• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آرتھر نے مین (Arthur Naiman) نے اپنی مختصر کتاب (9/11: The Simple Facts) لکھ کر جیسے سمندر کو کوزے میں بند کیا ہو۔ کتابی ریفرنسز ، تحقیق، ویب سائٹس اور فلمی تجزیوں کی ایسی بھرمار کہیں اور تانک جھانک کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
جم ہاف مین (Jim Hoffman) نے اپنی کتاب "Building a better Mirage" میں9/11 پر بیٹھنے والی سرکاری انکوائریز کا پول ہی توکھولا ہے ۔ بقول ہاف مین ” پیش کیا گیا مواد بکواس، دھوکا دہی اور بے ایمانی پر مبنی رہا۔ آپ کو پی ایچ ڈی ڈگری نہیں چاہیے یہ سمجھنے کے لیے کہ سرکاری موقف مبنی بر جھوٹ ہے‘ ‘۔
سانحہ 11 ستمبر کی سرکاری سطح پر رپورٹس کہتی کیا ہیں ”انہدام کے ذمہ دار جہاز“۔ تحقیق نے ثابت کیاجہازوں کا ٹکرانا اتنی بڑی تباہی کا ہرگز موجب نہیں۔سرکاری رپورٹوں، انکوائریوں نے بنیادی سوالات کو نظر انداز کیا چنانچہ جہالت ، نااہلی اور سازش کی بو ہی آنا تھی۔
11 ستمبر 2001 کوAM 8:47 (امریکی وقت) پر امریکن ایئر لائنزکا جہاز WTC-1 نارتھ ٹاورسے ٹکراتا ہے، 9:03AM پر یونائیٹڈ ایئرلائن کا جہازساؤتھ ٹاور کو ٹکر مارتا ہے دونوں ٹاورز کے 6/7 فلورز متاثر ہوئے۔ آگ کا بگولہ جو چند منٹ بعد کالے دھوئیں میں تبدیل ہوتا نظر آیااس بات کی غمازی کہ آگ دم توڑ چکی۔ ساؤتھ ٹاور 56 منٹ میں اور نارتھ ٹاور 1 گھنٹہ 42 منٹ بعد ایسے زمین بوس ہوتے ہیں جیسے اوپر والی چھتوں کو نیچے جانے میں رکاوٹ نہ ہو۔سرکاری موقف کہ کالم ٹو بیم کنکشن فیل ہوئے چنانچہ ہر چھت کی رکاوٹ نچلی چھت تھی۔ سوالات اور تجسس کا لامتناہی سلسلہ بالکل جائز۔
1۔فزکس کا بنیادی اصول کہ کوئی چیز گر کر اپنے سے طاقتور رکاوٹ کو نہیں گرا سکتی ۔ منزل نمبر 1منزل نمبر2 سے طاقتور اورمنزل نمبر 50 منزل نمبر100 سے دگنی طاقتور چنانچہ یہ ناممکن اور ناقابلِ یقین کہ اوپر کی چند منزلیں اپنی بنیادوں کو ہی مسمار کر دیں۔2۔بلند قامت سٹیل وکنکریٹ عمارت میںآ گ لگنے کی درجنوں مثالیں موجود۔ماضی میں کسی موقع پر اسٹیل پگلی نہ کنکریٹ ٹیلکم پاؤڈر بنی اور نہ ہی سڑکچر کوکبھی نقصان پہنچا۔بلڈنگ سازوسامان آگ کے پاس اتنی طاقت ہی نہیں کہ اسٹیل سڑکچر کو نقصان پہنچا سکے۔ 3۔ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ٹاورز کا بنیادی ڈیزائن ہی اس مفروضے پر کہ جہاز ٹکرانے کا جھٹکابھی جھیل سکے اور فیول فائر سے سڑکچر بھی متاثر نہ ہو۔ فیول فائر سے سڑکچر کا متزلزل ہو کر کنکشن کو متاثر کرنا سمجھ کے کسی خانے میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ 4۔پھر انہدام جامع، مکمل اور یکساں (Symmetrical) کیسے ممکن ہوا؟ ساؤتھ اور نارتھ ٹاورز دونوں 110 منزلہ 287 کالم (47 کورکالم اور 240 کالم محیط پر) یعنی 60000 کالم ٹو فلور کنکشن ۔ کیسے مان لیا جائے کہ 110 منزلوں کے فلور ٹو کالم کنکشن ایک دم فیل ہو گئے۔ انٹرنیٹ پر وڈیو دیکھیں آگ تو چند فلور پر، 110 منزلوں کی تباہی ایک دم جبکہ ہر فلور کے فرش کی موٹائی 3فٹ ، رقبہ ایک ایکڑملبہ میں کسی فلور کا کوئی ٹکڑا نظرموجود نہیں۔5 ۔آخر3000 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں جب مرنے والوں کو تلاش کیا گیا تو معلوم ہو ا نشان تک نہیں۔ بلڈنگ کے کنکشن فیلیئرہونے سے سوختہ ، چیتھڑی یامسخ شدہ لاشیں تباہی کے انبار میں ہونی چاہیے تھیں۔جب ملیں بھی تو کہاں ملیں(نہ ہی ملتیں تو اچھاتھا )تکلیف دہ کہ چند سو گز کے فاصلے پر 40 منزلہ ڈوچے بینک کی بلڈنگ پر 700 انسانی ہڈیاں اکٹھی ضرور ہوئیں جن میں بڑی سے بڑی ہڈی 1/2 انچ سے چھوٹی تھی۔جواب ضروری کہ انسانی چیتھڑے اڑ کر گردونواح میں کیسے پہنچے؟ مزیدلاکھوں ٹن دفتری سازوسامان کاٹریس ہی نہیں۔بتایاتو یہ گیا کہ گارڈر گرمی کی شدت سے خم کھا گئے کنکشن فیل ہونے پر ٹاور زمین بوس ہوئے۔ اس صورت میں لاشیں،انسانی اعضاء، دفتری سازوسامان کے آثارکی غیر موجودگی حیران کن۔
6۔ سٹیل کیسے پگلی؟ جہاں ہم یہ توقع رکھتے تھے کہ انسانی اعضاء ، میز کرسی ، کمپیوٹر وغیرہ کا شائبہ ملنا ناگریزوہاں یہ ہرگز توقع نہیں تھی کہ جہاز ٹکرانے پر 80000 ٹن سٹیل لاوہ کی طرح پگل کربہہ نکلے گی۔یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر ابو الحسن آستا نے پہلا سڑکچرل انجینئر تھا جس کو سرکاری طور پر تباہ حال جگہ کے معائنے کی اجازت ملی۔ بقول مسٹر آستانے ” میں نے پیلی اور سفید دھکتی سٹیل موقع پردیکھی “۔ امریکی لیبر ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق ”ہمیں 3 مہینے سٹیل کو ٹھنڈا کرنے پر لگے جبکہ شروع کا ٹمپریچر 3000F سے زیادہ تھا ۔بالآخر 19 دسمبر 2001 کوجاکرنارمل ہوا “۔7۔FEMA کی رپورٹ کا اپنڈکس "C" کہتا ہے کہ جیٹ فیول اور دفتری آگ 800F سے زیادہ حدت نہیں پیدا کر سکتی NIST نے جب اپنی رپورٹ تیار کی تو اپنڈکس "C" کو کیوں نظر انداز کر دیا۔ انگریزی مقولہ کہ ”قالین کے نیچے چھپا دو“۔وگرنہ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا پڑتاکہ اسٹیل جو 2750F پر پگھلتی ہے !کیسے پگھلی؟8 ۔تمام سرکاری رپورٹس کہ ٹاور منزل بہ منزل کنکشن فیل ہونے پر منہدم ہوااور ایک ایک کرکے سارے فلور ایک دوسرے پر گرے چنانچہ ہر نچلا فلور اوپر کے فلور گرنے سے Collapse کرتا ہے فلور کو Resistance ملنا ہی تھی چنانچہ انہدام کے لیے وقت درکار تھا۔آنکھوں نے کیا دیکھا؟اور انٹرنیٹ پر عام ہو چکا کہ 10 سیکنڈ میں ٹاورزمین بوس ہوگئے ! کیسے ؟9۔سینکڑوں ٹن وزنی اسٹیل گارڈر دھنی ہوئی روئی کی مانند سینکڑوں میٹر دور فٹ بال فیلڈ اور دیگر جگہوں پر اڑتے کیسے پہنچے؟ڈیوڈ چانڈلر نے اپنی لیبارٹری میں دھند اور گہری راکھ کے بادلوں میں بنی فلم کے مخفی اور دھندلے پہلو باریک بینی سے اجاگر کیے اور نتیجہ اخذ کیا کہ سینکڑوں اڑن گارڈر اورتیرتی اشیاء ہوا میں ہائی سپیڈ کے ساتھ بلڈنگ سے نکلیں۔
