز پر ترجیح دے سکتا ہے اور دولت کی خاطر کوئی بھی قربانی دے سکتا ہے، خواہ وہ اکلوتے بیٹے ہی کی کیوں نہ ہو۔ شاہ زیب کے والد کے دستخط پورے معاشرے کو پیغام دے رہے ہیں کہ آئندہ کوئی بھی طاقتور اور دولت مند آدمی کسی کو بھی بلاخوف و خطر مار سکتا ہے کیونکہ دولت کے عوض معافی مل سکتی ہے۔ دولت اور طاقت کے زور پر ہر جرم کیا جاسکتا ہے۔ شاہ زیب کے والد کے دستخطوں نے معاشرے کے طاقتور طبقوں کو ”کھلے راستے“ کا پیغام دیا ہے اور ثابت کردیا ہے کہ وڈیرے کی ہار مشکل ہے۔ وڈیرے کیلئے دیہات اور شہر ایک جیسے ہیں، وہ جہاں جو چاہے کر سکتا ہے۔
معافی نامے سے متعلق متضاد بیانات نے صورتحال کو اور بھی مشکوک بنادیا ہے کیونکہ کوئی ایک موٴقف ہوتا تو بات اور ہوتی اب جب شاہ زیب کے خاندان کے تمام افراد کے بیانات میں تضادات ہیں تو اس ”شیشہ گری“ کے کام پر کیا کہا جائے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ”ہم نے اللہ کے نام پر معاف کیا“ کبھی کہا جاتا ہے کہ ”اللہ قاتلوں کو سزا دے گا“ کبھی سندیسہ آتا ہے کہ گواہیاں دینے والوں کی فکر تھی حالانکہ وہ تو بے چارے کسی کام سے نہیں مکرے۔ یہ الگ بات کہ ان کے حصے میں سوائے گواہیوں کے کچھ نہیں آیا۔ معافی نامے پر شاہ زیب کی ماں کے دستخط بھی ہیں۔ کوئی ماں اپنے لخت جگر کی لاش پر ہونے والی ”سوداگری“ کا حصہ بنے، دل نہیں مانتا مگر حقائق یہی ہیں، حقائق سے انکار کیسے کیا جائے۔ مجھے شاہ زیب کے ورثا کے عمل پر بے اختیار عائشہ مسعود ملک کا شعر یاد آرہا ہے کہ

ہے بہت دشوار عاشی# آئینے کا سامنا
کونسا ”چہرہ“ کرو گے آئینے کے سامنے
شاہ زیب کا قتل ایک طرح سے معاشرے کا قتل تھا اس لئے معاشرے نے آواز بلند کی اور جب مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی دبئی بھاگ چکا تھا تو سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے کر اسے واپس بلوایا تھا۔ سات جون2013ء کو جب خصوصی عدالت برائے انسداد دہشت گردی کے جج غلام مصطفی میمن نے شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو موت جبکہ سجاد تالپور اور مرتضیٰ لاشاری کو عمر قید کی سزا سنائی تھی تو قاتل عدالت سے نکلتے وقت فتح کے نشان بنارہے تھے، ایسے نعرے بازی ہورہی تھی جیسے سومنات کا مندر فتح ہوگیا ہو، کسے خبر تھی کہ سودا ہوچکا ہے، لاشوں کی سیاست سنتے تھے، لاشوں کی ”سوداگری“ پہلی مرتبہ سامنے آئی، پہلی مرتبہ اس لئے کہ جو لوگ لاشوں کی ”سوداگری“ کرتے ہیں وہ دعوے نہیں کرتے۔ اس مقدمے میں تو دعوؤں کی بارش ہوئی تھی۔ قاتلوں کو معاف کیا جاچکا ہے مگر ابھی دہشت گردی کا مقدمہ باقی ہے۔ معافی نامہ معاشرے کے چہرے پر تھپڑ ہے اس تھپیڑے نے وڈیروں کو اجازت نامہ دے دیا ہے کہ وہ جس کی بیٹی کو چاہیں چھیڑیں اور پھر جسے چاہیں قتل کر ڈالیں۔ سرور ارمان کے چند اشعار شامل نہ کروں تو تشنگی رہ جائے گی کہ
سر جھکائے ہوئے مقتل میں کھڑے تھے جلاد
تختہٴ دار پہ لٹکی ہوئی خودداری تھی
خون ہی خون تھا دربار کی دیواروں پر
قابضِ تختِ وراثت، ریا کاری تھی
اک قیامت تھی کہ رسوا سرے بازار تھے ہم
اور پھر اس کی وہ تشویش بھی بازاری تھی
تازہ ترین