جائزہ لیں کہ انہدام کی اصل وجوہات کیا تھیں؟آخر کیوں9/11 آفیشل موقف سوراخوں سے بھرا ہے؟ معاملہ انتہائی تکنیکی چنانچہ کوئی بھی ماہرِفزکس، ریاضی، انجینئرنگ تعمیرات یہ مان ہی نہیں سکتا کہ بلڈنگیں جہازوں کے ٹکرانے سے زمین بوس ہوئیں۔ انجینئرنگ کی معمولی سمجھ بوجھ کافی ہے کہ ٹاورز اور ملحقہ بلڈنگ WTC-7 کا انہدام کنڑولڈ Demolition سے ہی ممکن تھا ۔تحقیق نے بھی یہی طے کیا ہے کہ ہزاروں Explosives Devices کو کالم اور گارڈروں کے ساتھ جوڑ اگیا پھر دھماکے سے اڑا دیا ۔ بلندو بالا عمارتوں کو گرانے کا معروف طریقہ بھی یہی ہے اس سے چند سیکنڈوں میں بغیرملبہ بکھرے Symmetrical گرتی ہیں۔ روزمرہ کی توڑپھوڑ میںRDX یا C4 کا استعمال عام ہے ۔اس سے انہدام یکساں اور بلڈنگ بڑے ٹکڑوں میں بغیر پھیلے بنیادوں پر ہی دھڑم سے گرتی ہے ۔ دھماکہ خیز مواد چونکہ تباہ کن اور مقدار میں زیادہ تھا فلور نمبر1 تافلور نمبر 26 کا نام و نشان تک مٹ گیا یہ کام صرف کثیرمقدارمیں تھرمائیٹ (Thermite) ہی سے ممکن ۔جو سٹیل کو کیک کی طرح کاٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔
چنانچہ جب جائے وقوع سے راکھ اور مٹی کے نمونے حاصل کیے گئے تو سب سے پہلے انجینئر RJ Leeنے لمحوں میں بتا دیا کہ درجنوں نمونوں کا حاصل ایک ہی کہ 5.87 فیصد نانوتھرمائیٹ(Super Thermite) موجود۔ دلچسپ بات کہ معمول کے انہدام پر ملبے کی مٹی میں RDX یا C4 کی مقدار 0.04 فیصدرہتی ہے ۔ایک اور دلچسپ پہلو کہ جیٹ فیول کی آگ کی حدت 800F ہے اورسٹیل 2750F پر پگھلتی ہے جبکہ سپرتھرمائیٹ کی حدت 4500F تک پہنچتی ہے ۔تھرمائیٹ میں سلفر، ایلومینیم اور آئرن آکسائیڈ کے اضافے سے تیار مکسچرسپر تھرمائیٹ یا نانوتھرمائیٹ (Nanothermite) قیامت خیز تباہی کی اہلیت رکھتا ہے ۔ایسا مکسچر صرف ہائی ایڈوانسڈ امریکن نیشنل سیکورٹی لیبارٹری میں تیار ہو سکتا ہے۔ اگر نانو تھرمائیٹ کو ذہن میں رکھیں تو گارڈر ، کالم ، ہڈیوں کے کچومر اور کنکریٹ کا ٹیلکم پاؤڈر بن کر اڑ کر گردونواح میں پھیل جانے کا معمہ حل ہو جاتا ہے۔
دہراتا ہوں میرا موضوع یہ نہیں کہ اس دہشت گردی کا اصل ذمہ دار کون ہے ؟ اسامہ بن لادن یا امریکہ کی اندرونی اسٹیبلشمنٹ ؟ اس وقت عرض فقط اتنی کہ یہ تباہی اورانسانی خون جہازوں کے ٹکرانے سے نہیں بلکہ معاملہ کچھ اور ہے جس کی پردہ داری ہے ۔ دہشت گرداندر تھے یا باہر؟ چند حقائق کو اجاگر کرنے کی کوشش۔ جھٹلانا ناممکن۔ حقیقت سائنس اور تحقیق کی مرہونِ منت ہی توہے۔
جاہلوں کو منہ نہیں لگاتا لیکن مکار اور جھوٹے کان کھول کر سن لیں کہ ٹاورز جہازوں کے ٹکرانے سے پاش پاش نہیں ہوئے بلکہ دونوں ٹاورزبمعہ ملحقہ بلڈنگ WTC-7 کنٹرولڈ دھماکہ خیز مواد سے زمین بوس ہوئے۔ سائنسی اور انجینئرنگ قواعد و ضوابط بھی یہی بتاتے ہیں۔ گو پچھلے 12 سال پہلو تہی ہوئی اب اس کا ازالہ ہوجانا چاہیے۔
تازہ ترین